آزادکشمیر میں ریپ کیسز کے بڑھتے واقعات

ڈڈیال (ہارون مغل،نمائندہ پنڈی پوسٹ)پاکستان اور اب آزاد کشمیر میں بھی ریپ کیسز میں ہو شر با اضافہ ہوتا جا رہا ہے خواتین اور بچوں کے ساتھ جنسی ذیادتی تیزی سے بڑھتی جا رہی ہے آئے روز کہیں نہ کہیں کوئی ریپ کا واقعہ ضرور رپورٹ ہوتا ہے شہید زینب سانحہ کے بعد ڈڈیال میں شہید کنول سانحہ نے پوری انسانیت کو ہلا کر رکھ دیا ہوا ہے کنول کے قاتل کو انسان کہنا انسانیت کی توہین ہے بے پردہ خواتین کا سکرین پر آنا ، بے ہودہ اور فحاشی پر مبنی ڈرامے اور فلموں کی نمائش سے ریپ کا رجحان بڑھ رہا ہے انسان کا اپنا ایمان کمزور ہونا ، اسلامی تعلیمات سے دوری اور بروقت شادی نہ کرنا بھی جنسی ذیادتی کے اہم عوامل میں شامل ہے ان خیالات کا اظہار صدائے حق پارٹی کے مرکزی سینئر نائب صدر حاجی الطاف نے اخبار نویسوں سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کیا انہوں نے کہا کہ ایسے واقعات میں ملوث ملزمان صرف جنسی عمل کے لیے ہی کسی کو اغواء نہیں کرتے بلکہ وہ اسے تشدد کا نشانہ بناتے رہتے ہیں اور اس کے ساتھ ہر بے ہودہ قسم کا عمل کرتے ہیں ایک اسلامی ملک میں جہاں مسلمانوں کی اکثریت زندگی گزار رہی ہے ایسے واقعات میں اضافہ اس معاشرے کے ماتھے پر بدنماداغ اور دنیا بھر میں بدنامی کا باعث ہے اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہم ان واقعات کو کیسے روک سکتے ہیں؟ کیا ریپ کیسز کی روک تھام ممکن بھی ہے یا نہیں؟ ہمیں ان معصوم بچوں اور خواتین کو جنسی درندوں سے بچانے کے لئے کیا کرنا ہوگا؟اگر ریپ کیسز میں ملوث افراد کو کڑی سے کڑی سزا دی جائے، خواتین پردے کا خیال رکھیں، ٹی وی اسکرین پر فحش پروگرامز بند کئے جائیں، ہر مسلمان اپنے ایمان کو اور خدا کے ساتھ رابطے کو مضبوط کرے، بروقت شادیوں کو فروغ دیا جائے۔ تو جنسی زیادتی کے کیسز کو قابو پانے میں بڑی حد تک کامیابی مل سکتی ہے۔ مذکورہ اقدامات کے ذریعے ہم ریپ کو روکنے میں کامیاب ہوسکتے ہیں۔ آخری بات یہ کہ ہمیں نفرت انسان سے نہیں بلکہ جرم سے کرنی چاہئے۔ ممکن ہے جرم کوئی ڈاکٹر کرے، انجینئر کرے، ٹیچر کرے، تاجر کرے، ڈرائیور کرے یا کوئی مولوی اس کا مرتکب ہوواضح رہے کہ مسئلہ یہاں یہ ہے کہ ملزمان چھوٹ جاتے ہیں اور ریپ کے کیسز میں سزائو ں کا تناسب صرف 3 فیصد ہے جب سزائیں یقینی بنائی جائیں گی تو قانون کا ڈر بھی ہوگاشہید زینب کے ملزم کو سزائے موت دے دی گئی تو کیا کیسز کی تعداد میں کمی آئی؟ نہیں، لیکن کیسز اس دوران بھی بڑھے اور بعد میں بھی ان میں اضافہ دیکھا گیا، انہوں نے تجویز دی کہ حکمرانو کو شہریت کے مطابق اسلامی عدل نظام اور حکومت کو کرمنل جسٹس سسٹم (عدالتی نظام) کو مضبوط کرنے کی ضرورت ہے۔۔

اپنا تبصرہ بھیجیں