آئندہ حکومت کے چناو میں نوجوانوں کا کردار

ریاست کی تعمیروترقی میں نوجوانوں کا کردار انتہائی اہم ہوتا ہے ملک کی بہتری کے حوالے سے کسی بھی تحریک کو متحرک رکھنے کامیابی سے ہمکنار کرنے اور اسے منطقی انجام تک پہنچانے کے لیے نوجوانوں کی نمائندگی ناگزیر ہوتی ہے موجودہ وزیراعظم عمران خان کئی مواقعوں پر اپنی اس بات کو بار بار دوہرا چکے ہیں کہ نوجوان ووٹرز انکی عملی سیاست کا مرکزومحور اور انکی پارٹی کا قیمتی اثاثہ ہیں تاہم نوجوانوں کو محض ہڑتالوں سیاسی اور احتجاجی جلسے جلوسوں میں شرکت یا مزاحمتی سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرنے سے سیاسی نظام میں تبدیلی نہیں آتی جب تک نوجوانوں کو عملی طور پر ملکی سیاسی دھارے اور انتخابی عمل میں شامل نہ کیا جائے الیکشن کمیشن کے اعدادو شمارکے مطابق پاکستان میں کل ووٹرز کا47 فی صد نوجوانوں پر مشتمل ہے جنکی عمریں 18 تا 35 سال ہیں جبکہ انکی تعداد چار کروڑ بنتی ہے الیکشن کمیشن کے ڈیٹا کے مطابق پاکستان میں ووٹرزکی عمر کے لحاظ سے تازہ ترین اعدادوشمار بتاتے ہیں کہ پاکستانی نوجوان2023کے عام انتخابات کے نتائج کے تعین میں اہم کردار ادا کریں گے جسکی ایک اہم وجہ یہ ہے کہ35 سال سے کم عمر کے ووٹرز کا تناسب45.84 فیصد ہے جو نوجوانوں کو ایک مضبوط سیاسی قوت فراہم کرتا ہے کل 12کروڑ10لاکھ ووٹرز میں سے5کروڑ55 لاکھ ووٹرز کی عمریں 18سے 35سال کے درمیان ہیں جبکہ 2018 کے عام انتخابات میں ان کی تعداد 4کروڑ60 لاکھ سے کچھ زیادہ تھی جو تناسب کے لحاظ سے 43.82 فیصد بنتی ہے ان نوجوان ووٹرز میں، 3کروڑ19 لاکھ سےزائد 26 سے 35 سال کی عمر کے گروپ میں شامل ہیں جبکہ 2کروڑ 35 لاکھ افراد کی عمریں 18سے 25 سال کے درمیان ہیں ان 2کروڑ 35 لاکھ نوجوان ووٹرز میں ایک کروڑ 48 لاکھ مرد اور87 لاکھ 20 ہزارخواتین ووٹرز شامل ہیں جن میں سے اکثر2023 کے عام انتخابات میں پہلی بار ووٹ پول کریں گے موجودہ وزیراعظم یہ سمجھتے ہیں کہ موروثی اور سرمایہ دارانہ ملکی سیاسی کلچر میں نوجوانوں کی جگہ بنانا گو ایک مشکل اور کٹھن مرحلہ ہے تاہم انکا یہ پختہ یقین ہے کہ طاقتور طبقے کو قانون کی حکمرانی کے تابع لانے کے لیے نوجوانوں کا عملی سیاست میں سرگرم کردار وقت کی اہم ضرورت ہے موجودہ وزیراعظم اوردیگر سیاسی پارٹیاں آمدہ الیکشن میں نوجوانوں کے ملکی سیاست میں شمولیت کی متمنی ہیں تاہم یہ نکتہ بظاہر انکی انتخابی مہم اور الیکشن کے نتائج تک ہی محدود ہوتا ہے سرمایہ دار طبقات اور موروثی سیاست کے قائل سیاسی خاندان تعلیم یافتہ نوجوانوں کی سیاست میں مداخلت کو اپنے سیاسی مستقبل کے لیے خطرہ محسوس کرتے ہیں حال ہی میں خیبرپختونخواہ کے بلدیاتی انتخابات میں تحصیل ہری پور کے منتخب چیئرمین کی مثال ہمارے سامنے ہے جو مسلم لیگ ن کے ٹکٹ پر الیکشن میں حصہ لینے کے خواہشمند تھے مگر انہیں ٹکٹ نہیں دیا گیا اور آزاد حیثیت سے الیکشن میں حصہ لے کر کامیاب اور عوام میں مقبول ہوگئے اگر نظام بدلنا ہے تو اس مثال سے نوجوانوں کو سبق حاصل کرنا ہوگا ہمارے ملک کا سیاسی نظام سرمایہ داروں کی سیاست میں مداخلت کے بغیر مکمل نہیں ہوتا بظاہرعلامتی جمہوری طرز سیاست کے گردگھوم کر تبدیلی کے دعوے تو بہت کیے جاتے ہیں مگر عملاً سیاسی جماعتیں انتخابی عمل میں اس حوالے سے اصلاحات اور اقدامات اٹھانے کے لیے تیار نہیں ملک کے جمہوری نظام میں پانچ سال کے بعد اگر درمیان میں کوئی سیاسی بحران پیدا نہ تو انتخابات کے عمل سے گزر کر اگلے پانچ سال کے لیے نئی حکومت تشکیل پاتی ہے جس میں موروثی وخاندانی سیاست اور نوٹوں کی طاقت کا بڑا عمل دخل ہوتا ہے جبکہ مڈل کلاس تعلیم یافتہ نوجوان جو انتخابی عمل کے اخراجات برداشت نہیں کرسکتا خودبخود سیاسی عمل سے باہر ہوجاتا ہے حاصل بحث یہ ہے کہ موجودہ غیر یقینی صورتحال کے پیش نظر جس طرح کے ملکی سیاسی حالات بنتے جارہے ہیں اس سے معاشی طور پر زوال پزیر ملک ظلمت کے قعر عمیق اندھیروں میں گرتاجا رہا ہے۔مذکورہ بالا بحث سے قطع نظر موروثی اور دولت مندوں کی ملکی سیاست پر یلغار کے جمود کو توڑنا کوئی آسان بات نہیں تاہم نوجوان طبقہ اگر نظام کو بدلنے کا تہیہ کرلے اور ملکی سیاسی سرگرمیوں میں دلچسپی لے اور پارٹی ٹکٹ کے حصول میں ناکامی کے باوجود آزاد حیثیت سے بھی انتخابی عمل کا حصہ بن جائے تو جمہوری طرز سیاست کے نظام میں بااثر جماعتوں کو مزاحمتی سیاست کے زریعے مشکل میں ڈال کر پریشان کیاجاسکتا ہے گو ہمارے ملک کی سیاست جو پوری طرح دولت مندوں کاروباری شخصیات اور سیاسی خاندانی تعلقات کے مضبوط شکنجوں میں جکڑی ہے تو ایسے سیاسی نظام میں کسی اعتدال پسند نوجوان کے لیے جگہ بنانا اتنا آسان نہیں جتنا کہ خیال کیا جارہا ہے تاہم ملک کی موجودہ سیاسی پارٹیاں اگر انتخابی عمل میں واقعی عام عوام کی نمائندگی کی خواہشمند ہیں تو پھر نوجوانوں کو معقول تناسب کے لحاظ سے پارٹی ٹکٹ دے کر انتخابی عمل میں شریک کرنا ہوگا تاہم اگر منتخب جمہوری حکومتوں کیجانب سے دعوؤں کے باوجود عوام کا گلہ گھونٹنے کا سلسلہ جاری رہا تو جمہوری حکومتوں کی مسلسل نااہلی کی صورت میں وہ وقت زیادہ دور نہیں جب نظام کو بدلنے کے لیے نوجوانوں کی طرز فکر بھی بدل جائے گی اور بھرپور عوامی سپورٹ کی شکل میں ایک خونی انقلاب اقتدار کی چوکھٹ پر کھڑا دستک دیتا نظر آئے گا لہذا ایسے واقعات رونما ہونے سے قبل سیاسی پارٹیوں کے سربراہان اور ارباب اقتدار کو روایتی طرز سیاست کو بدلنا ہوگا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں