او آئی سی بے ضرر تنظیم

21 اگست 1969کو ایک ایسا درد ناک واقعہ پیش آیا جس نے تمام امت مسلمہ کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا اور ایک پلیٹ فارم پر جمع کر دیاواقعہ یوں ہے کہ ایک آسٹریلوی یہودی ڈینس مائیکل روھان نے قبلہ اول میں موجود صلاح الدین ایوبی کی فتح بیت المقدس کے وقت رکھے گئے منبر کو آگ لگا دی جس سے مسجد اقصیٰ میں آگ بھڑک اٹھی مسجدتین گھنٹے تک آگ کی لپیٹ میں رہی اور جنوب مشرقی جانب عین قبلہ کی طرف کا بڑا حصہ گر پڑا اس واقعہ سے مسلمانوں کے اندر غم و غصّے کی لہر دوڑ گئی مستقبل میں ایسے واقعات کے سد باب کے لیے سعودی عرب اور مراکش کی کوشش سے تمام اسلامی ممالک کا سربراہی اجلاس 22 سے 25 ستمبر 1969کو مراکش کے شہر رباط میں منعقد ہوا جس میں 24 سربراہ مملکت شریک ہوئے آخر کار تمام سربراہان مملکت اس نتیجہ پر پہنچے کہ ہمیں بھی متحد ہو کر ایک تنظیم بنانی ہو گی تاکہ ہم اپنی بات منوا سکیں بلآخر 25 ستمبر کو تنظیم موتمر اسلامی (یہ اس کا پرانا نام ہے) کا قیام عمل میں آیا 28جون 2011 کو اس کا نام تبدیل کر کے تنظیم تعاون اسلامی (او آئی سی) رکھ دیا گیا اس کا اصل مقصد و مدعا صرف اور صرف مسلمانوں کے مفادات کا تحفظ اور ایک دوسرے کے قریب ہونا تھا اس کے ممبر ممالک کی تعداد 57 ہے اور اس کا صدر دفتر جدہ سعودی عرب میں ہے اس کا وزرائے خارجہ کا اجلاس ہر سال جبکہ سربراہاان مملکت کا اجلاس تین سال بعد منعقد ہوتا ہے پاکستان دو سربراہی اجلاس کی میزبانی کر چکا ہے 1974 اور 1997 میں 1974 کو پاکستان میں منعقد ہونے والا اجلاس تنظیم کا آج تک کا سب سے کامیاب ترین اجلاس تھا جس میں سب سے زیادہ سربراہان مملکت نے شرکت کی تھی شائد اس کی وجہ امت مسلمہ کا درد رکھنے والی قیادت تھی ابتدا میں تنظیم کے ذریعے مسلم ممالک کے آپسی اختلافات کو ختم کرنے کی بھر پور کوشش کی گئی ان ہی کوششوں سے یہ ممکن ہوا کہ پاکستان نے بنگلہ دیش کو آزاد و خود مختار ملک تسلیم کر لیا اور سعودی عرب و ایران کے تعلقات میں بھی بہتری آئی لیکن امت مسلمہ کے لیے یہ خوشی بڑی تھوڑی دیر قائم رہی چند سال بعد ہی عراق و ایران کی جنگ شروع ہو گئی ادھر انقلاب ایران کے ساتھ ہی شعیہ اور سنی اختلافات اپنے عروج پر پہنچ گے جس نے مزید دوریاں پیدا کر دیں ساتھ ہی روس نے افغانستان پر قبضہ کر لیا ان سارے حالات میں او آئی سی بلکل ناکام رہی نہ تو ایران عراق جنگ ختم کرا سکی اور نہ ہی سوویت یونین کے افغانستان پر قبضہ کے خلاف موثر آواز بلند کر سکی اور نہ ہی آپسی اختلاف کو کم کر سکی بلکہ اب تو بات تو تو میں میں سے گولی بارود تک پہنچ چکی ہے مسلمان مسلمان سے دست و گریباں ہے یمن شام ایران افغانستان لیبیا میں انسانیت سسک رہی ہے یہاں پر مسلمان ہی مسلمان کا دشمن بنا ہوا ہے اور بے دریغ قتل و غارتگری میں مصروف عمل ہے مسلمانوں میں اسلامی تعلیمات کیا انسانیت بھی مر چکی ہے جو اسلام کے ٹھیکیدار ہیں وہی بے یار و مددگار لا چار بھوکے مسلمانوں پر ظلم کے پھاڑ ڈھا رہے ہیں اگر یہ تنظیم مسلمان سے مسلمان کو محفوظ نہیں رکھ سکتی تو غیر مسلموں سے مسلمانوں کو کیسے بچائے گی اسی وجہ سے تو اسرائیل فلسطین کے تقریباً اسی فیصد رقبے پر عملاً قبضہ کر چکا ہے اور ہم اسے تسلیم کر کے دوستی کی پینگیں بڑھا رہے ہیں ادھر انڈیا کشمیر کی خصوصی حیثیت کو بھی ختم کر چکا انڈیا کے مسلمانوں پرگھیرا تنگ ہو رہا ہے سب سے غیر ضرر چیز لباس ہے اس کے پہننے پر پابندی لگائی جا رہی ہے اور بڑے تگڑے مسلمان ملک اس کے آگے فرش راہ ہو رہے ہیں وہ کافی عرصہ سے اسی کوشش میں ہیں کہ انڈیا کو اس
تنظیم کی رکنیت دی جائے جو خالصتاً مسلم امہ کی تنظیم ہے بلکہ ایک دفعہ تو اسے مبصر کی حیثیت سے اپنے ہاں تنظیم کے اجلاس میں بھی بلا لیا تھا برما میں مسلمانوں کے ساتھ کیا ہوا پچھلے بیس پچیس سالوں سے پوری دنیا کی توپوں کا رخ مسلمانوں کے خلاف ہے خاص کر نائن الیون کے بعد جب اسلامی تعلیمات کو ہی دہشت گردی کے ساتھ جوڑ دیا تو تمام امت مسلمہ تذبذب کا شکار ہو کر رہ گئی کہ آیا جو دہشت گرد اسلام کا نام لے کر حملے دھماکے کرتے ہیں آیا ان کی حمایت کی جائے یا مخالفت اس مشکل ترین وقت میں بھی او آئی سی مسلمانوں کی راہنمائی نہ کر سکی چاہیے تو یہ تھا کہ پوری امت مسلمہ سے چوٹی کے علماء کا ایک بورڈ تشکیل دیا جاتا جو ایک متفقہ موقف دیتا کہ اسلام ایک پر امن دین ہے اس کا دہشت گردی کے ساتھ کوئی تعلق نہیں تاکہ مسلمان دہشت گردی کے لیبل سے جان چھڑاتے بلاخر 2019 میں تنظیم کی آنکھ کھلی اور شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری کو اپنے منعقدہ اجلاس ریاض میں خصوصی طور پر دعوت دی اور ان سے اس معاملے میں خصوصی راہنمائی لی اور ان کے موقف کی تائید کی کہ دہشت گردی کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں بتانا مقصود یہ تھا کہ او آئی سی سے امیدیں وابستہ کرنا دن کو خواب دیکھنے جیسا ہے ان کا کام نشستن گفتن برخاستن والا ہے اصل بات جو سوچنے والی ہے وہ یہ کہ اگر پورے یورپ کے اٹھائیس ملک بغیر بارڈر اور سکیورٹی کے ایک ہی کرنسی استعمال کر کے اپنے اپنے ملک اور الگ پہچان کے ساتھ خوش وخرم رہ سکتے ہیں کیا ان کے اندر اختلاف نہیں ہیں ہر ملک کے اپنے مفادات نہیں ہیں سب کچھ ہے لیکن وہ ان چھوٹے چھوٹے اختلافات کی وجہ سے اپنے مستقبل کو خراب نہیں کرنا چاہتے تو پھرہم اکٹھے کیوں نہیں رہ سکتے ہم کیوں دست و گریباں ہیں کیوں ذات پات میں بٹے ہوئے ہیں کیوں عرب وعجم میں بٹے ہیں اصل بات یہ ہے کہ ان کے حکمرانوں کے مدنظر ملکی مفاد ہوتا ہے جبکہ بدقسمتی سے الا ماشاء اللہ مسلم امہ کے حکمرانوں کا مقصد و مدعا صرف اور صرف ذاتی مفاد ہوتا ہے جب تک ہماری سوچ نہیں بدلتی ہم اکٹھے نہیں ہوتے ہم اسی طرح پستے بھی رہیں گے مرتے بھی رہیں گے کسی کے کانوں پر جوں بھی نہیں رینگے گی او آئی سی کے ہزاروں اجلاس ہوتے رہیں کیونکہ تنظیم کا ہر رکن ملک تنظیم کے ساتھ ہونے کے باوجود اپنے الگ موقف پر قائم ہے یہ سارے اتحادی ہونے کے باوجود اتحادی نہیں ہیں اس لیے یہ ایک بے ضرر تنظیم ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں