اوراق زیست

کرامت حسین ؛کلر سیداں
کلر سیداں علاقہ پوٹھوہار کی اہم تحصیل اور تہذیبی سالمیت کی بنا پر مخلص اور محنتی افراد کی بستی ہے اس علاقہ کو یہ شرف حاصل ہے

کہ اس کے زمینی رشتے پائیدار تواریخی حوالوں سے جڑے ہوئے ہیں اس سر زمین پر بہت سے تواریخی انسانوں نے جنم لیا جنہوں نے راستی اور صداقت کی مثالیں قائم کی ہیں میں نے کلر سیداں کے بھولے بسر ے گوشوں کو سامنے لا کرآنے والی نسلوں کے لیے سنگ میل کی نشاندہی کر دی ہے جو انشاء اللہ علم و ادب اور تاریخ سے تعلق رکھنے والوں لوگوں کے لیے مشعل راہ ثابت ہو گی اور انشاء اللہ یہ سلسلہ کسی نہ کسی میں صورت میں جاری و ساری رہے گا مجھے امید ہے کہ میر ے بعد میں آنے والے لوگ محنت کر کے تاریخ کلر سیداں کی تہذیب و تمدن قابلیت حاضر وجود کے علت کو دریافت کرتے ہوئے کچھ اور محنت کر کے اس خطہ کے مزید مواخذ تلاش کریں گے یہ ایک تایخی حقیقت ہے کہ برصغیر پاک و ہند اب تک بھوک اور بیکاری کی لعنت میں گر فتار ہیں کلر سیداں تو ایک ایسا خطہ ہے جہاں افلاس و بے قدر تی کا دور دورہ ہے مگر اب کلر سیداں استفادے اور سالمیت کے ساتھ اپنی نئی زندگی کی ابتداء کر رہا ہے اس خطہ کے رہنے والوں کا بے قدرتی افلاس اور جہالت کے خلاف ان کو تایخی معیار اس امر کا پیغام دے رہا ہے کہ انشاء اللہ وہ وقت دور نہیں جب صادق سچے اور محنتی انسانوں کی یہ بستی گلفستاں ہو کر پورے پاکستان میں اوج کمال کی سند حاصل کر لے گی تاریخ کلر سیداں ایک ایسی دستاویز ہے جس میں ماضی کی بھولی بری یادیں جو میں80سالہ دور حیات سے زیادہ پر محیط ہیں کچھ تو میرے سامنے گزری ہیں اور کچھ میرے بچپن میں موجود بزرگوں سے سینہ بہ سینہ مجھ تک پہنچی ہیں انہیں ایک تاریخی ورثہ کے طور پر چھوڑ رہا ہوں اور شاید میری یہ کو شش آنے والی نسلوں کے لیے نشان منزل کو کام دے سکے میرے ایک عزیز سلیم شہزاد (سینیئر صحافی و رپورٹر) کے بقول آج سے 100سال بعد آنے والی والوں کے لیے چھ تو ہو جن سے انہیں پتہ چل سکے کہ ہمارا ماضی اور ہمارا آباؤ اجداد کیسے تھے میں ایک بات ہمیشہ کہا کرتا ہوں کہ ماضی یا دکرنے کے لیے نہیں بلکہ سبق سیکھنے کے لیے ہوتا ہے کلر سیداں کی تاریخ لکھتے ہوئے میں نے اس گاؤں کی وہ بھولی بسری یادیں سامنے لانے کی کوشش کی ہے جوماضی کے دبیز پردوں میں رو پوش ہوتی جا رہی ہیں انیسویں صدی کے لوگ تقریباً ختم ہوتے جا رہے ہیں جو باقی ہیں ان میں زیادہ تر لوگ وہ ہیں جو آفات زمانہ کو شکار ہیں ان کے پاس اتنا وقت ہی نہیں کہ وہ ماضی یا حال کے متعلق کچھ سوچ سکیں جنہیں تھوڑی بہت فرصت ہے ان سے اس دور کے واقعات سننے والا کو نہیں انسانوں کے ان خوفناک چنگل میں کسی کو اتنی فرصت ہی نہیں کہ وہ اپنے معاشی اور معاشرتی مسائل سے باہر کچھ سوچ سکے موجودہ دور میں زندگی کی ڈور بچانے کے لیے انسان اتنی برق رفتاری سے بھاگ رہا ہے کہ اس کائنات کی نمام رنگنیاں اور حسن اس کی آنکھوں سے اوجھل ہوتا جا رہا ہے کبھی وہ دور بھی تھا جب انسانوں کو کچھ پا لینے کی خواہش میں اتنی افر ا تفری اور بے سکونی کا مظاہرہ نہیں کرنا پڑتا تھا جس کے پاس جتنا کچھ تھا وہ اسی میں گزر بسر کرنے کو غنیمت خیال کرتا تھاموجودہ دور کی افرا تفری اور لالچ میں انسان بھول چکا ہے کہ دوسروں کو خوشی دے کر جو نور انسان کے اپنے چہرے پر آتا ہے وہ اربوں دولت خرچ کر کے بھی حاصل نہیں ہو سکتا ۔بعض دفعہ ماضی کے مبہم اور دھند لے سے نقوش بھی مسقبل کی راہیں متعین کرنے کے لیے روشنی کا ایک ایسا مینارہ بن جاتے ہیں جن سے زندہ قومیں بہت کچھ سیکھ کر اپنے سے بعد آنے والی نسلوں کے لیے ایک اور منزل کے نقوش واضح کر جا تی ہیں اس دور میں ٹیکنا لوجی انتہائی عروج ہر ہے یہ سب کچھ ہمیں ماضی کے ورثوں سے حاصل ہو اہے یہ دنیا ہمیں آج جو نظر آرہی ہے اربوں کھر بوں سال پہلے وجود میںآچکی تھی یہ لاکھوں ہزاروں ادوار سے گزرتی ہوئی اپنے تاریخی ورثے آنے والوں کے لیے محفوظ کرتی رہی بے شمار ادوار ایسے گزرے ہیں جن میں انسان آج کی ارتقائی منزل سے کہیں آگے تھا ہڑپہ،ٹیکسلا،لاہورکے قدیمی محلے،شاہی مسجد ،شاہی قلعہ اور دلی کی تعمیرات کامشاہدہ کرتے ہوئے انسان انگشت بد نداں رہ جاتا ہے پاکستان کا تمام شمالی علاقہ جو مہر گڑھ گلگت ،سوات،اور قراقرم کی وادیوں تک پھیلا ہوا ہے اپنے اندر اتنی تاریک سمیٹے ہوئے ہے کہ جن پر سینکڑوں برس تحقی کرتے رہے تو پھر بھی مکمل اھاطہ ممکن نہیں مجھے ہمیشہ تاریخ سے دلچسپی رہی طالب علمی کے زمانہ میں اگر بہت اچھا نہیں تو اچھا ضرور تھا تاریخ میں نے کبھی رٹا لگا کر یاد نہیں کی تھی کوئی واقعہ جو ایک دفعہ پڑھ لیتا یا دیکھ لیتا میرے ذہن میں نقش ہو جاتا طالب علمی کے دور کی وہ تاریخ جس میں غزنوی غوری مغلوں کے عروج و زوال اور میسور کی سرگت ششت پانی پت کی جنگیں سکھوں کو عروج زوال اور افغانوں کی جی داری اب تک ہاتھ کی لکیروں کی طرح ذہن پر نقش ہیں جب میں ٹریننگ کلاس میں تھا تو ہمارے ایک استاد قریشی ممتاز تھے میں ان کی شخصیت سے بہت متاثر تھا وہ تاریخ کے استاد تھے قریشی صاحب انتہا ئی دلچسب اور پیاری شخصیت کے مالک تھے تاریخ میں وہ ایک سند کی حیثیت رکھتے تھے میں نے آج تک اپنی پوری زندگی میں اپنا سحر بیاں اور شیریں کلام کم ہی دیکھا ہے وہ جب کوئی تاریخی واقعہ پڑھانے لگتے تو ہم دنیا وما فیہا سے بے خبر یہی محسوس کرتے کہ سب کچھ ہم اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں ایک دفعہ پانی پت کی احمد شاہ ابدالی اور مر ہٹوں کے درمیان جنگ کا نقشہ کچھ اس طرح کھینچا کہ پریڈ ختم ہونے کے بعد بھی ہم اپنے آپ کو میدان جنگ کا حصہ ہی سجھ رہے تھے ایک دفعہ سکھوں اور انگریزوں کے درمیان جنگ کا عملی طور پر احوال بتانے کے لیے جلیا نوالہ(گجرات) اس مقام پر لے گئے جہاں سکھوں کو آخری شکست ہوئی تھی وہاں اس وقت( 1953-54)میں وہ درکت موجود تھا جہان سکھ جنرل شیر سنگھ زخمی ہو کر پڑا ہوا تھا اور اسے ایک سکھ سورما زندہ سلامت میدان جنگ سے باہر لے گیاہمارا ماضی کمپیوٹر انٹرنیٹ اور ای میل کے پس منظر میں چلا گیا ہے سو سال بعد میں آنے والوں کو سو سال پہلے کے حالات بتانے والا کوئی نہیں ہو گا کیونکہ ہم لکھنے لکھانے اور کتب بینی سے بہت دور چلے گئے ہیں آج کل ہمارا سارا انححصار الیکٹرانک ایجادات پر ہے عملی زندگی سے ہم بہت دور جا چکے ہیں ایک دفعہ ٹی وی پر اشفاق احمد مرحوم کا ایک پروگرام زاویہ چل رہا تھا جس میں ایک محترمہ موجودہ تعلیم اور نئی نئی ایجادات پر بڑے بلند بانگ دعوے کر رہی تھیں اشفاق صاحب اس کی باتیں بڑی غور سے سن رہے تھے جب وہ چپ ہوئی تو اشفاق صاحب بولے!بی بی! آپ کی باتیں موتیوں میں تولنے کے قابل نہیں لیکن میری ایک پوتی نے کھانے پکانے میں ماسٹر کیا ہوا ہے اور وہ ماشاء اللہ اپنی تعلیم پر بڑا ناز بھی کرتی ہے لیکن جب کبھی ہمیں دیگیں پکوانی پڑیں تو کرے نائی کو ہی بلوانا پڑتا ہے کیونکہ اس کی پکائی ہوئی دیگ میں ماسٹر کی ڈگر ی نہیں بلکہ اس کا مشاہدہ اور تجربہ بول رہا ہوتا ہے میں اشفاق صاحب کا 1960ء کے بعد جب وہ ریڈیو پر ثقلین شاہ کے نام سے پروگرام کرتے تھے گروید چلا آرہا تھا جب ٹی وی پر انھوں نے زاویہ پروگرام شروع کیا تو اس میں بالوں خد ارسیدہ اور مجذوب لوگ لوگ کا اکثر ذکر کرتے ایک دفعہ انھوں نے سنایا کہ ایک دن مین گھر آیا اور میری بیوی بانو قدسیہ بڑی حیران اور گم سم بیٹھی ہوئی تھیں اشفاق احمد نے پوچھا کیا بات ہے؟بانو قدسیہ بیٹے کا نام لے کر بولی جو اس وقت سیکنڈ ائیر کا طالب علم تھا غالب کا ایک شعر جس میں محبوب کا ذکر ہے محبوب کے معنی پوچھ رہا ہے اسے جو بتاتی ہوں وہ کہتاہے کہ یہ تو اس کے سطحی معنی ہیں میں محبوب کی نمایاں حالت تعریف پوچھ رہا ہوں اشفاق احمد! میں نے بیوی سے کہا چلو بابا جی کے چلتے ہیں اور ان سے اس کے اصل معنی پوچھتے ہیں بابا نور لاہور کے نواح میں بظاہر سادہ سی زندگی گزارنے والے اور لکڑیوں کو ریوڑ چرانے والے تھے ان سے بڑی عقیدت تھی میں اکثر ا ن کی باتیں کسی ن کسی حوالے سے اپنے پروگرام میں ضرور کرتا ہوں جب ہم وہاں پہنچے تو بابا جی بکریوں کا دودھ دوھ رہے تھے میں جتنی دیر میں گاڑی بند کرتا میری بیوی جلدی اتری کہ میں پہل کر لوں بانو قدسیہ! باباجی محبوب کی ڈیفی نیشن کیا ہے؟بظاہر بابا نور کسی یونیورسٹی کے پڑھے لکھے نہیں تھے بعض و اقات ایک پڑھا لکھا جاہلوں جیسی اور ایک ان پڑھ ’’ارسطو ‘‘جیسی باتیں کرنے لگے تو انسان حیران رہ جاتا ہے کہ اسے کون سے زمرے میں شمار کیا جائے (تعلیم یا فتہ یا ان پڑھ)
جہاں تک میرا ذاتی خیال اور مشاہدہ ہے کہ تاریخ بڑی بڑی ڈگریاں پاس کر لینے سے نہیں لکھی جاتی بلکہ یہ تجربات اور مشاہدات ایک ایسا عمل ہے جہ ہم میں نسل در نسل منتقل ہوتا رہتا ہے سکھوں انگریزوں اور تحریک پاکستان میں وہ ان پڑھ واور جاہل لوگ جنہوں نے ان ادوار کو اپنی آنکھوں سے دیکھا اور عملی طور پر حصہ لیا اور ان تعلیم یا فتہ اور سکالرز ست کہیں زیادہ معتبر ہیں جنہوں نے علم کے زور پر پڑھ کر یا سن کر تاریخ لکھنے کی کوشش کی ہے صرف اور صرف ان آنکھوں کو ڈھونڈنے کی ضرورت ہے اسی دوران جب میں یہ مواد اکٹھا کر رہا تھا تو مجھے دوتین آدمیوں سے اپنے خیالات کے اظہار کا موقع ملا جو مجھ سے عمر میں بڑے تھے اپنے بچپن کے دور کے بزرگوں جن میں مستری فضل اور امام دین تھے کلر سیداں کے دو بھائی تقریبا! 125برس تک کی اندگی گزار کر اس دنیا کو خیر آباد کہا ہے ان بزرگوں کو میں نے بہت اچھی طرح سے دیکھا ہوا تھا اور یہ میرے شباب تک حیات تھے لیکن اس وقت یہ شعور اور خیال نہیں تھا کہ ان لوگوں کی یاداشتوں ک ضرورت پڑے گی کلر سیداں کی بہت سی باتوں کو ان حوالوں سے ذکر آئے گا میں بچپن میں جب اپنے آخری سانس لیتے ہوئے بزرگوں کی محفل کو یاد کرتا ہوں تو ان کی باتوں کا اب اندازہ ہوتا ہے کہ وہ کتنے سچے تھے وہ کہا کرتے تھے کہ عنقریب ایسا بھیانک دور آنے والا ہے کہ مشرق کے لوگ مغرب اور مغرب کے لوگ مشرق کی طرف بھاگیں گے خون کی ہولی کھیلی جائے گی یہ واقعی 1947میں دیکھ لیا گھر گھر اور مساجد کی بھر مار ہو گی ایک بات سوچتا ہوں اس وقت ہمارا ذریعہ اور کاروبار کاشتکاری تھا علاقہ بارانی ہونے کی وجہ سے اکثر موسم کی کمی بیشی سے واسطہ پڑتا تھا ان لوگوں کی موسمی پیش گوئیاں آج کل کے جدید دور سے کم نہ تھیں مجھے وہ مناظر ابھی تک آنکھوں کے سامنے پھر رہے ہیں کہ جولائی اگست میں جب گاؤں کے بزرگ شام کو ایک جگہ اکٹھے ہوتے تو آسمان کی طرف دیکھ کر یہ بتا دیتے کہ آج بارش ہو گی یا نہیں اگر ہو گی تو کیسی یہاں تک بتا دیتے میرے بچپن کی عمر میں میرا جس بزرگ سے سب سے زیادہ واسطہ پڑا اور ان کی باتین ذہن نشین ہو گئیں وہ بابا مٹھا خان تھے جب میں باتیں یاد کرنے کی عمر کو پہنچا تو وہ اس وقت تقریباً ایک سو بائیس تئیس کی عمر میں تھے وہ اپنے ماضی کی باتیں بڑے وثوق اور اعتماد سے سنایا کرتے تھے بہت اچھے داستان گو تھے آخری عمر تک صحت قابل رشک تھی اس دور کے رواج کے مطابق جب سارے تھکے ہارے لوگ اپنے اپنے کاموں سے فارغ ہو جاتے تو کسی ایک مر کزی جگہ جمع ہو کر بابا جی سے فرمائش کرتے کہ کہانی سنائیں وہ کہتے کہ کوئی ہالی لگے تو میں کہانی سناتا ہوں ’’ہالی کا مطلب کہانی سنانے والے کی حوصلہ افزائی کیلئے ہاں گی کرتے جاؤاس طرح کہانی سننے اور سنانے والے دونوں میں دلچسبی پیدا ہوجاتی ہے جہاں وقت گزاری کے لیے جنوں پریو ں کی داستانیں سنائی جاتیں یہ ان بزرگوں کی سنائی ہوئی بات ہے کہ جب راولپنڈی کے نزدیک سواں پل بن رہا تھا تو میں اپنے دوسرے بہت سے ساتھیوں کے ہمراہ روزانہ پیدل چل کر مزدوری کے لیے جاتے اور ہم سب شام کو اپس آجاتے شایچ آج کے دور کے انسان کے لیے یہ بات انوکھی ہو روزانہ بتیس میل پیدل چل کر جانا اور پھرشام کو لوٹ کے بھی آنا کیسے ممکن ہے ؟ لیکن اس دور میں یہ سب ممکن تھا اسی طرح وہ سنایا کرتے کہ بیدی محل کلر سیداں کی تعمیر میرے عففوان شباب میں شروع ہوئی ہیں یہاں مزدوری کرتا رہا بیدی محل میں استعمال ہونے والا پتھر بمعہ گنگال اوت گف کی پہاڑیوں سے لایا گیا اول کلاس کے مستری کو تین آنے دوم کلاس کے مستری کو دو آنے اور مزدور کو ایک آنہ دہاڑی ملتی تھی ارب پتی اور بڑی بڑی کوٹھیوں والے نہیں بتاتے بلکہ تاریخ تاریخ بتانے والے مفلوک ا لحال اور نگر نگر کی خاک چھاننے والے لوگ ہوتے ہیں جو گمنامی کی موت مر تاریخ کو زندہ کر جاتے ہیں اور آنے والے دور ایسے لوگوں کی محرومیاں اور ناکامیاں کو جب تاریخ کی کسوٹی میں ڈالتے ہیں تو گزرے ہوئے چھوٹے چھوٹے حلات و واقعات تاریخ کا ایک نیا باب سامنے لے آتے ہیاگچہ آج سے پہلے ادوار میں الیکٹرانک میڈیا اور رسل اور رسائل کی یہ جدید سہولیا کو ہمیں میسر ہیں ان کا تصور بھی نہیں تھا پیغام کے وسائل محدود اورسست تھے لیکن جتنے اور جیسے تھے وہ سو فیصد چے اور سردت تھے میں جب خطہ کلر سیداں کے آثار قدیمہ پر تحقیق کر رہا تھا تو مجھے اپنے عففوان شباب کا ایک منظر ذہن میں کئی بار گردش کرنے لگا تقریباً 1950تک سفر کی آج کل کی سہولتیں نایاب تھیں کسی بہت ہی کھاتے پیتے یا شہروں میں ملازمت کرنے والے کے پاس اکا دکا سائیکل نظر آتی ورنہ نوے فیصد لوگ پیدل یا بار برداری کے جانوروں کے ذریعے سفر کرتے 1951میں مرزا کمبیلی میں جب ٹرانسفرہوا تو تقریباً 36صبح اور اتنا ہی شام کو سفر کر کے گھر آتا ایک دو ماہ میں پیسے بچا کر 31روپے کی سائیکل خریدی اردگرد کے لوگ بڑی حیرانی سے دیکھتے ہ میں اتنے روپوں کی سائیکل لے کر فضول خرچی کی ہے یاد رہے کہ اس وقت میری 25روپے اور 5 روپے انگلش الاؤنس کل 30روپے ملتے تھے میں نے پچھلی سطور میں مزدور کی آمدنی ایک آنہ کا جو حوالہ دیا ہے اس کے تناظر میں اندازہ کر لیں کہ 31روپوں کی ک اہمیت تھی اور واقعی اس دور میں 31روپے میں سائیکل خریدنا ایک بہت بڑی عیاشی تھی ۔

 

اپنا تبصرہ بھیجیں