ان کے بھی خاندان اور قبیلے ہوتے ہیں

شاہد جمیل منہاس/نماز فجر کی ادائیگی سے قبل ہر روز میں واک کئے لیئے نکلتا ہوں۔ تقریباََ 25 دن قبل کی بات ہے کہ میں جب اپنی گلی سے گزر کر بڑی تیزی سے جا رہا تھا کہ میں نے دیکھا ایک کتا چوک کے درمیان میں آرام کر رہا ہے۔ میں بہت حیران ہوا کہ یہ جگہ اس کے آرام کی ہے نہ یںاور وہ بھی 5فروری کی ٹھنڈی سحر میں۔ میں نے اسے نظر اندار کیا اور اپنی واک جاری رکھی کہ اچانک ایک اور کتا ایک بڑے گھر کے مین گیٹ کے پاس سڑک پہ اُسی طرح بے سودھ پڑا ہوا ہے۔

میں تھوڑی دیر کے لیئے رُکا اور سوچا کہ اسے ہلا کر دیکھتا ہوں کہ یہ کہیں بے ہوش تو نہیں پڑا ہوا مگر ڈر کے مارے اُسے چھیڑنے سے گریز کیا اور پھر چل دیا اُسی رفتار میں۔تقریباََ 100 میٹر فاصلے کے بعد ایک اوربے زبان جانور کو گلی کے درمیان میں اُسی حالت میں پایا۔ اب مجھ سے رہا نہ گیا اور میں اس کے پاس گیا اور اُس پر غور کیا تو زمین پر عین اُس کے چہرے کے نیچے پانی اور جاگ مکس ہو رہے تھے یعنی جاگ تقریباََ پانی میں تبدیل ہو چکی ہے۔ دوستو ان بے زبان جانوروں کو زہر دے کر مارا گیاتھا۔

میں نے ہمت کی اور پاوں سے معمولی سا دھکیلا۔ وہ نوجوانی والی درمیانی عمر کا کتا مر چکا تھا۔ ایک لمحے کے لیئے میں خوف اور پریشانی کی گہری کھائی میں جا گرا کیوںکہ ان بے زبان جانوروں کے بھی خاندان قبیلے اور قافلے ہوتے ہیں اور یہ بھی جدائی کا رونا روتے ہیں۔ اُس وقت میری رفتار انتہائی کم تھی کہ میں اس سوچ میں مبتلاتھا کے اگر اس خاندان میں سے کوئی ایک ، دو یاچند ایک اگر زندہ بچ گئے تو ان کے دکھ کا عالم کیا ہو گا۔

ہر روزمیں تقریباََ 35منٹ واک کرتا ہوں مگرا ُس دن میں ایک گھنٹے کے بعد گھر واپس لوٹا اُسی فاصلے پر چلا جہاں روز چلا کرتا تھا۔ بعض اوقات ایک ہی طرح کا فاصلہ کسی ایک فرد کے لیئے ایک وقت میں انتہائی مختصر اور دوسرے کے لیئے اتنا طویل کہ اختتام کا گمان بھی محال ہے۔ اُس دن میرے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہوا۔مگر میرا دُکھ بس اتنا دُکھ تھا کہ جب میں اپنے ادارے میں گیا تو ایک آدھ بار یاد آیا شدت کے ساتھ پھر سارا دن یاد نہ رہا۔ مگر ان زندہ بچ جانے والے کتوں پر کیا گزر رہی ہو گی جب وہ ایک بہت بڑے قافلے سے محروم ہو چکے ہیں۔

اس سارے واقعہ کے بعد مجھے خیال آیا کہ شائد ان میںسے کسی کتے نے کسی شخص کوبُری طرح کاٹا ہو تو یہ قتل عام اسی کا بدلہ ہو۔ پھر میں نے سوچا کہ کمیٹی والے اکثر کتوں کو زہر دے کر مار دیا کرتے ہیںکہ یہ علاقے میںگندگی اور نعوست کا باعث بنتے ہیں۔ معلوم نہیں میری سوچ کس حد تک درست ہے مگر میرے خیال میں یہ انتہائی بڑا ظلم ہے۔ اس کے اور بھی بہت سے طریقے ہیں جو اپنائے جا سکتے ہیں۔ میں نے اور آپ نے دیکھا ہو گا کہ اکثر اوقات اگر کہیں سے رات کی تاریکی میں کوئی اجنبی شخص گزرے تو یہ کتے آسمان سر پر اُٹھا لیتے ہیں۔

اور اہل محلہ جاگ جاتے ہیں۔ ان کا اس طرح بلا معاوضہ کسی حادثے سے بچا لینا کسی احسان سے کم نہیں ہے۔ بہت کم ایسا ہوتا ہے کہ محلوں میں پلنے والے اس طرح کے کتے کسی کو نقصان پہنچاتے ہوں بشرطیکہ کوئی ان کو بار بار تنگ نہ کرے۔ اکثر اوقات میں نے اور آپ نے دیکھا ہو گاکہ محلے کی وہ خواتین جو گھر کا بچا ہو اکھانا یا شائد ان کے لیئے ہی بنایا گیا ہو، اُن کے سامنے آ کر رکھتی ہیں۔

اور اس کے بدلے میں ہم نے یہ بھی دیکھا کہ وہ کتے احسان کرنے والے افراد کے ساتھ ایسے چل رہے ہوتے ہیں جیسے لائسنس یافتہ اسلحہ لیکر کوئی باڈی گارڈ چاروں طرف دیکھتا ہوااُسکی حفاظت پر معمور ہو۔ دوستو اگلے دن جب میں واک پر گیا تو میں نے ایک عجیب منظر دیکھا جو بار بار مجھے یاد آتاہے اور رُلا کر رکھ دیتا ہے۔ وہ یہ کہ ایک کتا ایک گلی سے دوسری گلی یوںبھاگ رہا ہے جیسے اُسکی اولاد میں سے سب سے چھوٹا بچہ گُم ہو گیا
ہو اور وہ بے تاب ہو کر اورآس پاس کے گزرنے والوں سے بے نیاز ہو کر ایسے دوڑ رہا تھا کہ جیسے قیامت صغرا گُزر رہی ہو اس پر۔ میرے پچھلے دن کے سب خیال سب وسوسے سچ ثابت ہوئے کہ ان بے زبان جانوروں کے بھی خاندان اور قبیلے ہوتے ہیں ،یہ بھی درد دل رکھتے ہیں ،یہ بھی کسی کے مرنے پر خالی پیٹ رہتے ہیں ،یہ بھی آنسو بہاتے ہیںاور یہ جانور بھی سوگ مناتے ہیں

۔ بس عقل کی کمی کی وجہ سے یہ معلوم نہیں کر پاتے کہ ان کے سامنے پڑا ہوا جانور سو رہا ہے یا مر چکا ہے۔ اور پھر ہوتایہ ہے کہ ہفتوںگزر جانے کے باوجود ماں اپنے بچے کو سینے سے لگائے اُس کے جاگنے کا انتظار کرتی رہتی ہے۔ جب اہل علاقہ کو بدبومحسوس ہوتی ہے تو اُس مردہ جانور کو کہیں دور پھینک دیا جاتا ہے مگروہ بھی اُس وقت جب اُس کی ماں اپنے سوئے ہوئے بچے کے لیئے کھانا لانے گئی ہوتی ہے۔

اور ہم نے یہ بھی مشاہدہ کیا ہو گا کہ وہ مرا ہوا جانور اور اُس کے حصے کا کھانا بھی خراب ہو رہا ہوتا ہے۔ ذرا مزید آگے جائیں تو ہوا یوں کہ تقریباََ 25 دن بعد 27فروری کو جب میں واک پر گیا تو کتوںکا ایک خاندان میںنے ایک پجاروگاڑی کے پاس اور اُس کے نیچے دیکھا۔ ان میں دو کتے ان بقیہ کتوں کے والدین یعنی ماں باپ تھے۔ جبکہ دیگر کی عمر یں تقریباََ ایک ماہ کے لگ بگ ہوں گی اور تعداد میں 12 سے زیادہ تھے

۔میں رُکا اور عین اُسی وقت خیال آیا کہ جب بڑے کتوں کی تعداد بہت زیادہ تھی تو نئے پیدا ہونے والے بچے ایک ایک کر کے مر جایا کرتے تھے کہ خوراک کی قلت بہت بُری چیز ہے۔ لیکن یہ بچے کافی صحت مند تھے اور والدین بھی خوش تھے۔ یہاں آکہ ایک لفظ میرے ذہن کی دہلیز پر آ کر رُک گیا اور اب تک وہیں کھڑا ہے وہ یہ کہ
مدعی لاکھ بُراچاہے تو کیا ہوتا ہے
وہی ہوتا ہے جو منظور خدا ہوتا ہے
یہ نیا خاندان اور قبیلہ چار ماہ بعدا ُسی آب و تاب کے ساتھ ان گلیوں میں اپنا رزق تلاش کر رہا ہو گا اور کوئی ظالم ایک بار پھر جہنم کی اگلی منزل اپنے نام کروالے گا۔ اور اُس کے بعد پھر نئی نسل پیدا ہو گی اور یہ سلسلہ جاری و ساری رہے گا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ کتے گھروں میں برکتیں ختم کردیا کرتے ہیں۔مگر اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ کوئی شخص پانی میں ڈوبتی ہوئی کسی ایک چیونٹی کو بھی بچا لیتا ہے

تو روز قیامت یہ نیکی اُسی طرح محفوظ رکھی جائے گی اور ہو سکتا ہے اس نیک سوچ کے صدقے اُسے جنت کی اعلیٰ ترین منزل مل جائے۔خدارا بہت دور مرنے والے انسان ،جانور یا کوئی بھی مخلوق ہو اس پر غور کیاکریں کہ اس کی موت میں کہیں پر ہماری کوتاہی تو نہیں ہے۔ نیکی اور بُرائی دونوں کے ترازو بڑے انصاف پسند ہیں۔ اورمیرا ربّ انصاف کرنے والا ربّ ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں