انسپکٹرمیاں عمران شہید فرض شناس افسر

قارئین کرام! بھائی تو بھائی ہوتے ہیں، میرے نزدیک ایک ماں کی کوکھ سے جنم لینے والے، ایک ماں کا دودھ پینے والے، ایک ماں کی گود میں کھیلنے والے سگے بھائی تو ہوتے ہی ہیں مگر کچھ رشتے ان سب اشکال کے علاوہ بھی اس قدر انمول ہوتے ہیں کہ وہ سگے رشتوں سے بڑھ کر ہوتے ہیں، زندگی میں بہت سارے تعلق والے لوگ اس دنیا سے گئے، دکھ ہوا، آنسو نکلے مگر ان دو ماہ فروری / مارچ کے آغاز میں مجھے دو انمول رشتوں نے اس قدر رُلایا کہ بیان نہیں کیا جا سکتا، ان کے ایسے چھوڑ جانے کا گمان تک نہ تھا، فروری کے آغاز میں بھائی جاوید اقبال چھوڑ گئے، مارچ کا پہلا عشرہ اپنے اختتام سے قبل ایک اور بھائی لے گیا، انسپکٹر محمد عمران عباس میرے ساتھ پیدا ہونے والا بھائی نہیں تھا، نزدیک یا دور کی رشتہ داری بھی نہ تھی، ایک ڈیڑھ سال کا تعلق تھا جو ایسا بنا کہ وہ جاتے جاتے بہت رُلا گیا، انسپکٹر ایس ایچ او میاں محمد عمران عباس شہید ایک ہنس مکھ، بااخلاق، خوش اخلاق، باکردار اور یاروں کا یار تھا، میرے 11/12 سالہ صحافتی کیریئر میں مختلف ڈیپارٹمنٹس میں کافی تقرریاں و تبادلے ہوئے جو کہ معمول ہیں، پاکستان اور بالخصوص پنجاب میں یہ کوئی نئی بات نہیں جہاں دو سال میں 5 آئی جی تبدیل ہو جاتے ہیں۔ میاں عمران عباس کا تبادلہ ریس کورس ہوا تو سبھی چونک گئے حتیٰ کہ انکی والدہ بھی پریشان ہوئیں کیونکہ ان کے خاوند، میاں عمران عباس کے والد سب انسپکٹر میاں محمد عباس تھانہ ریس کورس میں ہی ملزمان کیخلاف آپریشن کے دوران شہید ہو گئے تھے، انکے بیٹے کی اسی تھانے میں تعیناتی بہت سارے لوگوں کو پریشان کئے ہوئے تھی، لیکن چونکہ میاں عمران عباس ایک فرض شناس افسر تھے تو انہیں اس سے غرض نہیں تھی کہ انکی تعیناتی کہاں ہوتی ہے اس شخص کو اپنے کام سے غرض تھی اور وہ جہاں جاتا تھا اپنا لوہا منواتا تھا، چند ماہ پہلے کی بات ہے راقم اور ارسلان طارق ان سے ملاقات کرنے گئے، کسی خاص مشن پر تھانے سے باہر تھے، کئی گھنٹے انتظار کیا، جو ہمارے اپنے کام تھے وہ کئے، مگر مغرب تک وہ تھانے واپس نہ آئے تو ہم ملاقات کے بغیر واپس آ گئے، بعد میں انکا فون آیا تو معذرت کی اور کہنے لگے ایک ڈکیتی کے ملزمان کو پکڑنے نکلا تھا اور اس مشن میں کامیاب رہا، اس لیے آپکو وقت نہ دے سکا اس کا جرمانہ دوں گا۔ آخری ملاقات 27 دسمبر 2020 کو سمیع اللہ شنواری ریسٹورنٹ گوجرخان میں ہوئی جس کی یادگار تصاویر بنائی تھیں اور یہی تصاویر آج رُلاتی ہیں، آخری بار وٹس ایپ پہ 5 مارچ 2021 کو رابطہ ہوا تھا اور پھر زندگی نے موقع نہ دیا کہ عمران عباس کو فون یا میسج کروں۔
میاں محمد عمران عباس نے گوجرخان تعیناتی کے دوران ڈکیتیوں، چوریوں، قتل، اقدام قتل، رہزنی کے ملزمان، اشتہاری مجرمان، علاقہ کے معزز ترین منشیات فروشوں اور ناجائز اسلحہ رکھنے والوں کیخلاف کارروائیاں کیں اور سرشام مین بازار میں ہونے والی ڈکیتی میں شہر کی معزز شخصیت کے بیٹے کے ملوث ہونے کے باوجود میرٹ پر تفتیش کی اور مال مسروقہ برآمد کیا، یہ کارکردگی میاں عمران عباس اور انکی ٹیم کا ہی حصہ تھا، میں نے مختلف مواقع پر بطور ایس ایچ او میاں عمران عباس کیخلاف لکھا، مگر ان کی سروس کے دوران ان کے ماتھے پہ میں نے سلوٹ نہیں دیکھی، جب بھی وہ شخص ملا، مسکراتا ہوا ملا۔ جس دن گوجرخان سے تبادلہ ہوا اس شام میرے فون کرنے پر میرے دفتر آئے اور الوداعی ملاقات کی، مسکراتے ہوئے الوداع کیا، اس دن کہے ہوئے اس شخص کے یہ الفاظ آج بہت تڑپاتے ہیں ”میں تم لوگوں کو بہت مِس کروں گا” یہ صرف الفاظ نہیں تھے، ان میں بڑا پیار محبت اور خلوص چھپا تھا، اور ان الفاظ میں شاید یہ اشارہ بھی تھا کہ اب میں نے ساری زندگی گوجرخان تعینات نہیں ہونا، اب ہمیشہ کیلیے دنیا چھوڑ کر جاوں گا اور تم مجھے مِس کیا کرو گے۔
سوگواران میں ایک بیوہ، دو بیٹے اور ایک بیٹی چھوڑ گیا، مجھ سے دوست کہتے ہیں ہمیں معصوم بچوں کو دیکھ کر بہت دُکھ لگتا ہے، میں انکو کہتا ہوں دُکھ تو مجھے بھی لگتا ہے مگر ان کو جو امتیازی نشان مِلا ہے وہ تو کسی اور کے نصیب میں نہیں۔ ان بچوں کی عظمت کو سلام جن کا والد بھی شہید اور دادا بھی شہید، اس بہن کی عظمت کو سلام جس کا شوہر بھی شہید اور سسر بھی شہید، اس ماں کی عظمت کو سلام جس کا شوہر بھی شہید جس کا بیٹا بھی شہید۔ یہ خوش بختی کسی کسی کا نصیب ہوتی ہے۔
میاں عمران عباس نے اہلیان گوجرخان کے دل میں جو محبت چھوڑی تھی اس کا قرض اہلیان گوجرخان نے خوب چُکایا، شہادت کی خبر ملتے ہی انکی رہائش پہنچے، دھاڑیں مار مار روئے، رات گئے تک وہیں رہے، اگلے دن نماز جنازہ میں شرکت کی، قبر پر پھول چڑھانے تک اور آخری سیلوٹ تک وفا کی اور اسے بڑھ کر تھانہ گوجرخان کے باہر شہید کی یاد میں شمعیں روشن کر کے، اللہ رسولؐ کا ذکر کر کے فاتحہ خوانی، ایصال ثواب و بلندی درجات کیلیے دعا کر کے اس محبت کا قرض چُکانے کی کوشش کی، میں نے آج تک پولیس لائنز راولپنڈی میں اتنا بڑا جنازہ نہیں دیکھا، اتنی عوام جمع تھی کہ پولیس لائنز کے باہر ٹریفک جام تھی۔
قارئین کرام! اس دنیا فانی میں جو شخص کچھ کر گزرتا ہے وہ یاد رہتا ہے، میاں محمد عمران عباس مختصر زندگی میں بہت کچھ کر گیا ہے، اپنی خوبصورت زندگی میں فرائض کی انجام دہی کیساتھ ساتھ لوگوں کے دلوں میں جو محبت پیار خلوص کے پودے لگا گیا وہ ساری زندگی اس کیلئے ایصال ثواب اور صدقہ جاریہ کا باعث رہیں گے اور ہمارا تو یقین ہے کہ وہ جنتی پھول تھا، جنت میں چلا گیا، ہزاروں لوگوں نے آنسو بہائے، ہزاروں لوگوں نے دعائیں کیں اور ہزاروں دعائیں کریں گے۔
شہید کی جو موت ہے۔۔وہ قوم کی حیات ہے
گزشتہ روز جمعہ کی صبح فون کی گھنٹی بجی تو آنکھ کھلی اور فون اٹھا کر دیکھا تو بجنے والی کال ہمارے بہت پیارے دوست راولپنڈی پولیس کے انسپکٹر کی تھی، بات ہوئی تو کہنے لگے
مبارک ہو، ایک قاتل جہنم واصل ہو گیا دوسرا بھاگ گیا اس کو بھی جلد پکڑ لیں گے، میں نے جواباً کہا مجھے آپ جیسے دوستوں پر بھرپور اعتماد تھا، کہنے لگے کہ جتنا آپ کو دکھ ہے اتنا ہی ہمیں بھی ہے، ہمارا بھائی تو چلا گیا لیکن ہم اس کیس کو ایسی مثال بنائیں گے تاکہ آئندہ کوئی شرپسند ایسی جرأت نہ کر سکے، سی پی او راولپنڈی احسن یونس نے تین دنوں میں ہی آدھا کام کر ڈالا جس پر وہ خود اور ان کی فورس مبارک باد کی مستحق ہے

اپنا تبصرہ بھیجیں