انسا ن ہی انسان کا دشمن

اس بات میں کوئی دو رائے نہیں ہے کہ انسان نے اپنی ذہانت اور عقل سے جرتوں کے جہان تسخیر کر لیے ہیں اور اپنی بصیرت سے ستاروں پر کمندیں بھی ڈال لی ہیں۔ سمندروں‘ زمینوں کی گہرائیوں میں اترنا بھی سیکھ لیا ہے اور فضاؤں خلاؤں پر دسترس کے جھنڈے بھی گاڑھے ہیں اور انسان نے پرندوں کی طرح ہواؤں میں اڑنا بھی سیکھ لیا ہے۔ اسے سمندروں میں مچھلیوں کی طرح تیرنا بھی آگیا ہے لیکن زمین پر انسانوں کی طرح رہنا نہیں آسکا۔ روئے زمین پر انسانی قتل و غارت کی تاریخ اتنی ہی پرانی ہے جتنی خود اس کی اپنی تخلیق۔

تخلیق انسانی کے مرحلے پر فرشتوں کا اس کی سرشت میں رکھے گئے اجزا کو دیکھ کر اٹھائے جانے والا سوال بہت معنی خیز تھا،جس کی گونج آج تک سنی جا رہی ہے کہ یہ دنگا فساد اور کشت و خون کرے گا خونریزی کی یہ تاریخ انسان کی فطرت طاقت کے لالچ،مذہبی و نسلی تعصبات وسائل پر قبضہ اور سیاسی اقتدار جیسے عوامل کے گرد گھومتی ہے۔ تاریخ انسانی کے صفحات ان حقائق سے بھرے پڑے ہیں کہ اس نے اپنے مقاصد کے حصول کے لیے خون کی ندیاں بھی بہانے سے گریز نہیں کیا اور انسانی کھوپڑیوں کے مینار تعمیر کرنے کو بھی اپنی عظمت سمجھا محبت اور انسیت کے خمیر سے بنا ہوا نرم و نازک اور جسمانی کمزوریوں سے بھرا ہوا انسان جس کی اپنی موت محض ایک سانس کے فاصلے پر ہے

آخر کیوں اتنا بے رحم اور سفاک ہو جاتا ہے کہ وہ ہنستے بستے لوگوں اور سرسبز وشاداب بستیوں کو تہ تیغ کرتا چلا جاتا ہے۔ انفرادی قتل وغارت سے لے کر اجتماعی خونریزی کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ ہے جو آج بھی فلسطین اور ایران کے حالیہ تناظر میں دیکھا جا سکتا ہے۔ جب دنیا اپنے آپ کو مہذب اور اخلاق کے اعلی معیار کا حامل سمجھتی ہے تاریخ کا مطالعہ بتاتا ہے کہ زعم تسلط اور سلطنت کے قیام کے لیے بہت خون بہایا گیا اور اگر سلطنت کے قیام تک ہی بات رہتی تو شاید یہ تاریخ اتنی سر خ نہ ہوتی طاقتوروں نے تسلط اور قبضے کے دائرے کو وسیع کرنے کو بھی جواز بنا لیا اور بستیوں کی بستیاں اجاڑ کر رکھ دیں۔مصر،یونان اور روم کی تہاریوں نے اپنی طاقت اور سلطنت کی توسیع کے لیے لاکھوں انسانوں کو قتل کیا اسی طرح مذہب کے قیام کے لیے بھی جنگوں کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ ہے جس سے انسانی تاریخ بھری پڑی ہے۔

عیسائیوں اور مسلمانوں کے درمیان یروشلم پر قبضے کے لیے ہونے والی طویل جنگوں میں دونوں اطراف سے لاکھوں انسان مارے گئے اسی طرح غلامی اور نوآبادہاتی دور کی بات کریں تو کم و بیش پندرہ ملین افریقی باشندوں کو غلامی کے لیے امریکہ اور یورپ کی طرف منتقل کئے جانے کے عمل میں لاکھوں افراد راستے میں ہی ہلاک ہو گئے۔ انسانی معاشروں میں نسل کشی کی ایک سیاہ تاریخ ہے جس میں ہولو کاسٹ جیسے واقعات بھی موجود ہیں جس میں ہٹلر کے سر پر چھ ملین یہودیوں اور دیگر اقلیتوں کا خون لگا ہوا ہے۔ چینگیز خان اور ہلاکو خان جیسے خون آشاموں سے سب واقف ہیں روالڈا میں 1994ء کی ہونے والی نسل کشی میں محض تین ماہ میں آٹھ لاکھ افراد کا خون بہایا گیا

پہلی اور دوسری عالمی جنگوں میں انسانوں کی انسانوں پر مسلط کی گئی جنگوں میں تقریبا 80ملین سے زائد انسانوں کی ہلاکت ہوئی اسی طرح ویتنام افغانستان عراق جنگوں میں لاکھوں انسان لقمہ اجل بن گئے۔ دہشت گردی کے واقعات کی صورت میں ہونے والی ہلاکتوں کے اعدا دو شمارنکالنا نا ممکن ہے جس کا سلسلہ ہنوزجاری و ساری ہے برصغیر کی نظریاتی تقسیم کی قیمت کم و بیش ایک ملین سے زائد افراد نے اپنے خون کی صورت میں ادا کی بوسنیا میں عرب فوجوں نے ہزاروں مسلمانوں کا قتل عام کیا۔ ہیروشیما اور ناگاساکی پرہونے والے حملوں میں لاکھوں افراد کی ہلاکت ہوئی تمام ترتعلیم و
تخلیق اور ٹیکنالوجی کے بعد بھی انسان اپنی جاہلیت سے نہیں نکل سکا۔جنت سے نکالے گئے انسان کو اند ھیرے سیارے پر آکر بھی ندامت نہ ہوئی اور قابیل ہابیل کی پہلی جنگ میں پہلا انسان قتل ہوا یہ جنگ بھی ایسی ہی تھی جیسی امریکہ نے عراق لیبیا اور افغانستان کے خلاف لڑی ہے یعنی یکطرفہ جنگ۔قابیل نے ہابیل کو ناحق قتل کر کے بھائی کو بھائی کے ہاتھوں قتل کرنے کی جو بنیاد رکھی تھی وہ عمارت آج بھی مکمل نہیں ہوئی ہے اور خونی کھیل جاری ہے۔ انسان نے اپنی محنت۔اپناپیسہ اور اپنی مہارت سب سے زیادہ جس ٹیکنالوجی پر لگایا وہ انسانوں کے قتل کے لیے تیار کی گئی ہے۔
ایک زمانہ تھا کہ جنگی ہتھیار پتھر یا لکڑی کا ڈنڈا ہوا کرتے تھے پھر انسان نے تھوڑی ترقی کی تولوہے کا استعمال کرنا شروع کر دیا جس سے انسان کی جان لینا قدرے آسان ہو گیا پھر انسان اس ٹیکنالوجی میں مہارت حاصل کرتا ہوا بیسیوں یں صدی میں پہنچ کر گندی گیسوں سے ایک ایسا بم تیار کرنے میں کامیاب ہوا کہ جس سے ایک ہی وقت میں لاکھوں انسانوں کو لقمہ اجل بنایا جا سکے اور اس کی تابکاری صدیوں تک نکلتی ہے اور انسان مختلف بیماریوں میں مبتلا ہو کر مرتے رہیں۔ اس دنیا میں آنے والے پہلے انسان کی پہلی اولاد وں کو الگ الگ سوچ اور کردار مین تقسیم کر دیا گیا اور یہ سلسلہ آگے بڑھتا رہا۔ انسانوں کو دوسرے انسانوں کے قتل کے جواز ملتے گئے

کبھی کہا گیا کہ فرعون اس دنیا میں فسادی ہے پھر کسی نے کہا جب تک یہ یہودی دنیا میں موجود ہیں اس وقت تک امن ممکن نہیں،پھر جاپانیوں کو جنگجو قوم کہہ کر ان کے اوپر ایٹم بم گرائے گئے اور اب مسلمانو ں پر ہر طرح کی بر بریت جاری ہے اور دہشت گردی کا لیبل بھی مسلمانوں پر لگایا جاتا ہے انسانوں کے انصاف کے لیے بنایا گیا ادارہ اقوام متحدہ جس کا انصاف یہ ہے کہ دنیا کے پانچ ممالک امریکہ، برطانیہ، فرانس،چین ااورروس جس بات سے مرضی انکار کر سکتے ہیں جبکہ باقی تمام ممالک پر لازم ہے کہ وہ ان پانچ ممالک کی بات مانیں گے

حضرت انسان ہزاروں بار لڑائیاں لڑنے،کروڑوں انسانوں کا قتال کروانے،ہزاروں بار اپنی املاک اور ضروریات کو تباہ کرنے کے بعد بھی یہ نہ سیکھ سکا کہ اگر سارے انسان اپنے کام اور اپنی ضرورت کے مطابق اپنے حصے تک محدود رہیں تو یہ دنیا امن کا گہوارہ اور جنت بن سکتی ہے سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ انسان دوسرے انسان کو قتل کرنے پر آمادہ کیسے ہوتا ہے؟ یہ جو اتنے مہلک ہتھیاروں کے انبار اس دنیا میں لگائے گئے ہیں ان کا مقصد کیا ہے؟ اگر انسان کا اللہ پر ایمان ہے اور اس کی نیت یہ نہیں کہ میں نے دوسروں کے حق کو ہتھیانا ہے تو اسے یہ شک بھی نہیں ہونا چاہیے کہ میرا حق کوئی دوسرا چھین سکتا ہے بظاہر تمام جنگوں اور فسادات کی بنیادی وجہ ایک ہی ہے کہ اپنے حق کی بجائے دوسرے کے حق پر ہاتھ ڈالنا ہے

جس ہستی کو اللہ تعالی نے رحمت اللعالمین بنا کر بھیجا۔انہوں نے ایک ایسی دنیا کی بنیاد رکھی تھی جہاں کوئی کسی دوسرے کا حق چھیننے اور نہ ہی کسی دوسرے کو بلاوجہ ا سکی زمین سے بے دخل کر سکے بلکہ ایک ہی جملے میں بات ختم کی کہ ایک انسان کا بلاوجہ قتل پوری انسانیت کا قتل ہے بلاوجہ قتل یہی ہے کہ ایک طاقتور ملک پندرہ سو کلو میٹر سے چار ممالک کو پھلانگتے ہوئے دوسرے کسی ایسے ملک پرجھوٹا الزام لگاکر حملہ کر دے الزام یہ ہے کہ وہ ملک ایسے مہلک ہتھیار بنانے کی کو شش کررہا ہے جوہم نے لگ بگ ایک صدی پہلے بنا لیے تھے گویا کہ انسانوں کے قتل کرنے اور دنیا کی تباہی کا حق صرف ہمارا ہے کسے کو اس بنیاد پر قتل کرنا کہ وہ میری سوچ میرے عقیدے یا مذہب سے اختلاف رکھتا ہے،بھی نا حق یا بلاوجہ قتل کہلائے گا۔نا حق قتل کسی مہذب کسی رنگ یا کسی علاقے کے انسان کا ہو وہ ناحق ہی کہلائے گا ہمیں سب سے پہلے
انسان بنانا چاہیے انسانی قدروں کو اپنانا چاہیے اور اس دنیا میں بسنے والے ہر انسان کے حقوق ضروریات اور اس کی آزادی کا احترام کرنا چاہیے جس دن انسانوں نے ان اصولوں کو سمجھ کر اپنا لیا پھر کوئی جنگ نہ رہے گی اور نہ کسی پر ظلم ہو گا اور نہ ہی انسان کے ہاتھوں انسان کا قتل ہو گا یہ کام نا ممکن ہے اور نہ ہی مشکل ہے صرف انسان بن کے رہنا شرط ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں