محمد سرفراز
انسان بظاہر ایک وجود رکھتا ہے مگر اس کے اندر کئی دنیائیں آباد ہوتی ہیں، کئی نقاب چڑھے ہوتے ہیں اور کئی چہرے پوشیدہ رہتے ہیں۔ زندگی کے مختلف تقاضے اور حالات انسان کو مجبور کرتے ہیں کہ وہ ہر موقع پر ایک نیا چہرہ اوڑھ لے، ایک نئی شکل اختیار کرے، اور ایک نئے انداز میں خود کو دنیا کے سامنے پیش کرے۔ پہلا چہرہ وہ ہے جو انسان اپنے گھر میں اپنے اہلِ خانہ، بچوں، والدین اور شریکِ حیات کے ساتھ جیتا ہے۔ یہ چہرہ کبھی مسکراتا ہے، کبھی رو پڑتا ہے، کبھی برداشت کرتا ہے اور کبھی قربانی دیتا ہے۔ یہاں انسان اپنی اصل فطرت کے زیادہ قریب ہوتا ہے، مگر پھر بھی مکمل طور پر برہنہ نہیں ہوتا۔ وہ اپنے دکھ دل میں چھپاتا ہے تاکہ اس کے اپنے کمزور نہ پڑ جائیں، وہ اپنے خوابوں کو مؤخر کرتا ہے تاکہ اولاد کے خواب پورے ہو جائیں۔ یہ چہرہ محبت، ایثار، اور احساسِ ذمہ داری سے بنا ہوتا ہے، جو ایک عام انسان کو غیر معمولی بنا دیتا ہے۔
دوسرا چہرہ وہ ہے جو انسان سماج، دفتر، دوستوں اور اجنبی دنیا کے سامنے رکھتا ہے۔ یہ چہرہ اکثر سب سے زیادہ مصنوعی ہوتا ہے۔ یہاں انسان ہنستا بھی ہے مگر دل میں غم چھپائے، تعریفیں بھی کرتا ہے مگر دل میں تجزیے، ہاتھ بھی ملاتا ہے مگر دل میں فاصلے قائم رکھتا ہے۔ معاشرتی دنیا ایک ایسا اسٹیج ہے جہاں ہر انسان ایک اداکار ہے، ہر کوئی اپنا کردار نبھا رہا ہے کوئی ایماندار کا، کوئی نرم گفتار کا، کوئی کامیاب کا۔ اس چہرے پر شائستگی کی چادر ضرور ہوتی ہے مگر اس کے نیچے حقیقت اکثر زخمی پڑی ہوتی ہے۔ اور پھر تیسرا چہرہ، جو سب سے زیادہ خاموش مگر سب سے زیادہ طاقتور ہوتا ہے، وہ ہے جو انسان کو صرف خود نظر آتا ہے۔
یہ وہ چہرہ ہے جو رات کے سنّاٹے میں انسان سے بات کرتا ہے، ضمیر کے آئینے میں جھانکتا ہے اور پوچھتا ہے کہ“تم واقعی وہی ہو جو دنیا سمجھتی ہے؟”یہی وہ چہرہ ہے جو انسان کے اصل احساسات، گناہوں، نیکیوں، خوف، اور تنہائیوں کا آئینہ دار ہوتا ہے۔ اس چہرے کو کوئی دوسرا نہیں دیکھ سکتا، نہ ماں، نہ دوست، نہ محبوب، صرف انسان خود۔ یہ وہ چہرہ ہے جہاں انسان کا ضمیر، اس کی سچائی اور اس کا باطن زندہ ہوتا ہے۔ یہی وہ چہرہ ہے جو انسان کو اس کے خالق کے قریب یا اس سے دور کرتا ہے۔
جو شخص اپنے اندر کے اس چہرے کو پہچان لیتا ہے، وہ زندگی کی اصل حقیقت سمجھ لیتا ہے۔ انسان کی اصل پہچان نہ اس کے چہرے کی خوبصورتی ہے نہ اس کی گفتگو کی چمک، بلکہ اس کا اصل وجود وہ ہے جو اس کے اندر چھپا بیٹھا ہے — جو کبھی کبھی خاموشی میں بولتا ہے، کبھی تنہائی میں روتا ہے، کبھی دعا میں جھک جاتا ہے۔ دنیا کے دو چہرے تو سب پہنتے ہیں مگر اصل انسان وہی ہے جو تیسرے چہرے کی سچائی کو جان لے۔ باقی سب تو نقاب ہیں، وقتی اداکاری ہے، زندگی کے اسٹیج پر فرضی مکالمے ہیں۔ انسان کی اصل کہانی اس وقت شروع ہوتی ہے جب وہ اپنے اندر کے چہرے کو دیکھنے اور ماننے کا حوصلہ پیدا کرتا ہے، کیونکہ وہی چہرہ اس کی حقیقت ہے، اس کا ایمان ہے، اور اس کی روح کا آئینہ۔
لاہور (پنڈی پوسٹ نیوز) وزیر اطلاعات پنجاب عظمیٰ بخاری نے کہا ہے کہ سعد رضوی…
اسلام آباد (پنڈی پوسٹ نیوز) پاکستان مسلم لیگ ن نے آزاد جموں و کشمیر حکومت…
اسلام آباد(نمائندہ پنڈی پوسٹ)چیئرمین کیپیٹل ڈویلپمنٹ اتھارٹی (سی ڈی اے) و چیف کمشنر اسلام آباد…
راجہ شاھد رشید اس جہانِ فانی میں رہنا کسی نے بھی نہیں ہے ہم نے…
راجہ شاھد رشید اس جہانِ فانی میں رہنا کسی نے بھی نہیں ہے ہم نے…
اسلام آباد (پنڈی پوسٹ نیوز) پنجاب میں بلدیاتی انتخابات ایک بار پھر تاخیر کا شکار…