انسان جو بوتا ہے وہی کاٹتا ہے

میں تعلیم تو گورنمنٹ کالج آف کامرس میں حاصل کرتا تھا مگر باسکٹ بال کھیلنے گورڈن کالج جایا کرتاتھا اور کبھی کبھار اصغر مال کالج۔ ایک دفعہ ہوا یوں کہ ہم سب دوست چھٹی کے بعد باسکٹ بال کی پریکٹس کر رہے تھے کہ ایک لڑکا جب باسکٹ میں بال ڈالنے کے لیے اچھلا تواس کی شرٹ جب اوپر اٹھی تو معلوم ہوا کہ اس نے پینٹ میں بیلٹ کے بجائے ایک عدد رسی یا ڈوری باندھ رکھی ہے۔ یہ سب دیکھ کر سب لڑکوں نے خوب شور مچایا اور اس کی غربت کا خوب مذاق اڑایا۔ کچھ لڑکوں نے تو زور زور سے قہقے لگائے۔ مگر اس وقت اسی عمر کے کچھ لڑکوں نے مذاق اڑانے والے لڑکوں کو منع کیا اور کہا کہ یہ سب اللہ کی مرضی کے بغیر ہر گز نہیں ہوتا یعنی اللہ جسے چاہے دولت و ثروت دے کر آزمائے اور جسے چاہے محروم رکھ کر آزمائے۔ ہر دو صورتوں میں انسان ایک آزمائش اور امتحان کی حالت میں ہی ہوتا۔ مگر انسان خوشحالی کے دنوں میں اپنے پاؤں زمین پر رکھنا گوارہ نہیں کرتا۔ اور بد حالی کے دنوں میں نعوذ بااللہ رب کی ذات سے شکوے اور شکائتیں کرتا پھرتا ہے۔ بنا سوچے بنا سمجھے کہ وہ رب تو انسان سے ستر ہزار ماؤں سے زیادہ پیار کرنے والا رب ہے۔ بھلا وہ اپنے بندوں میں تفریق کیسے کر سکتا ہے؟ بات صرف یہ ہے کہ انسان اگر یہ جان لے کہ اللہ کے ہر کام میں کوئی مصلحت ہوتی ہے تو وہ نہ تو دولت کے نشے میں چورچور ہو گا اور نہ ہی غربت کی وجہ سے ربّ سے گلے شکوے کرے گا۔ المختصر وقت گزرتا گیا اور اس لڑکے نے کالج آنا چھوڑ دیا۔ تقریباً ایک ماہ بعد وہ دوبارہ کالج آیا۔ مگر اس دفعہ وہ عین کلاس کے وقت کالج آتا اور چھٹی ہوتے ہی کالج کے گیٹ سے باہر چلا جاتا کیونکہ نوجوانی اور کم عمری میں وہ دوسرے لڑکوں کے طعنے برداشت نہ کر سکا۔ اس دوران نہیں معلوم وہ راتوں کو سوتا بھی ہو گا یا نہیں۔ پتہ نہیں وہ ناشتہ کر کے بھی آتا ہو گا یا نہیں۔ الغرض اس لڑکے کا مکمل پس منظر یا حسب و نسب کسی کو معلوم نہ تھا۔ وقت مزید گزرتا گیا وہ تمام لڑکے بارہویں جماعت کے بعد ایک دوسرے سے جدا ہو گئے۔ حتیٰ کہ تقریباً 23 برس کا عرصہ گزر گیا اور نہ جانے ان سب میں سے کون اس دنیا میں ہے اور کون نہیں۔ جن کو لڑکپن میں ہنس ہنس کر پیٹ میں درد پڑ جاتا ہے وہی زندگی کے نشیب و فراز میں اور رو رو کر نڈھال دیکھے جاتے ہیں۔ بالکل ایسے ہی جیسے لاڈوں میں پلی بیٹیاں بابل کا آنگن چھوڑتے ہی پہاڑ جتنی زندگی کو ماں باپ اور سب گھر والوں کے بغیر گزارنے کا ٹھان لیتی ہیں۔ اللہ سے دعا ہے کہ سب بیٹیوں کے نصیب اچھے کرے۔ آمین
آج بار بار اس ایک کہانی کے درمیان دوسری کہانیاں یاد آ رہی ہیں مگر کیا کروں یہ سب اپنی جگہ ایک خاص مقام کی حامل ہیں۔ آج اس واقعہ کو گزرے تقریباً 23 برس بیت چکے ہیں اور محسوس یوں ہو رہا ہے کہ جیسے کل کی بات ہو۔9 برس قبل کی بات ہے کہ ہم پرانے دوست دوبارہ 14 برس بعد ایک جگہ اکٹھے ہوئے تو بہت خوشی ہوئی۔ کالج اور یونیورسٹی کے زمانے کی باتیں کرتے کرتے مجھے وہ واقعہ یاد آیا تو میں نے سب سے پوچھا کہ کیا آپ کو یاد ہے وہ باسکٹ بال کے گراؤنڈ والا واقعہ کہ جس میں ایک لڑکے نے بیلٹ کی جگہ رسی باندھ رکھی تھی اور اس کے بعد اس کی غربت کا وہ تمسخر اڑایا گیا کہ یقینا ربّ کی ذات کو غضب آ گیا ہو گا۔ انہی دوستوں میں وہ افراد بھی تشریف فرما تھے کہ جنہوں نے اس کار بد میں خوب حصہ لیا تھا۔ شرمندگی سے سب کے سر جھک گئے۔ میں نے پوچھا کہ کسی کو معلوم ہے کہ وہ کہاں ہے آج کل۔ تو ایک دوست نے کہا جی ہاں مجھے معلوم ہے وہ آج کل کہاں ہے۔ اس نے بتایا کہ وہ آج کل ایک بہت بڑی کمپنی کا ایم ڈی ہے اور ربّ کی ذات نے اسے دنیا کی تمام آسائشیں دے رکھی ہیں۔ اس دور کی سب سے مہنگی گاڑی اس کے پاس ہے جسے اس کا ڈرائیور
چلاتا ہے۔ جب وہ کسی فرم کا دورہ کرتا ہے تو تمام ملازمین راستے میں کھڑے ہو کر اس کا استقبال کرتے ہیں۔ وہ کھڑا ہو کر سب کا مسکراتے ہوئے شکریہ ادا کرتا ہے۔ بزرگ ملازمین کو دیکھ کر ان کے پاس کھڑا ہو کر ان سے ملتا ہے۔ یقینا اسے ان میں اپنے والدین دکھتے ہوں گے۔ یعنی دولت اس کا کچھ نہ بگاڑ سکی وہ آج بھی وہی عام انسان ہے جو سالہا سال ایک ہی پینٹ پہنا کرتا تھا بغیر بیلٹ کے۔ وہ آج بھی وہی انسان دوست اور ماضی کو یاد کرنے والا انسان ہے جو ہزاروں برس کی مسافت چند برس میں طے کر گیا مگر اللہ کے فضل و کرم والدین کی دعاؤوں اور اپنے اردگرد بسنے والوں کی نیک تمناؤں کی بدولت۔ آخر میں کہنے لگا کہ اگر کسی کو نوکری کی ضرورت ہو تو اس کے پاس جاؤ وہ یقینا اس کو بھی خوش آمدید کہے گا جو اس پر سب سے زیادہ ہنسا تھا اور جس کی وجہ سے اس نے کالج آنا ترک کر دیا تھا۔ زندگی کے اس طویل سفر میں نہ جانے کن کن دشوار گزار رستوں سے گزرا ہو گا۔ نہ جانے کہاں کہاں تھک کر رک گیا ہو گا۔ مگر یاد رہے کہ جسے اللہ کی ذات پر یقین ہو اور جو ہر حال میں رب کا شکر گزار ہو وہ اللہ اور رسول ؐ کے سامنے اور اس مادی دنیا والوں کے سامنے سرخرو ہو کر ہی رہتا ہے۔ معلوم ہوا کہ یہ دنیا جتنی مرضی جدیدیت کی دعویدار بن جائے رب کی حکمت اور مصلحت کے سامنے صفر ہے۔ اللہ سے دعا ہے کہ وہ ذات ہم سب کو یہ سوچ کر زندگی گزارنے کی توفیق عطا فرمائے کہ یہ دنیا عارضی دنیا ہے۔ اس دنیا میں کامیاب ہونے کے لیے اس دنیا والوں کا ہمدرد بن کر زندہ رہنا پڑے گا ورنہ اس دنیا میں بھی ناکام اور آنے والی ابدی زندگی میں بھی ذلیل و خوار ہو جائیں گے۔ آج اگر ہم اس بات پر اتفاق کر لیں کہ انسان جو بوتا ہے وہی کاٹتا ہے تو یقین مانیں ہماری دنیا و آخرت دونوں سنور جائیں گی، لہٰذا انسان کو چاہیے کہ اپنے اردگرد بسنے والوں سے محبت و انس کے جذبات لے کر زندہ رہے۔ اگر یہ ایک کام ہم کر لیتے ہیں تو دنیا کی کوئی طاقت ہمیں دنیاوی اور اُخروی کامیابی سے نہیں روک سکتی۔

اپنا تبصرہ بھیجیں