انسانیت

عبدالجبار چوہدری
انسانیت کا مظاہرہ کرنا بہت مشکل ہے کیونکہ انسانیت بیان نہیں کی جاتی دکھائی جاتی ہے اختیار کی جاتی ہے اندر کی نفرت ختم کر کے اپنے عمل سے اس کا اظہار کیا جاتا ہے انسانی اعضاء اس وقت تک حرکت میں نہیں آتے جب تک اس کے اندر محبت یا نفرت کے جذبات پیدا نہیں ہوتے کسی کو گالی دینے ،ہاتھ اٹھانے یا دھکا دینے کے لیے پہلے نفرت کا لاوا پکانا پڑتا ہے اور کسی کو تسلی دینے ،مرہم لگانے اور بچانے کے لیے محبت کا دیا جلانا پڑتا ہے نفرت کے طوفانوں کو ہوا کیسے دی جاتی ہے اور صحبت کے خوشگوار جھونکوں کو کیسے پیدا کیا جاسکتا ہے اس کے لیے ہمیں ایسے لوگوں کی اختیار کرنا پڑتی ہے انسان کی خوش قسمتی اور بدقسمتی کا آغاز یہیں سے ہوتا ہے محبت ،ادب اور نیچی آواز میں گفتگو کرنے والوں کے ساتھ بیٹھنے اٹھنے ، کھانے پینے سے انسان ان خصوصیات کو پیدا ہوتے محسوس کرسکتا ہے ، چالاک ، مکار ، جھوٹ اور مذاق اڑانے والوں کے ساتھ وقت گزارنے سے نہ چاہتے ہوئے بھی یہ کام کرتا پڑتے ہیں ، بے ہودہ گفتگو ، بدمزاج، اور دوسروں کے بارے غلط جذبات رکھنے سازش اور منافقت کے ذریعے نقصان پہنچانے والوں کے ساتھ رہنے والا ان چیزوں سے نہیں بچ سکتا۔ انسانیت کو ہم نشینی ہی پروان چڑھاتی ہے جس طرح کو رے کاغذ پر لکھنے سے پہلے سوبار سو جاتا ہے اس طرح کسی معصوم انسان کو غلط رستے پر دھکیلنے سے پہلے بھی بہت زیادہ سوچنے کی ضرورت ہوتی ہے انسانیت کا پرچار کرنے والوں کو دقیانوس اور پرانے لوگ کہنے والوں کو اپنے عمل پر شرمندہ ہونے کی ضرورت ہے ، ہمارا دین سفید بالوں کے حیا کا درس دیتا ہے ، زیادہ عمر والے کے احترام کا حکم دیتا ہے مگر ہم عقل ،ترقی ،لباس ،سٹیٹس کے زعم اور دولت امارت اور قوم کے خمار میں انسانیت کو بھلا دیتے ہیں نفرت کے پرچار،اظہار کے لیے زیادہ محنت یا سوچنے کی ضرورت نہیں اس آگ کو بھڑکانے کے لیے بس ذرا سی چنگاری (گالی ، بدتمیزی ) سے اس کا آغاز ہوتا ہے ۔تشدد ،ظلم اور بالآخر قتل ہر انجام ہوتا ہے نفرت کی راہ میں رحم ، قربانی درگزر ،احسان کچھ بھی آڑے نہیں آتا،جبکہ محبت کے اظہار کے لیے کسی اہتمام کی ضرورت نہیں ہوتی محبت اوراخوت کا بیج ازل سے انسان کے اندر رکھ دیا گیا ہے اس کے اظہار اور عمل کے لیے جلدی اعضاء حرکت میں آجاتے ہیں رستے سے کانٹا پتھر ہٹانا ، پانی پلانا ، کھانا کھلانا ، رستہ چھوڑنا ،اعلیٰ ظرفی کا مظاہرہ کرنا ، یہ تمام انسانیت کی عمدہ مثالیں ہیں ،غور سے بات سننا ،توجہ سے نصیحت پر کان دھرنا ،بات نہ کاٹنا ،گفتگو میں اس کے الفاظ، جمع کے صیغہ میں بات کرنا ،اپنی مثالیں کم دینا اور میں کا استعمال نہ کرنا یہ سب انسانیت کا ابتدائی درس ہے،انسانیت لباس اور وضع قطع سے ظاہر نہیں ہوتی فطرت کے قریب اعمال و افعال انسانیت کا پتہ دیتے ہیں انسانیت انفرادی فعل سے جنم لیتی ہے اور اجتماعی عمل کے نتیجہ میں پہچان بنتی ہے انسانیت کو بہت سی اقوام اور انسان فتح اور اہداف کے حصول میں رکاوٹ سمجھتے ہیں وہ اپنے ملک کے شہریوں کو تو ہر تکلیف سے دور دیکھنا چاہتے ہیں ،بم ،گولی ،بے سرو سامانی اورمہاجرت سے محفوظ رکھنا چاہتے ہیں مگر دوسرے ممالک کے انسانوں کو ان چیزوں کا شکار کر رہے ہوتے ہیں اس دوغلے اور غیر انسانی فعل نے انسانیت کو گہنا رکھا ہے ۔نفرت کے آگے دور حاضر کی نڈر خاتون اور بے باک انسانیت کی ترجمان نیوزی لینڈ کی وزیر اعظم جیسنڈا آرڈرن نے اپنے عمل سے بند باندھا ہے ،جس بندوق نے کئی مسلمانوں کی جانیں لیں اس بندوق پر بھی ایک تاریخ درج تھی جو انسانیت دشمن تھی جبکہ اس بندوق کو ہمیشہ کے لیے خاموش کرنے اور صفحہ ہستی سے مٹانے کے لیے جیسنڈا آرڈن کے انسانیت سے بھر پورعمل نے و ہ کارنامہ سرانجام دیا کہ رہتی دنیا تک یہ درس یاد رہے گا۔ انسانیت کی ایک نئی تاریخ ،انسان سے محبت کے اظہار کی انوکھی مثال اور ملک اور قوم کے اندر امن اور محبت کی شمع کو ہمیشہ قائم رکھنے کے لیے اس خاتون نے جس عمل اور جراء ت کا مظاہرہ کیا وہ بڑے بڑے مفکرین ، مصنفین اور جفادری مبلغین کو خاموش کرا گیا ،دلدل میں پھنسی انسانیت کو کنارے لگا کر 21ویں صدی کی خاتون نے انسانیت پر بہت احسان کیا ۔

اپنا تبصرہ بھیجیں