Categories: کالم

“انسانیت مر نہیں سکتی، بس خاموش ہے”

دنیا تیزی سے ترقی کر رہی ہے۔ مشینیں انسانوں سے زیادہ سمجھ دار بنتی جا رہی ہیں، شہر روشنیوں سے جگمگا رہے ہیں، اور لوگ ظاہری کامیابیوں میں ایک دوسرے سے آگے نکلنے کی دوڑ میں شامل ہیں۔ لیکن ان سب کے باوجود ایک سوال آج بھی اپنی جگہ قائم ہے کہ کیا انسانیت واقعی مر چکی ہے؟ کیا احساس، ہمدردی، اور رحم جیسے جذبات اب صرف کتابوں میں رہ گئے ہیں؟ حقیقت یہ ہے کہ انسانیت مر نہیں سکتی، وہ صرف خاموش ہو چکی ہے۔ وہ اس شور میں دبی ہے جو خود غرضی، مفاد پرستی اور بے حسی نے پیدا کیا ہے۔

انسان کی فطرت میں احساس اور ہمدردی بنیادی طور پر شامل ہیں۔ انسان ایک ایسا جاندار ہے جو دوسروں کے دکھ کو محسوس کرنے اور مدد کے جذبے سے سرشار رہنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ لیکن بدقسمتی سے موجودہ دور کی مصروف زندگی اور معاشی دباؤ نے انسان کو اس قدر محدود کر دیا ہے کہ وہ اپنے اردگرد کے انسانوں سے کٹتا جا رہا ہے۔ آج کا انسان مادی آسائشوں کے حصول میں اتنا مصروف ہے کہ اسے یہ احساس ہی نہیں رہتا کہ کہیں کوئی بھوکا ہے، کوئی بیمار ہے، یا کوئی مدد کا طلبگار ہے۔ یہ خاموشی انسانیت کی موت نہیں بلکہ اس کے اندر چھپے درد کا ثبوت ہے جو ابھی زندہ ہے مگر اظہار سے قاصر ہے۔

جدید دنیا میں جہاں ٹیکنالوجی نے فاصلے کم کر دیے ہیں، وہاں دلوں کے درمیان فاصلے بڑھ گئے ہیں۔ سوشل میڈیا پر ہم دکھ اور تکلیف کی خبریں پڑھ کر افسوس کا اظہار تو کرتے ہیں، لیکن عملی طور پر کچھ کرنے کی ہمت نہیں دکھا پاتے۔ ہم ایک دوسرے کے مسائل دیکھتے ہیں مگر ان میں شریک ہونے سے گریز کرتے ہیں۔ یہ رویہ اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ انسان کے اندر احساس اب بھی موجود ہے، لیکن وہ دب چکا ہے۔ وہ خوف، مفاد، اور بے حسی کے نیچے چھپ گیا ہے۔

معاشرتی رویوں میں پیدا ہونے والی یہ بے حسی دراصل ہمارے اجتماعی ضمیر کی خاموشی ہے۔ ہم دوسروں کے دکھ کو دیکھ کر متاثر تو ہوتے ہیں مگر فوری طور پر اپنی زندگی میں واپس لوٹ جاتے ہیں۔ سڑک کنارے زخمی پڑے کسی شخص کے پاس سے گزرتے وقت ہمارا دل ایک لمحے کو ضرور دھڑکتا ہے مگر ہم رک کر مدد کرنے کی جرات نہیں کرتے۔ ہم سوچتے ہیں کہ کوئی اور آ کر مدد کر دے گا۔ یہی سوچ انسانیت کے شور کو خاموش کر دیتی ہے۔

اس خاموشی کی کئی وجوہات ہیں۔ ایک بڑی وجہ معاشی دباؤ ہے۔ آج ہر شخص اپنی ضروریات پوری کرنے اور اپنے خاندان کے لیے بہتر مستقبل بنانے کی دوڑ میں لگا ہوا ہے۔ اس دوڑ نے اسے اتنا مصروف کر دیا ہے کہ وہ دوسروں کے بارے میں سوچنے کی صلاحیت کھو چکا ہے۔ دوسرا سبب اعتماد کا فقدان ہے۔ معاشرے میں دھوکہ دہی، فراڈ اور جھوٹ نے اس حد تک جگہ بنا لی ہے کہ اب کسی کی مدد کرنے سے پہلے انسان کئی بار سوچتا ہے کہ کہیں اس کے جذبے کا غلط فائدہ نہ اٹھایا جائے۔ اسی طرح رہنمائی کے فقدان نے بھی انسانیت کو کمزور کیا ہے۔ آج کے دور میں وہ لوگ کم دکھائی دیتے ہیں جو دوسروں کے لیے مثال بن سکیں۔ جب معاشرہ رہنماؤں سے خالی ہو جاتا ہے تو احساس کے بجائے خود غرضی کو فروغ ملتا ہے۔

اگرچہ ہم یہ محسوس کرتے ہیں کہ انسانیت کمزور پڑ گئی ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ وہ اب بھی زندہ ہے۔ دنیا میں آج بھی ایسے لوگ موجود ہیں جو بغیر کسی فائدے کے دوسروں کی مدد کرتے ہیں۔ کہیں ایک عام شہری اپنی تھوڑی سی آمدنی سے کسی غریب کے لیے دو وقت کا کھانا فراہم کرتا ہے، کہیں ایک نوجوان سڑکوں پر بھٹکتے بچوں کو تعلیم دینے کا بیڑا اٹھاتا ہے، کہیں کوئی عورت بیماروں کے لیے دوا خرید کر دیتی ہے، تو کہیں کوئی شخص رات کے اندھیرے میں بھوکوں کے دروازے پر کھانا رکھ کر چلا جاتا ہے۔ یہ تمام چھوٹے چھوٹے کام انسانیت کی خاموش دھڑکن ہیں جو ہمیں یقین دلاتے ہیں کہ انسانیت مر نہیں سکتی۔

پاکستان جیسے ملک میں قدرتی آفات کے دوران لوگوں کا ایک دوسرے کے لیے اٹھ کھڑا ہونا بھی اس بات کا ثبوت ہے کہ احساس ابھی باقی ہے۔ جب کبھی زلزلہ، سیلاب یا کوئی سانحہ آتا ہے تو عوام دل کھول کر مدد کرتے ہیں۔ یہ وہ لمحے ہوتے ہیں جب انسانیت خاموشی توڑتی ہے اور عملی طور پر اپنے وجود کا ثبوت دیتی ہے۔ ایسے مناظر یہ پیغام دیتے ہیں کہ انسان ابھی مکمل طور پر بے حس نہیں ہوا، بلکہ موقع ملنے پر وہ اپنا دل کھولنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔

انسانیت کی خاموشی کو ختم کرنے کے لیے ہمیں اجتماعی طور پر سوچ میں تبدیلی لانا ہوگی۔ ہمیں سمجھنا ہوگا کہ ترقی صرف عمارتوں، مشینوں اور ٹیکنالوجی کے استعمال سے نہیں بلکہ احساس اور اخلاق کے فروغ سے ہوتی ہے۔ ہمیں اپنے بچوں کی تربیت میں یہ شامل کرنا ہوگا کہ کامیاب وہ نہیں جو سب سے زیادہ کمائے بلکہ وہ ہے جو سب سے زیادہ کام آئے۔ تعلیمی اداروں میں اخلاقیات کو محض ایک مضمون کے طور پر نہیں بلکہ زندگی کے رویے کے طور پر پڑھانے کی ضرورت ہے۔ اسی طرح میڈیا اور سوشل پلیٹ فارمز کو بھی اپنی ذمہ داری محسوس کرنی چاہیے کہ وہ ایسی مثالیں سامنے لائیں جو دوسروں کے لیے ترغیب بنیں۔

انسانیت کو دوبارہ زندہ کرنے کا آغاز چھوٹے قدموں سے ہو سکتا ہے۔ کسی کے چہرے پر مسکراہٹ لانا، کسی بیمار کی خیریت پوچھنا، کسی ضرورت مند کو سہارا دینا، یا کسی بزرگ کی مدد کرنا — یہ وہ اعمال ہیں جو بڑے دعووں سے کہیں زیادہ مؤثر ثابت ہوتے ہیں۔ اگر ہر شخص روز ایک چھوٹا سا نیک عمل کرنے کا عزم کرے تو معاشرہ بہت جلد محبت اور ہمدردی سے بھر سکتا ہے۔

اسلامی تعلیمات میں بھی انسانیت کو بنیادی حیثیت حاصل ہے۔ مذہب ہمیں یہ سکھاتا ہے کہ ایک دوسرے کے دکھ درد میں شریک ہونا انسان کے ایمان کا حصہ ہے۔ خدمت، ہمدردی اور رحم جیسے اوصاف وہ اقدار ہیں جن پر ایک مضبوط معاشرہ قائم ہوتا ہے۔ لیکن ان اقدار کو صرف الفاظ تک محدود رکھنے کے بجائے عمل میں لانے کی ضرورت ہے۔ انسانیت کی بقا اسی وقت ممکن ہے جب ہم اپنے عمل سے یہ ثابت کریں کہ ہم صرف اپنے لیے نہیں بلکہ دوسروں کے لیے بھی زندہ ہیں۔

انسانیت کی خاموشی کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ لوگ احساس کے باوجود بولنے یا قدم اٹھانے سے ڈرتے ہیں۔ ہم سب جانتے ہیں کہ معاشرتی ناانصافیوں، غربت، اور محرومیوں کے خلاف آواز اٹھانا آسان نہیں۔ لیکن اگر ہر شخص یہ سوچ کر خاموش رہے کہ اس کے بولنے سے کیا فرق پڑے گا تو پھر یہ خاموشی کبھی ختم نہیں ہوگی۔ کسی ایک شخص کا عمل چاہے کتنا ہی چھوٹا کیوں نہ ہو، وہ انسانیت کی بیداری کا آغاز بن سکتا ہے۔

انسانیت دراصل دل کی وہ دھڑکن ہے جو کبھی نہیں رکتی۔ وہ کبھی کسی ماں کی دعا میں چھپی ہوتی ہے، کبھی کسی غریب کے شکریے میں، اور کبھی کسی بچے کی مسکراہٹ میں۔ بس ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اپنی مصروف زندگیوں میں چند لمحے دوسروں کے لیے نکالیں۔ جب ہم یہ سمجھ جائیں کہ دوسروں کے لیے جینا ہی اصل زندگی ہے تو انسانیت کی یہ خاموش صدا پھر سے بلند ہو جائے گی۔

دنیا میں امن، خوشحالی، اور ترقی اسی وقت ممکن ہے جب انسان اپنی اصل پہچان کو دوبارہ دریافت کرے۔ ہمیں یاد رکھنا ہوگا کہ مشینیں ہماری سہولت کے لیے بنائی گئی ہیں، لیکن احساس وہ چیز ہے جو صرف انسان کے پاس ہے۔ اگر یہ احساس ختم ہو جائے تو انسان خود ایک بے جان مشین بن جاتا ہے۔ لہٰذا اب وقت ہے کہ ہم اس خاموش انسانیت کو دوبارہ آواز دیں۔ ہم اپنے دلوں سے وہ شور نکال دیں جو خود غرضی اور مفاد پرستی نے پیدا کیا ہے، تاکہ ہمدردی، محبت اور احساس کی آواز ایک بار پھر سنی جا سکے۔

آخر میں بس اتنا کہنا کافی ہے کہ انسانیت مر نہیں سکتی، کیونکہ یہ انسان کی فطرت ہے۔ وہ خاموش ضرور ہے، مگر زندہ ہے۔ ہمیں صرف اس خاموشی کو سننے اور اسے جگانے کی ضرورت ہے۔ جب ہم اپنے دلوں میں احساس کو جگہ دے دیں گے تو یہ دنیا ایک بہتر جگہ بن جائے گی۔ انسانیت کو زندہ رکھنے کی ذمہ داری ہم سب پر ہے، اور اس کے لیے کسی بڑے کارنامے کی نہیں بلکہ ایک نرم دل اور خالص نیت کی ضرورت ہے۔

سید محمد علی

Recent Posts

ہمیں اولاد کو بتانا ہو گا والدین کی اہمیت اور خاندانی نظام کیا ہے،امیر عبدالقدیر اعوان

حضرت آدم ؑ کا وجود جب مٹی اور گارے کے درمیان تھا میں (حضرت محمدﷺ)…

55 minutes ago

راوت پولیس اہلکاروں پر شہری سے تشدد اور رقم ہتھیانے کا الزام

راولپنڈی (حماد چوہدری) راولپنڈی کے رہائشی شہری علی امیر خان نے ایس ایچ او تھانہ…

60 minutes ago

پنجاب میں عام بلدیاتی انتخابات مارچ 2026 میں کرانے کا فیصلہ

اسلام آباد (حذیفہ اشرف) — الیکشن کمیشن آف پاکستان نے صوبہ پنجاب میں عام بلدیاتی…

2 hours ago

جسٹس اعجاز اسحاق کیخلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس دائر

اسلام آباد (نمائندہ پنڈی پوسٹ)اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس سردار اعجاز اسحاق خان کے خلاف…

2 hours ago

گوجرخان صوبائی محتسب پنجاب کی عوامی آگاہی مہم اور کھلی کچہری کا انعقادگوجرخان

صوبائی محتسب پنجاب کے دفتر کی جانب سے عوامی آگاہی مہم اور کھلی کچہری کا…

3 hours ago