انسانوں کے درمیان اختلافِ رائے کا موجود ہونا ایک فطری سی بات ہے

جب کسی معاشرے کی اکثریت کے دل و دماغ خلوص و محبت سے عاری اور نفرت سے لبریز ہوں، جب لطیف احساسات اور مثبت جذبات کی جگہ جذباتیت نے لے رکھی ہو، جہاں وسیع النظری عنقادہو اور تنگ نظری عام رویہ بن جائے تو معاشرے کے بارے میں آپ

جب کسی معاشرے کی اکثریت کے دل و دماغ خلوص و محبت سے عاری اور نفرت سے لبریز ہوں، جب لطیف احساسات اور مثبت جذبات کی جگہ جذباتیت نے لے رکھی ہو، جہاں وسیع النظری عنقادہو اور تنگ نظری عام رویہ بن جائے تو معاشرے کے بارے میں آپ پورے یقین کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ وہ عدم رواداری کی شدید لپیٹ میں ہے۔انسانوں کے درمیان اختلافِ رائے کا موجود ہونا ایک فطری سی بات ہے مگر یہ اختلافِ رائے شعوری بیداری کی علامت تب ہی سمجھا جا سکتا ہے جب آپ دوسروں کے اختلافِ رائے کے حق کو بھی تسلیم کریں،انکے جذبات کا احساس کریں اور انکی پسند و نا پسند اور عزتِ نفس کے حوالے سے وسیع النظری کا مظاہرہ کریں۔ بد قسمتی سے آج ہمارا معاشرہ شدید نفسیاتی تناؤ اور عدم رواداری کا شکار ہے
ہم اپنی پروان چڑھنے والی نسل کی تربیت اس انداز سے کریں کہ اسے سچ بولنے،سچسننے اور ہر میدان میں سچ کا سامنا کرنے کی جراٗ ت ہو اور یہ شعوری جذبہ بھی کہ زندگی کچھ سمیٹنے ہی کا نام نہیں بلکہ عظیم زندگی وہ ہے جو دوسروں کے لیئے گذرے۔
پاک برودگارِ عالم! ہم تیری پناہ مانگتے ہیں تیری نعمت کے چھٹ جانے سے اور تیری عافیت کے پلٹ جانے سے اور تیری سزا کے اچانک وارد ہو جانے سے اور تیری ہر ناراضی اور ناخوشی سے، راجہ شاہ میر اختر

 

اپنا تبصرہ بھیجیں