کالج کی دوستی‘ہمیشہ ساتھ نبھائے

انتہا پسندی زہر قاتل

کسی بھی ملک کا ایک عام دیہاتی یا شہری کسی بھی مکتبہ فکر سے اس کا تعلق ہو اس پر کسی کو کوئی اعتراض نہیں ہونا چاہئے لیکن ایک بات پر اعتراض ازل سے ابد تک رہے گا کہ انسان کو شدت پسند نہیں ہونا چاہئے

بلکہ میں کہوں گا کہانتہا پسند آدمی کسی مذہب میں شامل نہیں کیا جا سکتا کیونکہ دنیا کا ہر مذہب انتہا پسندی سے گریزاں رہنے کی تلقین کرتا ہے اور اسلام کی تو کیا ہی بات ہے۔

صحابہ کرام یہودیوں کے کنوؤں پر اجرت پر کام کیا کرتے تھے اور ایک حدیث کا مفہوم ہے کہ” علم حاصل کرو خواہ اس کے لیے تمھیں چین بھی جانا پڑے” یہاں بھی انتہا پسندی سے رکنے کی تلقین واضع نظر آ رہی ہے۔

اب اگر ہم بات کریں ملک پاکستان کی سیاسی اور مذہبی جماعتوں کی تو ان میں بھی یہ عنصر نہیں ہونا چاہیئے۔جبکہ حقیقت یہ ہے کہ ہمارے ملک میں انتہا پسندی اپنے عروج پر ہے بڑی بڑی براددریاں اور شہروں میں بسنے والے بڑے بڑے گروہ اس لعنت میں بری طرح جکڑے ہوئے ہیں اگر ایک سیاسی پارٹی یا اس کا کوئی کارکن یا عہدیدار کوئی بھی اچھا کام کرے تو اس کی حوصلہ افزائی کرنے والے اس کی اپنی ہی پارٹی کے لوگ سامنے آئیں گے

جبکہ ہونا یہ چاہیے کہ ہماری ہمدردی نام نہاد پارٹی کے ساتھ نہ ہو بلکہ اس انسان کے ساتھ ہو جس نے اپنے کردار کے بل بوتے پر لوہا منوایا اس بات کا اعتراف ایک پڑھا لکھا انسان ہی کر سکتا ہے۔ایک عام آدمی سے لے کر کالم نگار تک ہر آدمی کسی نہ کسی پارٹی سے منسلک ہے صرف فرق یہ ہے

کہ پڑھے لکھے لوگ خاموشی کے ساتھ ووٹ ڈال کر اپنی حق رائے دہی کا اظہار کرتے ہیں جبکہ انتہا پسند چاہے وہ کتنے ہی مسائل میں کیو نہ جکڑے ہوئے ہوں ایسے ایسے غیر قانونی کاموں میں ملوث پائے جاتے ہیں کہ ان کا ٹھکانہ جیل ہونا چاہئے یاد رہے یہاں پڑھے لکھے افراد سے مراد با شعور لوگ ہیں۔

ہو سکتا ہے کہ بظاہر ان کے پاس کوئی ڈگری نہ ہو لیکن کئی ڈگری ہولڈرز سے بہتر ہوں۔لہذا ایک شخص پڑھا لکھا اس وقت ہوتا ہے جب اس کے ارد گرد بسنے والے اس کی شخصیت کی برملا تعریف کریں کیونکہ کہا جاتا ہے کہ زبانِ خلق کو نقارہ خدا سمجھو۔

لہذا ایک بات تو طے ہو گئی کہ ایک پڑھا لکھا اور با شعور آدمی ایک انسان کو ووٹ دیتا ہے نہ کہ کسی پارٹی کو آج اگر ہم نے اس مادر وطن کو بچانا ہے دہشت گردی اور دیگر بے شمار برائیوں کا قلع قمہ کرنا ہے

تو ہمیں ذاتی اختلافات کو بھول کر یک جان اور متحد ہونا ہو گا الحمداللہ آج سے پہلے کوئی مشکل گھڑی ایسی نہیں گزری کہ اس قوم کا بچہ بچہ متحد نہ ہوا ہو لیکن کیا ہی بات ہو کہ اس قوم کا اتحاد وقت سے پہلے سامنے آجائے کیونکہ جب دیر ہو جاتی ہے تو ملک تباہی کی طرف چل پڑتا ہے لیکن کہا جاتا ہے کہ دیر آئید درست آئید۔

اللہ نے ہر کام کا ایک وقت مقرر کر رکھا ہے اس کی مرضی کے بغیر وقت سے پہلے یا بعد میں کوئی کام بھی ممکن نہیں ملک پاکستان کی سا لمیت کی دوسری شرط یہ ہے کہ ہمیں اسلامی اصولوں کو اپنانا ہو گا بغض اور انا پرستی کو ختم کرنا ہو گا،

حذب اختلاف یا ہاری ہوئی پارٹی کو حکومت کے مثبت اقدامات کو سراہنا ہو گا ورنہ اس ملک کو تباہ و برباد ہوتا ہوا دیکھنا ہو گا ہر پاکستانی ملک پاکستان کی ترقی و سا لمیت چاہتا ہے

حکومتوں کے ایوارڈز اور تمغے صرف اپنے اراکین کے لیے ہی کیوں؟یہ ہر اس روشن ستارے کے حصے میں آنا چاہیے جس نے غیر معمولی محنت اور کوشش سے اپنا مقام بنایا جب ایک حکومت اپنی مخالف پارٹی کے اراکین کے مثبت اقدامات اور خوبیوں کا اعتراف کرے گی تو تمام اقوام عالم کے با شعور اور پڑھے لکھے لوگ اس پارٹی کے حق میں ہونگے

اور اصل کامیابی اسی کا نام ہے۔کنبہ پروری اور علاقہ پروری کو ختم کرنا ہو گا پارٹی کی پہچان بننے کی بجائے پاکستان کی پہچان بننا ہو گا اس کے لیے بڑی بڑی پارٹیوں کے لیڈران کو ہوش کے ناخن لینے ہونگے اور ان کو یہ ثابت کرنا ہو گا کہ وہ انتہا پسند نہیں بلکہ پڑھے لکھے

اور سینے میں دل رکھتے ہیں ہمارے یہ بڑے تحمل مزاج اور انصاف مہیا کرنے والے ثابت ہونگے تو ہم ھوٹے(عوام)یقینا ان کے نقش قدم پر چل کر ملک پاکستان کی نئی نسل کے لیے مشعل راہ ثابت ہونگے۔

دن دہاڑے ایک اکیلا شخص اپنی بیوی اور دو بچوں کو ڈھال بنا کر اسلام آباد کے ریڈ زون میں داخل ہوا اور رات گئے تک اسلام آباد کی انتظامیہ کے ساتھ آنکھ مچولی کھیلتا رہا دنیا بھر کے ٹی وی چینل اس کی تصویر کشی اپنے اپنے انداز میں کرتے رہے

اور اس ملک کا وہ مذاق اڑایا گیا جس کی مثال نہیں ملتی،جتنے منہ اتنی باتیں کوئی کہتا کہ اتنے اسلحے کے ساتھ وہ اسلام آباد میں داخل ہوا تو ہوا کیسے یہ سب بیکار باتیں ہیں آئے دن کئی

ایسے مجرم ہر حکومت کے دور میں ایسے ہی اسلام آباد میں داخل ہوتے آئے ہیں اور یہ کوئی نئی بات نہیں تھی اصل مسئلہ اس انتہا پسند کا اسلام کے نام پر ڈرامہ کرنے کا تھا جو بار بار اسلام نافذ کرنے کا نعرہ لگا رہا تھا وہ یہ بھی بھول گیا کہ اسلام کا محافظ بننے کے لیے پہل اسی کو کرنا ہو گی،اپنی بیوی کو ہزاروں نا محرم لوگوں کے درمیان بار بار ڈاکیے کی طرح بھیج رہا تھا کیا یہ اسلام ہے

اس شخص کے اس برے فعل کی وجہ سے ہم پر بھی یہ بھید کھلا کہ اسلام کا پرچار کرنے والے کو عصر،مغرب اور عشاء کی نماز پڑھنے کی توفیق تک نہ ہوئی بار بار سیگریٹ پیتا رہا کیا یہی اسلام ہے جس کو وہ نافذ کروانا چاہتا تھا؟اگر پولیس فائر کھول دیتی تو اس سنگدل انسان کے ساتھ معصوم بچوں کی جانیں ضائع ہونے کا بھی خطرہ تھا

لہذا پولیس نے جو کچھ بھی کیا یہ اس کی مجبوری تھی ورنہ اس کو ڈھیر کرنا دو لمحوں کی بات تھی اس کے علاوہ وزیر داخلہ چوہدری نثار صاحب نے بار بار تنبیہ کی کہ اس شخص کی بیوی اور معصوم بچوں کی زندگیاں ہمیں عزیز ہیں ان کو کوئی نقصان نہیں ہونا چاہئے ب

ہرحال اس میں کوئی شک نہیں کہ اس نے پورے پاکستان کو مصیبت میں ڈالے رکھاوہ ایک وقت میں سینکڑوں لوگوں کو نقصان پہنچا سکتا تھا یہ کہنا کہ وہ ذہنی مریض ہے یہ بھی غلط ہے اگر وہ ذہنی مریض ہوتا تو ایک آدھ گھنٹے میں اپنے انجام کو پہنچ جاتا وہ تو بہت سوچ سمجھ کر اپنی حرکات و سکنات کا مظاہرہ کر رہا تھا جہاں پر پولیس بہت ہی مجبور نظر آ رہی تھی وہاں کوئی سینہ تان کر سامنے آنے کی جراء ت بھی نہی کر رہا تھا ساری دنیا نے یہ حقیقت دیکھی کہ اگر سامنے نہ آنا

پولیس کی مجبوری تھی تو زمرد خان کو کس نے سامنے آنے کی اجازت دی؟پولیس کو چاہئے تھا کی زبردستی زمرد خان کو روک لیتی کیونکہ کلاشنکوف کے سامنے ایک نہتے شخص کا نشے میں دھت شخص کے سامنے جانا سرا سر موت کو گلے لگانے کے مترادف تھا، لیکن چونکہ زمرد خان نے یہ طے کر لیا تھا

کہ اس سے بڑی شرم ناک بات کوئی اور نہیں ہو سکتی کہ پوری قوم ایک شخص کے سامنے یرغمال بنی ہوئی ہے اور دنیا تماشا دیکھ رہی ہے بقول زمرد خان” میں نے یہ طے کر لیا تھا

کہ وطن عزیز کے لیے آج اگر جان کا نذرانہ بھی پیش کرنا پڑا تو پیچھے نہیں ہٹوں گا” اور پھر ساری دنیا نے دیکھا کہ اس مرد قلندر نے موت کو گلے سے لگانے کی کوشش کی سکندر ایمان کی طاقت کی تاب نہ لا سکا زمرد خان نے اسلحہ سے لیس شخص کو دبوچنے کی کوشش کی تو وہ حواس باختہ ہو گیا

اور منہ کے بل گرا جس کے بعد اسے زندہ حالت میں گرفتار کر لیا گیا زمرد خان واقع قوم کے ہیرو ثابت ہوئے۔اس حقیقت سے کوئی جماعت کوئی پارٹی انکار نہیں کر سکتی زمرد خان کا پیغام اس قوم اور نوجوان نسل کے نام کچھ یوں بیان کیا جائے تو بے جا نہ ہو گا

خون ِدل دے کے نکھاریں گے رخِ رو برگِ گلاب
ہم نے گلشن کے تحفظ کی قسم کھائی ہے

اپنا تبصرہ بھیجیں