انتقام کے نام پر احتساب ملکی ترقی کیلئے مضر ہے

ضیاءالرحمن ضیا/بالآخر سپریم کورٹ نے بھی نیب سے بیزاری کا اظہار کرہی دیا ہے ۔ لاکھڑا پاور پلانٹ کی تعمیر میں بے ضابطگیوں کے کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس نے کہا کہ ریفرنس دائر کرنے کے بعد نیب اپنی غلطیاں سدھارنے کی کوشش کرتا ہے اور غلطیوں سے بھرا ریفرنس دائر کر دیا جاتا ہے ۔ یہی ایسی چیزیں ہیں جو نیب کی بدنامی کا باعث بن رہی ہیں اور نیب اپنے اہداف حاصل کرنے میں بری طرح ناکام ہے ۔ نیب کا ادارہ جو کہ احتساب کے نام پر وجود میں آیا تھا لیکن یہ احتساب سے زیادہ انتشار پھیلانے کا باعث بن رہا ہے ۔ اس سے قبل بھی نیب نے کوئی خاص اہداف حاصل نہیں کیے لیکن اب کی بار تو یہ بالکل ہی بے کار ہو کر رہ گیا ہے ۔ موجودہ حکومت اس ادارے کو سیاسی حریفوںکے خلاف استعمال کر رہی ہے اوریہ کام کھل کر سر انجام دے رہی ہے ۔ تمام اپوزیشن جماعتوں کو دبانے کے لیے حکومت نے اس ادارے کو متحرک کر رکھا ہے اور پی ٹی آئی کے اقتدار سنبھالتے ہی اپورزیشن جماعتوں کے رہنماو¿ں کی پکڑ دھکڑ شروع کر دی گئی ۔ اب یہ اپوزیشن رہنماو¿ں کی گرفتاریوں کے لیے استعمال ہو رہا ہے جس کی وجہ سے اپوزیشن جماعتیں کھل کر حکومت کی مخالفت کرنے سے گریزاںہیں ۔ لہٰذا حکومت جو قانون چاہے پاس کرا لیتی ہے اپوزیشن جماعتیں منہ تکتی رہ جاتی ہیں ۔ اس سارے کھیل کا نقصان یہ ہو رہا ہے کہ ملک میں انتشار کی کیفیت ہے کسی بھی معاملے میں حکومت اور اپوزیشن ایک پیج پر نہیں آتے ۔ ملک کو چلانے کے لیے اپوزیشن کا اہم ترین کردار ہوتا ہے مگر شرط یہ ہے کہ وہ کوئی کردار اداکرے۔ اپوزیشن جماعتیں حکومت کی غلطیوں کی نشاندہی کرتی ہیں اور حکومت کو تنبیہ کرتی ہیں جس سے حکومت کوئی غلط قانون پاس نہیں کر سکتی ، اس کے علاوہ اپوزیشن اہم ترین معاملات کے فیصلے کرنے میں حکومت کو مشورہ دیتی ہے جس سے حکومت کے لیے آسانی پیدا ہوتی ہے اور باہم مشورہ سے چلنے سے ملک میں انتشار کی کیفیت ختم ہوتی ہے ۔ لیکن یہ حکومت اپوزیشن جماعتوںکو نیب کے ذریعے ڈرا دھمکا کر خود ہی سب کچھ کرنا چاہتی ہے ۔ وزیروں اور مشیروں کی ایک فوج بھرتی کر رکھی ہے جو متنازعہ بیانات دینے میں ماہر ہیں کبھی رو¿یت ہلال کے معاملے میں عوام کو الجھائے رکھتے ہیں اور کبھی پائلٹس کے لائسنسوں کے بارے میں بیانات دے کر ملک کو بدنام کرتے ہیں اور وزیر اعظم صاحب خاموش تماشائی بنے رہتے ہیں ۔ کبھی کبھار زیادہ دباو¿ ہو ا توایک آدھ بیان داغ دیا اور بس ۔ اس نام نہاد احتساب کی وجہ سے ملک میں افراتفری کا عالم ہے کاروبار زندگی بری طرح متاثر ہے ۔ ہر شعبہ تنزلی کی طرف جا رہا ہے ۔ سرمایہ کاروں اور کاروباری طبقات کو ایف بی آر اور نیب سے خائف کر رکھا ہے ۔ ہر روز نئی نئی پابندیوں اور شرائط کا سامنا کرنا پڑتا ہے جس کی وجہ سے سرمایہ کاری نہیں ہو رہی اور سرمایہ کاری نہ ہونے کی وجہ سے صنعتوں کو شدید نقصان پہنچ رہا ہے اور بیروزگاری میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے ۔ عوام میں شدید بے چینی ہے ، کسی کے سامنے کاروبار کا نام لیں تو جواب ملتا ہے کہ کارو بار کے پھلنے پھولنے کے مواقع نہیں ہیں پہلے ہی کاروباری افراد رو رہے ہیں ، ہم کاروبار شروع کر دیں اور وہ چلے ہی نہ ، تو پھر کیا کریں گے؟ یہ سوچ کر لوگ ملازمتوں کی طرف لپکتے ہیں لیکن ملازمتیں بھی کہاں ملتی ہیں؟ اس صورتحال میں غربت کی شرح میں اضافہ ہو رہا ہے ۔ اس احتساب کو انتقام کا نام دیا جاتا ہے لیکن یہ بات غلط ہے کیونکہ انتقام تو اس صورت میں ہوتا جب ان پر زیادتیاں ہوئی ہوتیں یعنی انتقام تب ہوتا ہے کہ پہلے ان پر زیادتیاں ہوئیں اب وہ اپنی باری آنے پر دوسروں پر زیادتیاں کر کے اپنا دل ٹھنڈا کر رہے ہیں مگر ایسا ہر گز نہیں ہے بلکہ پہلے بھی یہی حکومتوں کو ستاتے رہے کبھی دھرنے دیتے اور کبھی ان کے خلاف الزامات عائد کر کے تنگ کرتے بلکہ وزیراعظم نوازشریف کو انہی کی کوشش کی وجہ سے ہٹایا گیا لیکن حکومت ان کے خلاف کچھ نہ کر سکی ۔ تو جب گزشتہ ادوار میں آج کی اپوزیشن جماعتیں حکومت میں تھیں تب بھی یہی انہیں ستاتے تھے اور آج جب یہ حکومت میں ہیں اور وہ اپوزیشن میں تب بھی یہی انہیں ستاتے ہیں تو پھر انتقام کس بات کا؟ یہ انتقام نہیں بس ناتجربہ کاری ، نااہلی اور غیر سنجیدگی کی ایک طویل داستان ہے ۔ گزشتہ حکومت پر اپنی نااہلیوں کا ملبہ ڈالنے کا فن جانتے ہیں، دوسروں کو چور چور کہنے والوں کے اپنے دور حکومت میں بننے والی آڈٹ رپورٹ میں 270ارب روپے کی بے ضابطگیوں کا انکشاف ہوا ہے ، یہاں تو نیب متحرک نہیںہوا کیونکہ یہ نیب کو دوسروں کے پیچھے لگانے والوں کے خلاف ہو جاتا۔ سپریم کورٹ کے حالیہ تحفظات سے قبل بھی کئی ججز اس ادارے کے خلاف بیانات دے چکے ہیں ۔ اس کے علاوہ نیب کے پلی بارگین کے اختیارات کے خلاف بھی مختلف حلقوں کی طرف سے آوازیں اٹھیں کے کئی ارب روپے ہڑپ کرنے والے مجرم چند کروڑ دے کر چھوٹ جاتے ہیں باقی کے اربوں روپے کیوں وصول نہیں کیے جاتے ؟ وہ بھی تو قومی خزانے سے ہی لوٹے ہوتے ہیں ۔ اب تو نیب لوٹی ہوئی رقم کی وصولی میں بالکل ناکام ہو گیا ہے ۔ اپوزیشن جماعتوں کے جتنے بھی اراکین کو گرفتار کیا ان میں سے کسی سے بھی وصولی نہ ہو سکی بلکہ وصولی کیا کرتے ان پر لگائے جانے والے الزامات ہی ثابت نہیں کر سکے ۔ بس گرفتار کر کے کچھ مہینے رکھ کر چھوڑ دیتے ہیں جس سے نفرتوں کے بادل مزید گہرے ہوتے جا رہے ہیں اور یہ بات ملکی ترقی کے لیے نہایت مضر ہے ۔

اپنا تبصرہ بھیجیں