147

انتظامیہ کی سختی،سیاحوں کی مری کے داخلی راستوں سے واپسی بازار اور سڑکیں سنسان

مری(امتیاز الحق،نمائندہ پنڈی پوسٹ)ملکہ کوہسار مری میں ویک انڈ کے موقع پر جہاں کندھے سے کندھا ٹکراتا تھا اور یہاں تل رکھنے کی جگہ نہیں ہوتی تھی وہاں ہفتہ کے روز لاکھوں سیاحوں کے بجائے یہ تعداد بمشکل سینکڑوں میں تھی،حالانکہ اس موقع پر خوبصورت برفباری کے مناظر اپنے عروج پر تھے اور آسمان سے گرتے برف سے سفید گالے انتہائی مایوسی کے عالم میں سیاحوں کی آمد کے منتظر تھے مگر انہیں یہ معلوم نہیں تھا کہ وہ جن کا نتظار کر رہے ہیں انہیں مری میں داخل ہونے والے راستوں پر جبری طور پر روکا جا رہا ہے جہاں سے ان سیاحوں کی آٹھ ہزار گاڑیوں کو گزرنے کی اجازت تھی وہاں سے رات گئے تک صرف 368گاڑیوں کو مری کی جانب داخل ہونے کی اجازت دی گئی جبکہ داخلی راستوں پر مری کی جانب اّنے والی ہزاروں گاڑیوں کو مامعقول پابندیوں کی بناء پر ڈال ہونے سے روکے رکھا گیا۔اس دوران سترہ میل اور ائسپریس ٹول پلازے پر سیاحوں کی ہزاروں کو واپس کر دیا گیا۔اس موقع پر سیاحوں میں شدید اضطراب اور احتجاج کی لہر تو پیدا ہوی مگر وہ متعلقہ ادارون کے آگے بے بس نظر آئے۔انہوں نے الزام لگایا کہ مری میں داخل ہونے والی چند سو گاڑیوں میں سے اکثر کو محض”خصوصی“لوگوں کی ایماء پر چھوڑا گیا۔اس طرح مری انتظامیہ کی شاندار کارکردگی کے نتیجے میں تمام سڑکوں پر سے بروقت برف صاف کیے جانے کے باوجود وہ سڑکیں تمام دن سائیں سائیں کرتی رہیں۔ مری کا رخ کرنے والے سیاحوں میں سے ایک بڑی تعداد جو دور داراز ے علاقوں طویل سفر کے بعد شام پانچ بجے ”مری اسلام آباد کے بارڈر“پر پہنچی انہیں ضلعئی انتظامیہ کی جانب سے شام پانچ بجے سے صبح بجے تک سیاحوں کی آمد پر پابندی کے نتیجے میں واپسی کا رخ اختیار کرتے دیکھ گیا۔وہاں اپنی فیملی کے ساتھ موجود سیاحوں کا کہنا تھا کہ وہ آئندہ کبھی بھی مری کا رح نہیں کریں گے۔ اس دواران مری جانے والی سڑکوں پر ہزاروں گاڑیون میں سوار خواتین سمیت بچوں کو تمام تر لوازمات کے باوجود واپس کیے جانے پر شدید رد عمل دیکھنے میں آیا جبکہ مری کے کاروباری حلقوں نے اس تمام تر عمل کو مری کے خلاف کسی سازش کا حصہ قرار دیا اور کہا سانحہ مری کے اصل محرکات کے بجائے حکومت پنجاب نے شارٹ کٹ استعمال کیا ہے۔

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں