پی ڈی ایم کی حکومت جب سے اقتدار میں آئی تو اسکو بحران در بحران کا سامنا کرنا پڑتا رہا ایک بحران سے ابھی نکلتے نہیں تو سامنے کسی دوسری چیز کے غائب ہونے مہنگا ہونے کی خبر آجاتی مگر گزشتہ چار سالوں میں جب سے کرونا وائرس کی وبا نے اپنے قدم پاکستان کی سرزمین پر رکھے تو اسکے بعد تو یوں لگتا کہ جیسے وہ اپنے ساتھ مہنگائی کے نہ تھمنے والے طوفان کو لے کر اس سرزمین میں داخل ہوئی ہے اور یہ طوفان ایسا طوفان کہ ہر گزرتے دن کے ساتھ ساتھ اسکی رفتار کم ہونے کے بجائے زور پکڑتی جارہی ہے اور اسی مہنگائی کے نہ تھمنے والا طوفان نے تحریک انصاف کی حکومت کو جہاں بہت سے دیگر عوامل نے ڈبویا تو وہیں پر یہ خودساختہ مہنگائی انکو لے ڈوبی مگر اسکے بعد جو لوگ مہنگائی پر قابو پانے کا نعرہ لگا کر آئے تھے اس نے رہی سہی کسر بھی نکال دی ہے غریب کے منہ سے دو وقت کا نوالہ بھی چھین لیا گیا ہے اب رمضان المبارک کا بابرکت ماہ آیا ہے تو اس ماہ میں عوام کو ریلیف دینے کے لیے ماضی میں جو سستے رمضان بازار لگائے جاتے تھے اس سال وہ بھی ختم کر دیے گئے ہیں اور دوسری جانب حکومت نے آٹے پر عوام کو سبسڈی دی کہ عوام کو مفٹ آٹا فراہم کیا جائے گا مگر یہ آٹا تو عوام کو ملنے سے رہا کیونکہ مفت آٹے کے لیے مختلف جگہوں پر بنے سٹال پر سینکڑوں افراد کی لمبی لمبی لائنیں لگی ہوئی ہیں اور لوگ روزے کی حالت میں ذلیل و خوار ہو رہے ہیں کئی جگہوں پر تو کئی افراد ان لائنوں میں کھڑے ہو ہو کر زندگی کی بازی ہار گئے لیکن دوسری طرف جو دس کلو آٹے کا تھیلا 648 روپے کا مارکیٹ مل رہا تھا اب وہی آٹا 1185 کا مل رہا ہے یعنی پہلے ہی مہنگائی کی چکی میں پسی ہوئی عوام کو مذید پس کے رکھ دیا گیا ہے اور اوپر سے غریب عوام کو اس مافیاء کے رحم وکرم پر چھوڑ دیا گیا ہے اور اس ساری صورتحال میں انتظامیہ صرف فوٹو سیشن کی حد تک محدود ہے جو آئے روز کوئی افسر بازار یا مارکیٹ کا وزٹ کرتے دکھائی دیتا اور فوٹو شوٹ کرواتا مگر اس سے عوام کو کوئی ریلیف نہیں مل رہا رمضان کی آمد کے ساتھ ہی گھریلوں اشیاء خوردونوش کی قیمتوں کو تو جیسے پر لگ گئے ہیں کل تک جو چیز سو روپے کی میسر تھی آج وہ تین سے چار گنا مہنگی قیمت پر مل رہی ہے اس ساری صورتحال میں دوکانداروں نے بھی موقع کو غنیمت جانتے ہوئے قیمتوں میں خودساختہ اضافہ کر کے گھی،دالیں، چینی سمیت ہر چیز مہنگے داموں فروخت کر رہے ہیں عوام اتنی مہنگائی کو دیکھ کر سر پکڑ کے بیٹھ گئی ہے اب تو حکومت اور انتظامیہ کی ناقص حکمت عملی کے سبب جیسے اشیاء ضروریاء کی چیزوں کے بحران نے مستقل طور پر اپنے پنجے گھاڑ لیے ہیں مارکیٹ میں آٹا، گھی، چینی، دالیں غرض کے روزہ مرہ استعمال کی ہر شے غریب کی پہنچ سے دور ہوگئی ہے حالانکہ پاکستان ایک زرعی ملک ہے اس کے باوجود یہاں آٹا، چینی،دالیں وافر مقدار میں اور سستی ملنی چاہیے لیکن یہاں سب الٹا ہورہا ہے پاکستان تحریک انصاف حکومت نے اپنے قیام کے کچھ عرصے بعد ایک احسن اقدام اٹھایا تھا جو تعریف کے قابل تھا مگر وہ بھی صرف کاغذوں کی حد تک رہا اگر اس پر ہی عملدرآمد کروایا جاتا یا اب کروایا جائے تو مہنگائی پر کافی حد تک قابو رکھا جاسکتا ہے وہ اقدام تھا علاقائی سطح پرپرائس کنٹرول کمیٹیوں کا قیام یعنی ہر علاقے کی اپنی پرائس کنٹرول کمیٹی جو اس علاقے کی سطح پر قیمتوں کوکنٹرول کرے گی جس سے یقینی طور پر پرائس پر قابو رکھا جاسکتا ہے کیونکہ ہرکمیٹی اپنے علاقے کی پرائس کو باآسانی کنٹرول کرسکتی ہے مگر اس مہنگائی کی لہر اور خودساختہ دوکانداروں کے بڑھتے ریٹ جوں کے توں رہے اور یہ کمیٹیاں بھی بس سیاست کی نظر ہوگئی اور اوپر سے سونے پر سہاگہ جیسا کے پہلے ذکر کیا کہ انتظامیہ نے تو چپ کا روزہ رکھ لیا ہے اور عوام کو مکمل طور پر مہنگائی کے بوجھ تلے روندھ کر اس کے ہی رحم و کرم پر چھوڑ دیا ہے اور دن بدن بڑھتی مہنگائی کو دیکھ کر یہی لگتا کہ انتظامیہ مکمل طور پر اس مہنگائی پر قابو پانے میں ناکام ہوچکی ہے اور یہ صرف فوٹو سیشن کی حد تک محدود ہے انتظامیہ کو چاہیے کہ وہ مہنگائی کے بوجھ تلے دبی عوام پر ترس کھائیں اور اس سارے معاملے میں ضلعی انتظامیہ اورپرائس کنٹرول کمیٹیاں جو خاموش تماشائی کا کردار ادا کر رہی ہے انکو فعال بنائیں تاکہ کم سے کم جو خود ساختہ مہنگائی دوکانداروں اور ہول سیل مارکیٹ سمیت سستے رمضان بازاروں میں کی گئی ہے اس پر کسی طرح سے قابو پایا جاسکے تاکہ لوگوں کو ریلیف مل سکے اور روزہ مرہ استعمال کی اشیاء کچھ سستے داموں میسر آسکیں۔
178