انتخابی مہم سرد مہری کا شکار

ملک میں عام انتخابات کے انعقاد کے اعلان اور سیاسی پارٹیوں کیجانب سے امیدواروں میں پارٹی ٹکٹوں کی تقسیم کا مرحلہ مکمل ہوچکا ہے اور پولنگ کی تاریخ میں اب گنے چنے دن باقی ہیں تاہم فی الحال ماضی کے برعکس سیاسی پارٹیوں کیجانب سے انتخابی مہم سرد مہری کا شکار ہے سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں تحریک انصاف کا مقبول انتخابی نشان بلہ ان سے چھین لیا گیا ہے اور پچ بھی اکھاڑ دی گئی ہے 9 مئی تاریخ کا سیاہ دن ہے جب سیاسی بلوائیوں نے شہداء کی یادگاروں کو بھی نہ چھوڑا افواج پاکستان کی حساس تنصیبات لاہور کور کمانڈر ہاؤس‘جی ایچ کیو پنجاب ریجمنٹل سینٹر مردان پر حملہ پاکستان ایئر فورس بیس میانوالی کے عقب میں نصب تاریخی جہاز کو بھی جلا کر وطن دشمنی کا ثبوت دیا جسکی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے انتخابی حلقہ این اے 51 پی پی 7 میں قومی اسمبلی کی نشست پر میجر لطاسب ستی جبکہ صوبائی اسمبلی کی نشست پر ریٹائرڈ کرنل شبیر اعوان تحریک انصاف کے امیدوار ہیں جو بظاہر آزادحیثیت سے انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں شاہد خاقان عباسی کی ن لیگی قیادت کے فیصلوں سے ان بن اور انتخابات میں عدم دلچسپی کے باعث لیگی قیادت نے اس بار سابق صوبائی وزیر و سینئر رہنما پاکستان مسلم لیگ ن راجہ اشفاق سرور کے صاحبزادے راجہ اُسامہ سرور کو این اے 51 سے اپنا امیدوار نامزد کیا ہے جبکہ صوبائی اسمبلی کی نشست پر راجہ صغیر احمد انکے پینل حلیف ہیں پیپلزپارٹی کے نامزد امیدواربرائے قومی اسمبلیNA-51 مہرین انور راجہ نے بھی اپنے آبائی گاؤں سے اپنی انتخابی مہم کا آغاز کر دیا ہے مسلم لیگ ن کیجانب سے سابق ایم پی اے محمود شوکت بھٹی نے مسلم لیگ ن کے ٹکٹ کیلئے کاغذات نامزدگی جمع کرا رکھے تھے

تاہم وہ پارٹی ٹکٹ سے محروم رہے،محمود شوکت بھٹی 80 کی دہائی کے اختتامی سال 1989میں سیاست میں نمودار ہوئے اور اسی سال پہلی مرتبہ ممبر ضلع کونسل منتخب ہوئے 1990میں پاکستان مسلم لیگ ن کے ٹکٹ پر ممبر صوبائی اسمبلی جبکہ 1992میں وہ دوسری مرتبہ مسلم لیگ ن کے ٹکٹ پر ممبر پنجاب اسمبلی منتخب ہوئے شاید وہ اس دور کے ان چند خوش قسمت سیاست دانوں میں شامل تھے جنہوں نے سیاسی میدان میں قدم رکھتے ہی انتہائی قلیل مدت میں عوامی حمایت سے ملکی سیاست میں اپنا خاص مقام اور جگہ بنا لی تھی تاہم انکا یہ سیاسی کیریئر انتہائی مختصر ثابت ہوا اب وہ پارٹی ٹکٹ نہ ملنے کی بنا پر بطور آزاد امیدوار کے انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں چونکہ انکا تعلق تحصیل کلرسیداں کی یونین کونسل بشندوٹ سے ہے تو کلرسیداں کی عوام کی یہ ہمیشہ سے خواہش رہی ہے کہ قومی اسمبلی کی نشست پر امیدوار کلرسیداں سے ہونا چاہیئے تو اسی بنا پر محمود شوکت بھٹی کا آزاد حیثیت سے انتخابات میں حصہ لینا کلرسیداں کی عوام کی امنگوں کی عکاسی کرتا ہے

تو لہذا انہیں عوامی ہمدردیاں اور پذیرائی ملنے کی توقع کی جا رہی ہے گو مسلم لیگ ن کے پارٹی ٹکٹ ہولڈر امیدوار پارٹی کے نظریاتی ووٹرز کی نظر میں ایک منفرد مرکزی حیثیت کے حامل ہوتے ہیں مگر چونکہ مسلم لیگ ن کی جانب سے جاری ٹکٹ ہولڈر امیدواروں کا تعلق کہوٹہ و کوٹلی ستیاں سے ہے جبکہ محمود شوکت بھٹی تحصیل کلرسیداں سے ہیں اور دوسرا اہم نقطہ مختلف سیاسی اکابرین و برادریوں سے انکے دیرینہ تعلقات مضبوط بنیادوں پر استوار ہیں اور سیاسی حالات بھی انکے حق میں کافی سازگار ہیں گزشتہ ہفتے محمود شوکت بھٹی نے کلرسیداں کے نواحی علاقے بمہ گنگال میں انتخابی مہم کے دوران اظہار خیال کرتے ہوئے مسلم لیگ ن کے پارلیمانی بورڈ پر عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ اس بات کے عینی شاہد ہیں کہ مسلم لیگ ن نے دس دس کروڑ وصول کرکے ٹکٹ جاری کئے ہیں دوسری طرف پی پی 7 میں راجہ ندیم بھی انکے سیاسی حلیف ہے مسلم لیگ ن کے ٹکٹ ہولڈر و امیدوار برائے صوبائی اسمبلی راجہ صغیر احمد کو مسلم لیگ ن کی صفوں میں اپنے حریفوں کے مدمقابل ایک مضبوط امیدوار کے طور پر دیکھا جا رہا ہے جبکہ سابق ناظم ملک سہیل اشرف بھی تحریک انصاف کو خیر آباد کہہ کر مسلم لیگ ن میں شامل ہو گئے ہیں اور انہوں نے راجہ صغیر کی حمایت کا اعلان بھی کیا ہے

لہذا انکی سپورٹ بھی مسلم لیگی امیدواروں کے لیے فائدہ مند ہو سکتی ہے دائیں بازو کی جماعت تحریک لبیک پاکستان کے امیدوار کرنل ر وسیم احمد جنجوعہ اور امیدوار برائے صوبائی اسمبلی جاوید اختر عباسی بھی این اے 51 پی پی 7 کے سیاسی دنگل میں سرگرم ہیں تحریک لبیک پاکستان کا ہر یونین کونسل میں معقول مذہبی ووٹ بینک موجود ہے جبکہ انکے حامی پارٹی عہدیداران اپنے مخالفین کے چاروں شانے چت کرنے پر تلے ہوئے ہیں گو آمدہ انتخابات میں حصہ لینے کی غرض سے تمام امیدواروں نے اپنے سیاسی حریفوں کو شکست دینے کیلئے اپنی سیاسی حکمت عملی و مقابلے کی کمر کس لی ہے تاہم اس وقت ملک بھر میں الیکشن مہم کے حوالے سے سیاسی سرگرمیوں سست روی کا شکار ہیں حالانکہ پولنگ کی تاریخ میں اب صرف چند دِن ہی باقی رہ گئے ہیں بعض مبصرین کے خیال میں انتخابات کے انعقاد کے حوالے سے اب بھی غیر یقینی کی صورتحال برقرار ہے تو ایسے حالات میں انتخابات التواء کا شکار بھی ہو سکتے ہیں اگر ایسا ہو گیا تو پھر دوبارہ سیاسی بساط بچھانے اور منزل تک پہنچنے کا راستہ بڑا طویل ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں