انتخابات‘ الیکشن کمیشن اور مستقبل

1947 سے 1958 ء تک پاکستان میں ایک مرتبہ بھی عام انتخابات منعقد نہیں کیے جاسکے اسمبلی کے اراکین کا انتخاب مختلف انداز سے ہوتا رہا پہلی قانون ساز اسمبلی کے اراکین کی تعداد 69 تھی ان کا انتخاب 1945/46 کے انتخابات کے نتیجے میں عمل میں آیا تھا اس طرح مسلم لیگ کے تیس اراکین اور وہ دیگر اراکین جو کسی دوسری جماعت کے ٹکٹ پر منتخب ہوئے تھے اور اب وہ پاکستانی شہری تھے چاہے انہوں نے پاکستان بننے کی حمایت کی یا نہیں وہ بھی اسمبلی کے ممبر تھے ان سب کو ملا کر اراکین اسمبلی کی تعداد کو پورا کیا گیا ان میں سے 14 غیرمسلم تھے پاکستان کی دستور ساز اسمبلی میں مشرقی بنگال کے 44، پنجاب کے 17، سندھ کے 4، سرحد کے 3 اور بلوچستان کا ایک نمائندہ شامل تھا لیکن یہ اصل نمائندے نہیں تھے کیونکہ قائداعظمؒ، ممبئی سے جیتے تھے لیکن انھیں پنجاب کے اراکین میں شامل کیا گیا جبکہ لیاقت علی خان، یو پی سے جیتے تھے اور انھیں بنگال کی فہرست میں شامل کیا تھا برحال مارچ 1951 میں پنجاب کے پہلے صوبائی انتخابات منعقد ہوئے ان انتخابات میں ٹوٹل ووٹروں کی تعداد نوے لاکھ تھی اور ان انتخابات میں ٹرن آؤٹ انتہائی کم رہا تھا لاہور جیسے بڑے شہر کا ٹرن آؤٹ 30 فیصد تھا 189 نشستوں پر براہ راست الیکشن ہوئے آٹھ امیدوار بلامقابلہ منتخب ہوگے تھے ان انتخابات کے نتیجے میں پاکستان مسلم لیگ کو بھاری اکثریت حاصل ہوئی تھی 197 کے ایوان میں 153نشستوں پر کامیابی حاصل ہوئی لیکن یہ پہلے الیکشن ہی تنازعہ کا شکار ہو گئے کیونکہ تقسیم ہندوستان کے وقت پنجاب میں یونینسٹ پارٹی کی حکومت تھی اتنی مضبوط صوبائی حکومت کے خلاف مسلم لیگ کی یہ بھاری اکثریت انتہائی متنازعہ ٹھہری دسمبر 1951 میں صوبہ سرحد میں صوبائی انتخابات کا انعقاد کیا گیا اور مئی 1953ء میں صوبہ سندھ کے صوبائی انتخابات کا انعقاد ہوا ان دونوں انتخابات میں پاکستان کی انتخابی تاریخ کے عین مطابق ہارنے والے امیدواروں نے انتخابات کے نتائج ماننے سے انکار کر دیا اور مبینہ بدعنوانی اور دھاندلی کے الزامات لگائے 8 مارچ 1954ء کو مشرقی پاکستان میں بھی صوبائی انتخابات ہوئے ان انتخابات کے نتائج نے مشرقی پاکستان کے مستقبل کی واضح تصویر کشی کر دی 309 کے ایوان میں حکمران جماعت مسلم لیگ کو صرف 10 سیٹیں مل سکیں تھیں جس سے مشرقی پاکستان میں پاکستان مسلم لیگ کا صفایا ہو گیا تھا ستم بالائے ستم کہ ان انتخابات کے نتیجے میں بننے والی مولوی فضل الحق (یہ وہی مولوی فضل الحق ہیں جنہوں نے 23 مارچ 1940 کو قرارداد پاکستان پیش کی تھی اور آج غدار ٹھہرے)کی منتخب حکومت کو صرف دو ماہ بعد ہی 30 مئی 1954 کو گورنرجنرل ملک غلام محمد نے غداری کے الزامات لگا کر برطرف کر کے گورنر راج نافذ کردیا تھا اور میجر جنرل سکندرمرزا کو مشرقی پاکستان کا گورنر مقرر کردیا گیاپھر انہی منتخب صوبائی اسمبلیوں نے انیس سو چون میں پاکستان کی دوسری مجلسِ قانون ساز اسمبلی تشکیل دی جس نے ون یونٹ نظام کے تحت انیس سو چھپن کا پہلا آئین بنایا یہ اسمبلی اسی ارکان پر مشتمل تھی یعنی ملک کے دونوں حصوں سے چالیس چالیس ارکان لیے گئے تھے آئین کے تحت ملک میں 23 مارچ 1956 کو پہلا تین رکنی الیکشن کمیشن تشکیل دیا گیا انیس سو باسٹھ کے آئین کے تحت ایک سو چھپن ارکان پر مشتمل جو قومی اسمبلی تین برس کے لیے وجود میں آئی اس کا چناؤ عوام نے نہیں بلکہ صدر ایوب کے بنیادی جمہوری نظام کے تحت عوامی ووٹ سے بننے والے اسی ہزار بیسک ڈیموکریٹس (بلدیاتی ممبران)نے کیا بعد ازاں آئین میں
ترمیم کرکے اسمبلی کے ارکان کی تعداد دو سو اٹھارہ اور بلدیاتی نمائندوں کے ارکان کی تعداد ایک لاکھ بیس ہزار تک کر دی گئی انہی بلدیاتی نمائندوں نے جنوری انیس سو پینسٹھ کے صدارتی انتخاب میں فاطمہ جناح کے مقابلے میں ایوب خان کو ایک اور مدت کے لئے صدر منتخب کیا اگر بات کی جائے 1970 کے انتخابات کی تو پاکستان کی تاریخ کے یہ پہلے عام انتخابات تھے جو بالغ رائے دہی پر منعقد ہوئے اور پاکستانی تاریخ کے یہی انتخابات ہیں جو انتہائی شفاف اور غیر جانبدار ہوئے ہیں جن پر کسی بھی سیاسی جماعت نے دھاندلی کے الزامات نہیں لگائے چیف الیکشن کمشنر جسٹس عبدالستار تھے اکیس برس سے زائد عمر کے پانچ کروڑ ستر لاکھ ووٹروں نے حصہ لیا لیگل فریم ورک آرڈر کے تحت قومی و صوبائی اسمبلیوں کی حلقہ بندی ہوئی اور اٹھائیس سیاسی جماعتوں نے حصہ لیا 300 نشستیں تھیں ایک سو باسٹھ نشستیں مشرقی پاکستان کے لئے اور ایک سو اڑتیس مغربی پاکستان کے چاروں صوبوں کے لئے مختص کی گئیں جس کے نتائج کے بارے میں آپ بخوبی واقف ہیں مشرقی پاکستان سے عوامی لیگ اور مغربی پاکستان سے پیپلز پارٹی نے اکثریت حاصل کی اور انیس سو ستتر کے انتخابات کے دھاندلی زدہ ھونے کے بارے میں اس وقت کے چیف الیکشن کمشنر جسٹس سجاد احمد جان (وسیم سجاد کے والد) کا یہ تبصرہ ہی کافی ہے کہ حکمراں جماعت کے امیدواروں نے اپنی مقتدر پوزیشن اور سرکاری مشینری کے اندھا دھند استعمال سے انتخابی عمل کو تباہ کردیا اس کے بعد 1988 کے الیکشن کی بات کی جائے تو پیپلز پارٹی کے خلاف اتحاد بنوایا گیا اور 1990 کے انتخابات میں تو مخصوص جماعت کو جتوانے کے لیے سرے عام خریداریاں کیں گئیں اس کے بعد بھی جو الیکشن ہوا جیتنے والی اور ھارنے والی دونوں جماعتوں نے اپنے مینڈیٹ چوری ہونے کا الزام عائد کیا کسی طرف سے بھی شفاف اور غیر جانبدار الیکشن کی نوید سنائی نہیں دی 2013 کے بعد تو بات چوک چوراہوں گلی محلوں احتجاج دھرنوں تک پہنچ گئی ہمارا پڑوسی ملک بھارت میں ایسا کبھی نہیں ہوا حتیٰ کہ موجودہ حکومت ہی الیکشن کا انعقاد بھی کرواتی ہے نگران سیٹ اپ بھی کبھی نہیں آیا پھر بھی نتائج کو تمام جماعتیں بخوشی قبول کرلیتی ہیں یہ اس لیے ہے کہ ان کا الیکشن کمیشن خودمختار مضبوط اور غیر جانبدار ہے اسی لیے ان کی جمہوریت پر کبھی شب خون نہیں مارا گیا اور ملک بھی ترقی کررہا ہے ان کے برعکس آپ نے دیکھا کہ شروع دن سے ہی ہمارا الیکشن کمیشن متنازعہ کمزور اور جانبدار رہا ہے پھر الیکشن کہاں شفاف ہوتے اس کی جانبداری نظر بھی آتی رہتی ہے ہمارا الیکشن کمیشن اتنا کمزور ہے کہ الیکشن تو دور کی بات ہے وہ غیر جانبدار اور مستقل بنیادوں پر از خود حلقہ بندیاں نہیں کر سکتا ہر الیکشن میں مخصوص لوگوں اور جماعت کو فایدہ پہنچانے کے لیے نئی حلقہ بندیوں کا دھندا شروع کر دیا جاتا ہے اور منجھے ہوئے جانبدار لوگوں کو انتخابات منعقد کروانے کا حصہ بنایا جاتا ہے تاکہ اپنے پیچھے کم ازکم نشانات چھوڑیں نتائج میں رکاوٹیں ڈال کر تاخیری حربے اختیار کر کے نتائج تبدیل کر دیے جاتے ہیں اور یہ سارے کام مفت تو ہوتے نہیں ہیں ایک تو خطیر رقم لٹائی جاتی ہے دوسرا الیکشن جیتنے کے بعد ان کے جائز و ناجائز کام کیے جاتے ہیں اس طرح جھرلو چلتا ہے جو جھرلو الیکشن کے ساتھ آئے گا وہ نیک اور پارسا تو ہوگا نہیں کہ اب اپنے لیے مال نہ بنائے اور مددگاروں کے کام نہ آئے وہ الیکشن میں جھرلو پھیرنے والوں کے اشاروں پر ناچتا ہی رہے گا ہمارا ملک تیزی سے تنزلی کی طرف بڑھتا ہی جا رہا ہے اور الیکشن کا بگل بھی بج چکا ہے اگرہم نے اس ملک کو بچانا ہے اور اس کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنا ہے توہمیں اشد ضرورت ہے غیر جانبدار خودمختار اور مضبوط الیکشن کمیشن کی جو بغیر کسی دباؤ اور لالچ کے اپنے فیصلے کرنے میں آزاد ہو اپنے قوانین پر بھرپور عملدرآمد کروانے کی طاقت رکھتا ہوجو امیدوار الیکشن
قوانین کی ذرا برابر بھی خلاف ورزی کرے فورا اسے نااہل قرار دے دیا جائے تاکہ امیدواروں کو بھی پتہ چلے کہ اب جھرلو نہیں چلے گا اب منشور اور کارکردگی کردار کی بنیاد پر کامیاب ہوں گیاس طرح ہمارا ملک آگے بڑھے گا اور ہمارا مستقبل محفوظ ہو گا اس کے بغیر سو بار انتخابات کروائیں نتیجہ منفی میں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں