انا کی جھوٹی تسکین

پوٹھوہار کے لوگوں کی خوبی سمجھیں یا خامی‘عقلمندی کے زمرے میں لائیں یا بے وقوفی سمجھیں لڑائی کرتے ہیں اور پھرراضی نامہ کیلئے اتنے جتن کرتے ہیں کہ شاید یہ ان کی زندگی کی آخری غلطی ہے اس کے بعد وہ کبھی کسی کو تکلیف نہ دیں گے کسی جوان کی انفرادی غلطی اور جرم میں ملوث ہو جانے پر بھی راضی نامے کی صورت میں اس کی خلاصی کی کوشش ہوتی ہیں راضی نامے کے بعد بھی ہماری سوچ اور عمل میں خاطر خواہ تبدیلی نہیں آتی مگرشدت ضرورکم ہوجا تی ہے ہمارے درمیان ایسے لوگوں کی کمی واقع ہوتی جا رہی ہے جو صلح جوئی اور باہمی محبت والفت کے لئے کام کرتے رہتے تھے اب آپس میں نفرتیں پھیلانے‘ ایک دوسرے سے خواہ مخواہ الگ تھلگ رہنے اور نام نہاد سوچ پر عمل پہرا رہنے والے کی اکثریت ہے تحصیل کلر سیداں کا علاقہ اس حوالے سے خصوصی شہرت رکھتاہے جس تیزی کے ساتھ یہ لوگ آپس میں جھگڑتے ہیں اتنی ہی جلدی انہیں صلح کی بھی ہوتی ہے صلح کیلئے اپنے تعلقات‘وسائل اور ہر وہ چیز کو بروئے کار لانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے تھانوں کے اہلکار‘عدالتوں کے نمائندے ہر ایک کو اس بات کا بخوبی علم ہوتا ہے کہ یہ لوگ کچھ دن‘مہینوں بعد صلح کر کے آجائیں گے اس وقت تک ان سے جتنا مالی فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے حاصل کیا جائے دولت کا بے دریغ ضیاع اس کام میں جتنا ہوتا ہے جو نہ تو کسی ضرورت مند کے کام آتا ہے نہ اپنی اولاد اور نہ کسی بہن بھائی کے بس انا کی تسکین کی خاطر چند لمحوں کی زبان درازی کی قیمت بہت زیادہ ادا کرنا پڑتی ہے در حقیقت شریف‘بے ضرر اور کم گو لوگ اپنے دائرہ میں رہ کر زندگی بسر کرنا چاہتے ہیں جب کہ شریر‘تیز طراز‘اور باتونی لوگ ان لوگوں کو نا حق تنگ کرتے ہیں ان کی شرافت کو سرعام بدنام کرنے کی کوشش کرتے ہیں بجائے ان شرفاء کو فائدہ دینے کے نقصان پہچانے کی کوشش کرتے ہیں تو معاشرے میں بے سکونی‘ہلچل اور نفرت پھیلنے لگتی ہے جس کا نتیجہ بے مقصد لڑائی ہوتی ہے اور بالآ خر صلح کی صورت حل ہوتا ہے بعض لوگ خود ساختہ عقلمندی اور بے معنی زور زبردستی کے قائل ہوتے ہیں اور اپنے مفاد کو سامنے رکھ کر عملاََ کا میاب بھی ہو جاتے ہیں لیکن کسی صورت ضمیر کو مطمئن نہیں رکھ سکتے جو لوگ مطمئن زندگی کی خواہش رکھتے ہیں وہ ہمدردی کیلئے بہانے کی تلاش میں ہوتے ہیں بلاشبہ اب وقت بہت بدل چکا ہے دونوں اطراف سے اقدامات کی ضرورت ہوتی ہے یک طرفہ طور پراچھے کام بھی انجام نہیں دیئے جا سکتے جتنی قربانی دوسرے دیں اتنی قربانی خود بھی دینے کی جرات رکھنی چایئے نہ کہ دوسرے شریف لوگوں سے تو آپ فائدہ اٹھالیں اور ان کے فائدے کے وقت بہت سے بے وقعت باتیں سامنے لے آئیں وسیع النظری‘جوابدہی اور ضمیر کی آواز پہ لبیک کہنے کی عادت کبھی بڑی غلطی نہیں ہونے دیتی ہمارے دیہی پوٹھوہاری معاشرے بالخصوص تحصیل کلر سیداں کے گاؤں میں اس وقت جو اضطراب دیکھنے میں آرہا ہے وہ بہت سے لوگوں کی انا اور مفاد پرستی کی وجہ سے ہے ہم کچھ لوگوں کو جینے کا حق دینے کے قائل نہیں اور کچھ کو ہر ایک غلط کام کی چھٹی دینے اور کھل کر افراتفری‘شر انگیزی پھیلانے کی اجازت دیتے ہیں روک ٹوک اور درمیان میں ہی رک جاناشکست سمجھتے ہیں بالآخر اس اقدام کی صورت میں صلح کی صورت جان چھڑانے کو کامیابی گردانتے ہیں اس سارے عمل میں بے پناہ دولت ضائع کرتے ہیں وقت برباد کرتے ہیں مستقبل کیلئے بہت سے مسائل کھڑے کر دیتے ہیں تعلقات‘رشتہ داریوں کی قربانی دے کر صرف اور صرف انا کی جھوٹی تسکین حاصل کرتے ہیں خود ساختہ نتائج کو گلے لگا کربقیہ زندگی گزار لیتے ہیں ہماری دیہی زندگی کا حسن ماند پڑ چکا‘رواج دم توڑتے جا رہے ہیں برادیوں کا رکھ رکھاؤ ختم ہو رہا ہے ایک گاؤں میں کئی کئی گروپ بن چکے ہیں جو اپنے اپنے دائروں میں گھوم رہے ہیں رشتہ داریاں محدود ہو چکی ہیں شادی بیاہ کی رسومات میں بے مقصد اگٹھ ہو رہے ہیں دور دراز سے تو لوگ آکر شریک ہوتے ہیں اپنے گاؤں کے قریب لوگ شریک نہیں ہوتے یہ سب ہماری بے بسی اور بے رحمی کی دلیل ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں