ابھی ہم میٹرک میں ہی تھے کہ گورنمنٹ (سرور شہید نشان حیدر) ڈگری کالج گوجرخان کے لیجنڈری طلبہ: سید ثاقب امام رضوی، زاہد حسین قریشی، نعیم احمد مرزا، راجہ محمد جواد، بابو حفیظ الرحمان، امتیاز گلیانوی، عبدالرحمان مرزا، محمد شکیل (مرحوم)، محمد جمیل، عبدالرازق اور راجہ اسحاق کا شہرہ اپنے خالہ زاد بھائی مرزا تجمل حسین جرال اور اپنے دوست سید فیاض گیلانی (کرنل ڈاکٹر)کے ذریعے ہم تک پہنچ چکا تھا۔موخر الذکر دونوں شخصیات کا تعلق چونکہ ہمارے گاؤں نڑالی ہی سے تھا اور ہم سے سینئر بھی تھے روزانہ کالج آتے جاتے تھے اس لیے ہم ان کے ساتھ بیٹھ کر بڑے شوق سے کالج لائف اور ان کے دوستوں سے متعلق استفسار کرتے تھے۔ میٹرک کے بعد ہمارا داخلہ گورنمنٹ انٹرمیڈیٹ کالج دولتالہ میں ہوگیا اور ان نابغہ روزگار شخصیات کی صحبت میں بیٹھنے کی حسرت دل میں ہی رہی۔انٹر کے بعد گریجوایشن کے لیے سرور شہید ڈگری کالج گوجرخان میں داخلہ لیا تو سیدثاقب امام رضوی، راجہ اسحاق اور رازق حسین وغیرہ تو فارغ التحصیل ہوچکے تھے لیکن دیگر سینئرز سے ملاقات کا موقع مل گیا سوائے امتیاز گلیانوی کے کیونکہ ان سے ہمارا سامنا نہیں ہوا اگر ہوا بھی تو ہمیں پتہ ہی نہیں چلا کہ موصوف امتیاز گلیانوی ہیں۔فارغ التحصیل ہونے کے عرصہ بعد ایک دن اپنے کزن مرزا تجمل حسین جرال کے ساتھ محفل جمی ہوئی تھی کہ امتیاز گلیانوی کا ذکر ہوا تو میں نے ان کے بارے میں استفسار کیا کہ بھائی جی ان سے ہماری ملاقات کالج لائف میں کبھی نہیں ہوئی حالانکہ وہ بھی آپ کے کلاس فیلو ہی تھے! انہوں نے جب گلیانوی صاحب کی شکل و صورت کا نقشہ کھینچا تو یاد آیا کہ ہاں ان سے تو کئی بار کالج میں سامنا ہوا لیکن کوئی تعارف کرانے والا پاس تھا اور نہ ہی یہ بتانے والا کہ جناب ہم تو امتیاز گلیانوی سے ملنے کے کتنے مشتاق تھے!سرور شہید ڈگری کالج گوجرخان میں پڑھائی کے دوران ایک لڑکے سے گاہے گاہے سامنا ہوتا تھا وہ اپنے حلقہ یاراں میں مگن اور ہم اپنی شرارتوں میں مصروف ایک دوسرے کے پاس سے گزر جاتے تھے اور چونکہ سامنا شاذ ونادر ہی ہوتا تھا اس لیے ہم اسے کوئی ”خلائی مخلوق“ ہی سمجھتے رہے لیکن ان کی کتاب ”امتیاز نامہ“ پڑھنے کے بعد پتہ چلا کہ ان کا تعلق تو محکمہ ”زراعت“ سے بھی تھا۔گزشتہ سال دسمبر2021ء اپنے دوست صحافی و مصنف حکیم عبدالرؤف کیانی اور مبین مرزا کی جانب سے الگ الگ دعوت نامہ موصول ہوا کہ 31دسمبر کو ”امتیاز نامہ، سات ہجرتوں کی داستان“ کی تقریب رونمائی ہے۔ کتاب سے تو ہمیں شائد کوئی دلچسپی تھی یا نہیں البتہ صاحب کتاب سے ملنے کی جستجو ہمیں کشاں کشاں گوجرخان لے گئی۔ اس موقع پر ہمارے سامنے جو امتیاز گلیانوی کھڑا تھا وہ تو ”صوفی“ بن چکا تھا۔ کہاں وہ سانولی سلونی شکل و صورت والا ”ڈیسینٹ، تروتازہ“ امتیاز احمد اور کہاں آج کا زمانے کے پریشر کُکر سے نکل کر ”مُرشد“ہوجانے والا امتیاز گلیانوی۔ سچ پوچھیں تو دل میں ایک کسک سی ضرور اُٹھی۔تقریب رونمائی نے جب ضرورت سے زیادہ طوالت پکڑی تو لمبے سفر اور رات ہوجانے کے اندیشے سے ہم قبل از اختتام ہی اُٹھ کر واپس گھر آگئے اور کتاب ”امتیاز نامہ“ کے حصول سے محروم رہ گئے۔امتیاز گلیانوی تو واپس برطانیہ چلے گئے اب یہ فکر تھی کہ کتاب کیسے حاصل کی جائے۔ خیر جب اس بات کا ذکر عبدالرؤف کیانی صاحب سے کیا تو انہوں نے ملاقات کے لیے بلایا تو ساتھ ہی کتاب کا لالچ بھی دیا کہ ان کے پاس ”امتیاز نامہ“ کے فالتو نسخے پڑے ہوئے ہیں۔ پھر کیا تھا ہم نے اپنی بائیسیکل جی ہاں جسے ہم سائیکل کہتے ہیں نکالی اور تیس کلو میٹر کا فاصلہ طے کر کے گوجرخان جا پہنچے یعنی اس کتاب کو حاصل کرنے کے لیے ہمیں کم وبیش 60کلو میٹر کا فاصلہ سائیکل پر طے کرنا پڑا۔ کتاب پرھنے کے بعد ہمارا خیال ہے کہ یہ کوئی مہنگا سودا نہیں تھا۔”امتیاز نامہ“ کیا ہے؟ میری اور آپ کی زندگی کی کہانی، اس میں ماضی بھی ہے، حال بھی اور مستقبل بھی۔ کتاب میں امتیاز احمد کبھی طالب علم تو کبھی استاد، کبھی ایک دیہاتی جوان تو کبھی کوئی فلاسفر، کبھی سادہ لوح تو کبھی ہوشیار و چالاک، کبھی مبلغ تو کبھی مُرشد، کبھی صوفی تو کبھی عالم نظر آیا۔ ہم صحافی ہیں اور ادب کے معاملے میں کافی بے ادب واقع ہوئے ہیں اس لیے ہمارے پاس کسی کی تعریف کے لیے کوئی زیادہ الفاظ نہیں ہوتے ورنہ آپ یقین جانیں میں امتیاز احمد گلیانوی کے لیے ضرور کہتا کہ: یہ ایک ایسا بھائی ہے جو پیاسے سرابوں کو کھلے حقائق میں تبدیل کرسکتا ہے، ایک ایسا ساتھی ہے جو مجروح انسانوں کے ضمیر کو دعا کے ثمر آور الفاظ میں بدل سکتا ہے،، ایک ایسا نقیب ہے جو خوابوں کو امید بھرے لفظوں سے تعبیر دے سکتا ہے، ایک ایسا شخص ہے جو یورپ میں رہتے ہوئے اپنی ملت کا حوالہ ہے، اپنوں کے لیے ستاروں اور ضرورت مندوں کے لیے شفقت بھرا دامن رکھتا ہے، امتیاز گلیانوی ایک ایسا جانباز ہے جو چاروں سمت رقصاں ناامیدی و مایوسی کو خوش رنگ خوابوں کا رنگ دے سکتا ہے۔اپنی آپ بیتی میں امتیاز گلیانوی کہیں ممتاز مفتی کا ”علی پور کا ایلی“تو کہیں مستنصر حسین تارڑ کا ””اندلس میں اجنبی“ نظر آیا۔کتاب میں جہاں بیتے دنوں کی یادیں ہیں وہیں مستقبل کے لیے امیدیں بھی ہیں، بڑوں اور جوانوں کے لیے یکساں رہنمائی موجود ہے۔ امتیاز گلیانوی کا قد تو چھ فٹ سے زائد ہے لیکن امتیاز نامہ پڑھنے کے بعد وہ مجھے اور زیادہ قدآور لگنے لگے ہیں۔ مکمل کتاب پڑھنے کے بعدجہاں کچھ تشنگی و کمی محسوس ہوئی وہیں کچھ زیادتی بھی محسوس ہوئی جو ملاقات پر امتیاز احمد گلیانوی سے ڈسکس کریں گے۔آخر میں میری قارئین کرام سے گزارش ہے کہ آپ یہ کتاب ”امتیاز نامہ“ ضرور پڑھیں، میں نے اپنے چھوٹے بیٹے (جو اس وقت فرسٹ ائیر میں ہے) کو حکمََا یہ کتاب پڑھنے کو کہا ہے۔
228