206

الیکشن2024 راولپنڈی پی ٹی آئی کا گڑھ بن گیا

پاکستان تحریک انصاف سانحہ نو مئی کے بعد ہر گزرتے دن کے ساتھ مشکلات میں گرتی چلی جارہی ہے دن بدن انکی مشکلات میں اضافہ دیکھنے کو مل رہا ہے اگر ہم عام انتخابات کی بات کریں

تو اس میں بھی خواہ وہ پارٹی کا نشان ان سے چھیننا ہو یا پھر امیدواروں کو کمپین کرنے کی اجازت نہ ملنا ہر طرح سے انکے لیے مشکل مرحلہ تھا لیکن اسکے باوجود جس طرح سے انکے ووٹرز باہر نکلے اور اپنے امیدواروں کے نشان تلاش کر کے انکو ووٹ دیا اسکی مثال کم ہی ملتی ہے راولپنڈی کی بات کریں

تو ماضی میں اسکو مسلم لیگ ن کا گڑھ سمجھا جاتا تھا مگر 2018 کے عام انتخابات میں یہاں سے تحریک انصاف نے کلین سویپ کیا اور بتایا کہ اب راولپنڈی انکا گڑھ بن چکا ہے مگر اب غیر معمولی صورت حال سے دوچار 2024 کے عام انتخابات میں راولپنڈی کے الیکشن کی بات کریں تحریک انصاف کی جانب سے جنکا سربراہ جیل میں موجود ہو

اور کوئی الیکشن کمپین بھی نہ ہو اسکے باوجود تحریک انصاف نے اپنے ووٹرز کو باہر نکالا اور لوگوں نے اپنے امیدواروں کو ووٹ دیا اب کون کیسے جیتا کس نے جتوایا اس بات کو زیر بحث لائے بغیر کہ راولپنڈی میں تحریک انصاف ایک مضبوط جماعت نظر آئی ان انتخابات میں جہاں بہت سے نئے چہروں کو الیکشن میں موقع ملا جنھوں نے پرانے سیاسی پنڈتوں کے مقابلے میں اچھا مقابلہ کیا

تو وہی پر بہت سے لوگوں کے پارٹی چھوڑ کر جانے سے پرانے نظر انداز ہوئے لوگوں کو بھی الیکشن میں حصہ لینے کا موقع ملا اور وہ بھی فرنٹ فٹ پر نظر آئے این اے 59 سے تحریک انصاف کے امیدوار کرنل اجمل صابر راجہ کی بات کریں تو وہ ماضی میں بھی 2013 کا الیکشن لڑ چکے ہیں اور اپنے پہلے الیکشن میں اپنے مدمقابل چوہدری نثار علی خان کے 70 ہزار سے زائد ووٹ لیا تھا

مگر اسکے بعد کرنل اجمل صابر راجہ کو مسلسل نظر انداز کیا جاتا رہا یہی وجہ کے 2018 کے عام انتخابات میں بھی غلام سرور خان دو نشستوں پر الیکشن لڑے مگر انکو کسی بھی نشست کاٹکٹ نہ مل سکا مگر کرنل اجمل صابر راجہ اس ساری صورتحال سے دلبرداشتہ ہوئے بغیر جماعت کے ساتھ ڈٹ کر کھڑے رہے

خاص طور پر جب نو مئی کے بعد تمام مرکزی لیڈر راولپنڈی کی سیاسی قیادت روپوش ہوگئی یا جماعت کو خیر آباد کہہ گئی ایسے میں کرنل اجمل صابر راجہ فرنٹ فٹ پر نظر آئے نو مئی کے بعد شروع کے دنوں میں ہی انکو گرفتار کر لیا گیا اسکے بعد متعدد دفعہ رہائی کے بعد انکو دوبارہ اڈیالہ جیل سے گرفتار کر لیا جاتا کئی دوسرے شہروں میں گرفتار کر کے انکو لے جاتے رہے پارٹی چھوڑنے کا پریشر بڑھتا گیا کئی

ماہ تک وہ پابند سلاسل رہے لیکن انکے حوصلے پست نہیں ہوئے بلکہ چٹان کی طرح اپنی جماعت اور عمران خان کے ساتھ کھڑے رہے ایسے میں اپنی فیملی اپنی ذاتی زندگی سبکو داو پر لگائے رکھا اب جب 2024 میں الیکشن کا اعلان ہوا وہ الیکشن لڑے مگر وہ الیکشن کمپین بھی کھل کر نہ کر سکے

روپوش ہی رہ کر الیکشن لڑا اسکے باوجود انکو اچھا ووٹ بنک ملا لوگوں نے انکو ووٹ دیا اب الیکشن کے بعد کئی ماہ ہونے کو کرنل اجمل صابر راجہ گوکہ الیکشن جیت کر بھی جیت اپنے نام نہ کر سکے لیکن اسکے باوجود وہ عوام میں نظر آرہے ہیں نہ صرف عوام میں نظر آرہے

بلکہ اعلی سطح پر بھی خواہ کسی مقدمہ کی سماعت ہو یا کوئی جلسہ جلوس ہو یا پھر کوئی اور ایشو وہ فرنٹ لائن پر پارٹی لیڈر شپ کے ساتھ کھڑے نظر آتے ہیں یہی وجہ کہ الیکشن کے بعد سے اب تک مسلسل ان پر مقدمات درج ہو رہے ہیں مگر کرنل اجمل صابر راجہ کا مسلسل فیلڈ میں رہنا

اور ہر جگہ پر متحرک نظر آنا بظاہر اس سے یہی لگ رہا کہ مستقبل میں پارٹی کی سطح پر انکو اہم مقام مل سکتا ہے اور سیاسی طور پر بھی بات کریں تو اس الیکشن کے بعد جس طرح سے وہ ایکٹو نظر آرہے اپنے حلقے کے لوگوں کے دکھ سکھ میں کھڑے نظر آتے انھوں نے پارٹی کو دوبارہ منظم کر لیا ہے

اب موجودہ سیاسی صورتحال کی بات کریں تو وہ آنے والے وقت میں مستقبل میں اپنے مخالفین کو ٹف ٹائم دینگے مگر اب آگے تحریک انصاف کا مستقبل کیا ہونا یہ تو وقت ہی بتائے گا کیونکہ اب گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ تحریک انصاف کی سختیاں اور پابندیاں کچھ کم ہوتی دکھائی دے رہی ہیں

عدالتوں سے بھی فیصلے انکے حق میں ہونا شروع ہوگئے ہیں جس سے بظاہر یہی لگ رہا کہ اب تحریک انصاف کے کھل کر کھیلنے کا وقت ہونے لگا ہے مگر پھر بھی اب یہ اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا یہ تو وقت ہی بتائے گا۔

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں