الیکشن کا اعلان‘ سیاسی جماعتوں میں ہلچل

زندگی کی تلخ حقیقتوں کو بھلا کر جھوٹے وعدوں خوابوں اور آس وامید کو بے مقصد خیالوں میں دفن کرنے اور پھر ان خیالوں کو حقیقت کا روپ دے کر اذیت کے آستانوں پر بستر سجائے محرومیوں کے مزاروں پر اپنی بے بسی کا ماتم کرنے والی قوم ایک بار پھر اپنے ماضی کے تباہ کن تجربات کو بھلا کر نئے خواب آنکھوں میں سجائے خواب دکھانے والوں کی لگائی کڑکی میں پھنسنے کی تیاری میں مصروف ہیں کسی بھی ریاست کی ترقی وخوشحالی کو پرکھنا ہو تو اس کے اداروں کی مضبوطی کو دیکھا جاتا ہے

کیونکہ ادارے ہی ریاست کی ساکھ کو سلامت رکھنے میں کردار ادا کرتے ہیں اور ریاستی اداروں کو خود ریاست مضبوط کرتی ہے اور ریاست کو اس ریاست کے عوام کے منتخب کردہ افراد چلاتے ہیں۔ریاست پاکستان اپنے قیام کے ایک سال بعد قائد اعظم کی رحلت کے بعد ان قوتوں کے ہاتھ چڑھ گئی جنہوں نے عوام سے ووٹ کی طاقت چھین کر جمہوریت کو تماشہ بنا دیا۔ادارے ہر گزرتے وقت کے ساتھ اس قدر کمزور ہوئے کہ اب کسی فالج زدہ مریض کی طرح حرکت سے قاصر ہیں۔ہمارے سیاست دان ان قوتوں کے ہاتھوں مسلسل استعمال ہوتے رہے ہیں‘ ہورہے ہیں اور شاید آئندہ بھی ہوتے رہے ہیں۔اقتدار پرستی کے جنون میں‘ مبتلا یہ گروہ ملک وقوم کی تباہی کے اصل کردار ہیں۔ان لوگوں نے قوم کو ہمیشہ مایوس کیا ہے اب ایک بار الیکشن کے نام پر قومی خزانے کو لٹانے کی تیاری ہے اور قوم اپنے مسائل ومصآئب کو بھول کر اپنے اپنے پسندیدہ لیڈروں کو فرشتہ ثابت کرنے کی جستجو میں ہے۔ ملک بھر میں اس سلسلے میں سیاسی جماعتیں متحرک ہوچکی ہیں

گوجرخان کی سیاست میں بھی الیکشن تاریخ کے اعلان کے بعد سیاسی جماعتوں میں ہلچل نظر آرہی ہے مسلم لیگ،پیپلز پارٹی کے علاوہ تحریک لبیک گوجرخان سے مدمقابل ہوں گی جبکہ تحریک انصاف کے سابق ٹکٹ ہولڈر چوہدری عظیم پارٹی سے راہیں جدا کرچکے جبکہ حلقہ پی پی نو سے سابق ایم پی اے چوہدری ساجد بھی پارٹی چھوڑ چکے۔پی پی آٹھ سے تحریک انصاف کے سابق ایم پی اے گو کہ پارٹی کے ساتھ کھڑے ہیں لیکن وہ ملک چھوڑ چکے ہیں۔اب دیکھنا ہوگا کہ تحریک انصاف کو دیگر جماعتوں کی طرح الیکشن لڑنے کے لیے گراؤنڈ مہیا ہوتا ہے یا اُس کے امیدوار عتاب کا شکار رہتے ہیں۔دیکھنا یہ ہوگا کہ گوجرخان سے اب تحریک انصاف کے پلیٹ فارم سے کوئی ایسی نامور شخصیت الیکشن میں سامنے آتی ہے جو گراؤنڈ میں موجود دیگر جماعتوں کے پرانے مچیور اور مضبوط امیدواروں کا مقابلہ کرسکے اصولی طور پر الیکشن لڑنا ہر سیاسی جماعت کا جمہوری حق ہے لیکن افسوس کہ یہاں ہر دور میں جبر ہوتا رہا ہے اور سیاسی جماعتیں اپنے اپنے مفاد کے لیے ایسے عمل کا حصہ بنتی رہی ہیں

تحریک انصاف کی مجموعی صورتحال کو دیکھتے ہوئے کہا جاسکتا ہے کہ گوجرخان میں پیپلز پارٹی،ن لیگ اور تحریک لبیک میں مقابلہ ہوسکتا ہے۔مسلم لیگ تمام جماعتوں میں وہ واحد جماعت ہے جس میں اس وقت پی پی نو اور آٹھ دونوں حلقوں میں دو سے زائد امیدوار موجود ہیں۔پی پی آٹھ میں چوہدری افتخار وارثی، چوہدری خرم ریاض، راجہ علی اصغر،چوہدری جمیل قابل ذکر ہیں تاہم ٹکٹ کے مضبوط امیدوار چوہدری افتخار وارثی اور چوہدری خرم ریاض ہی ہوسکتے ہیں پی پی نو میں سابق ایم پی اے شوکت بھٹی ٹکٹ کے لیے مضبوط امیدوار ہیں ان کے علاوہ راجہ حمید اور چوہدری ضیافت بھی ٹکٹ کے امیدواروں میں شامل ہیں۔جبکہ پیپلز پارٹی کے پاس پی پی نو میں راجہ پرویز اشرف کے فرزند راجہ خرم پرویزاور آٹھ میں چوہدری اعظم امیدوار ہیں دونوں اپنے مخالفین کوٹف ٹائم دینے کی بھرپور صلاحیت رکھتے ہیں وفاق میں مقابلہ راجہ پرویزاشرف اور راجہ جاوید اخلاص مدمقابل ہیں چوہدری عظیم کے پی ٹی آئی چھوڑ جانے کے باعث ان دونوں میں مقابلے کی توقع کی جارہی ہے موجودہ حالات میں کسی ایک بھی جماعت کی جیت کے بارے پیشگوئی ناممکن سی بات ہے پیشگوئی اس لیے بھی مشکل ہے کہ ابھی سیاسی افراد کے اُدھر اِدھر ہونے بارے سرگوشیاں بھی سنائی دے رہی ہیں جب تک گوجرخان کا سیاسی مطلع صاف نہیں ہوتا اس بارے کچھ کہنا قبل از وقت ہوگا۔دوسری جانب مسلم لیگ کی صورتحال واضع ہونے کے بعدہی اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔کیونکہ اس جماعت کے رہنماؤں کی روایت رہی ہے کہ ٹکٹ سے محروم رہنے والے اپنے گروہ کے ساتھ اپنے ٹکٹ ہولڈروں کے خلاف مخالف جماعتوں کے کیمپ میں نعرے لگاتے نظر آتے ہیں سو مسلم لیگ کے ٹکٹوں کا اعلان ہونے کے بعد ہی اس جماعت کی ہار جیت بارے کوئی رائے قائم کی جاسکتی ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں