الیکشن نہیں سیاسی استحکام مسائل کا حل ہے

کسی بھی ملک کی ترقی میں بہت سے عوامل کار فرما ہوتے ہیں جن میں سب سے اہم سیاسی استحکام ہے۔ اگر ملک میں سیاسی استحکام ہو تو ملک میں معاشی استحکام بھی آتا ہے، اس کے برعکس اگر سیاستدانوں کو کرسیاں کھینچنے سے فرصت نہ ہو اور ایک دوسرے کے خلاف ہر دم محاذ گرم رکھیں تو ان حالات میں معیشت کو سخت نقصان پہنچتا ہے اور ملکی معیشت تباہی کی طرف گامزن ہو جاتی ہے۔ وطن عزیز پاکستان ایک ترقی پذیر اور کمزور معیشت والا ملک ہے جس کی معیشت نہایت خستہ حالی کا شکار ہے، روز بروز معاشی کمزوری بڑھتی چلی جا رہی ہے۔ ڈالر مہنگا ہو رہا ہے، پیٹرول کی قیمتیں آسمان کو چھو رہی ہیں جس کی وجہ سے مہنگائی بڑھ رہی ہے۔ ملک کے سیاسی حالات نہایت ناگفتہ بہ ہیں۔ کوئی سیاستدان دوسرے کو برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ ہر ایک اپنے مفادات کے فکر میں ہے۔ ہر ایک کو عہدہ چاہیے، جس کے بعد کوئی کارکردگی نہیں دکھانی بس عہدے ہی ان کی زندگی کا مقصد ہو سب سے بڑی خواہش ہے۔
یہاں تو یہ حال ہے کہ ایک جماعت حکومت سنبھالتی ہے تو دوسری اس کے پیچھے ہاتھ دھو کر پڑ جاتی ہے اور جب تک اسے عہدے سے محروم نہ کر لے تب تک انہیں چین نہیں ملتا۔ پھر دوسرے کو محروم کرنے کے بعد خود عہدہ سنبھالتے ہیں تب بھی کوئی کارکردگی نہیں دکھا سکتے اور اس دوران پہلے والے پھر ان کے پیچھے پڑ جاتے ہیں اور انہیں عہدے سے محروم کرنے کے درپے رہتے ہیں۔ یوں گزشتہ 75سال سے عہدوں کی چھینا جھپٹی کا سلسلہ جاری ہے جو اب انتہائی خطرناک موڑ پر پہنچ چکا ہے۔ اپوزیشن جماعتیں اپنا کردار بھی ادا نہیں کرتیں اور حکومت کو بھی کام نہیں کرنے دیتیں، حکمران جماعتیں بھی اپنا کام چھوڑ کر اپوزیشن کو دبانے کی تگ و دو میں رہتی ہیں یہاں تک کہ وہ اقتدار سے محروم کر دی جاتی ہیں۔
حالیہ دنوں ایسی ہی بھیانک صورتحال کا سامنا ہے کہ تحریک انصاف کی حکومت کو فارغ کرنے کے بعد متحدہ سیاسی جماعتوں نے حکومت بنائی اور پھر تحریک انصاف ان کی حکومت کو ختم کرنے کے درپے ہو گئی۔ اوپر سے ہمارے نظام قانون و انصاف میں بھی اتنی خامیاں ہیں کہ یہ کسی کو بروقت انصاف فراہم کرنے یا فوری فیصلہ کرنے کے قابل نہیں ہے۔ تحریک عدم اعتماد کے دوران جب منحرف اراکین کے بارے میں عدالت سے رجوع کیا گیا تب تو عدالت نے منحرف اراکین کے بارے میں کوئی واضح فیصلہ نہیں دیا بلکہ اس وقت تو عدالت کے ریمارکس سے یہی معلوم ہوتا تھا کہ منحرف اراکین ووٹ دے سکتے ہیں اور ان کے ووٹ شمار بھی ہوں گے۔ مگر جب حکومت بن گئی، وزراء نے باقاعدہ طور پر کام شروع کر دیا تو عدالت نے منحرف اراکین کے خلاف فیصلہ دے دیا اور ان کے ووٹ کو شمار نہ کرنے کا کہہ دیا۔ اب ملک میں ایک نیا بحران پیدا ہو گیا ہے اور موجودہ وفاقی اور پنجاب کی صوبائی حکومتوں کے لیے مسئلہ بن گیا ہے کہ کیا وزیراعظم اور وزیراعلیٰ پنجاب نے جو ووٹ لیے ہیں وہ ان کے لیے کافی ہیں یا بہت سے اراکین کے ووٹ شمار نہ کر کے ان کے ووٹ ناکافی قرار دیے جائیں۔ اس طرح ایک نیا سیاسی مسئلہ کھڑا ہو گیا ہے جو ملک کو نئے انتخابات کی طرف دھکیل رہا ہے۔
بہت سے عناصر بالخصوص تحریک انصاف ملک کو فوری طور پر نئے انتخابات کی طرف لے جانا چاہتی ہے۔ بہت سے صحافی بھی نئے انتخابات کے حامی ہیں اور سارے مسائل کا حل نئے انتخابات کو قرار دے رہے ہیں لیکن نئے انتخابات کسی مسئلے کا حل نہیں ہے کیونکہ ملک میں پہلی بار انتخابات نہیں ہونے جا رہے، پہلے بھی کئی بار انتخابات ہوئے ہیں لیکن ان کے بعد ذرا برابر حالات نہیں بدلے اور ملک مزید مسائل میں ہی الجھتا رہا۔ بار بار یا قبل از وقت انتخابات پیسے اور وقت کا ضیاع ہے۔ فوجی حکومت ختم ہونے کے بعد 2008کے انتخابات ہوئے پھر 2013کے انتخابات ہوئے اس کے بعد 2018کے انتخابات ہوئے لیکن حالات جوں کے توں رہے بلکہ ہر نئی آنے والی حکومت نے نااہلی اور ملک کو بربار کرنے میں پہلی حکومتوں سے زیادہ بد ترین کردار ادا کیا۔ اس لیے یہ کہنا غلط نہیں ہو گا کہ انتخابات مسائل کا حل نہیں ہیں بلکہ مسائل کا حل سیاسی استحکام ہے۔
سیاسی جماعتوں کو اس بات کا ادراک کرنا چاہیے اور آرام سے بروقت انتخابات تک انتظار کرنا چاہیے۔ اپوزیشن جماعتوں کو سڑکوں کی بجائے پارلیمنٹ میں اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔ ان کی زمہ داری ہے کہ وہ پارلیمنٹ کے ہر اجلاس میں شرکت کریں اور حکومت کے غلط فیصلوں پر تنقید کریں اور درست فیصلوں پر ان کا ساتھ دیں۔حکومت کے حصول کی بجائے سیاسی استحکام تمام جماعتوں کا اولین فریضہ ہے۔ سیاسی استحکام کے لیے تمام جماعتوں کو ایک دوسرے کے خلاف بلا وجہ الجھنے کی بجائے انہیں آپس میں مل بیٹھ کر مسائل کے حل کے لیے کردار ادا کرنا چاہیے۔ ملکی مفاد ات پر ذاتی مفادات کو ترجیح دینی چاہیے۔ معیشت کے استحکام کے لیے حکومت اور اپوزیشن مل بیٹھ سوچیں تو یقینا یہ مسئلہ حل ہو سکتا ہے۔ اگر سیاسی جماعتیں اس بات کو سمجھ جائیں اور سیاسی استحکام کے لیے کوشش کریں تو ملکی ترقی یقینی ہو جائے گی۔

اپنا تبصرہ بھیجیں