الزام تراشی

کچھ لوگ ہمیشہ نفرت کا شکار رہتے ہیں اور کچھ پر ہمہ وقت محبتیں نچھاور ہوتی رہتی ہیں اس کو بعض لوگ مقدر سے تعبیر کرتے ہیں اور کئی لوگ قسمت کا لکھا سمجھ کر صاد کرتے ہیں اس سلوک کا ذمہ دار کس چیز کو ٹھہرایا جائے رویے کو دوش دیں عادت کو قصوروار قرار دیں یا غربت کو سبب گردانیں بہرحال اس کے نتیجہ میں کبھی آنکھوں سے آنسوچھلک جاتے ہیں کبھی چہرے سے دکھ درد کے سوتے پھوٹتے ہیں اور نحیف و نزار جسم اس کاپتہ دیتا ہے اور کبھی کبھار سب کچھ چھوڑ چھاڑکرتنہائی اختیار کر لینے کو جی چاہتا ہے ایسے لوگوں کو بے پناہ تکالیف اٹھانا پڑتی ہیں بے وقوف بنتے رہتے ہیں نقصان اٹھاتے رہتے ہیں جسم وجان تکلیف میں رہتا ہے سب کچھ برداشت کرنے کے باوجود پھر بھی جان نہیں چھوٹتی ایسے لوگوں پر بظاہر کوئی رحم نہیں کھاتا ہمدردی کی تلاش میں ان لوگوں کے شب وروزبسر ہوتے ہیں ان حالات سے تنگ آکر بہت سے لوگ اپنے حلیہ کو اس طرح تبدیل کر لیتے ہیں کہ کوئی ان کے پاس نہ بیٹھے عام لوگ ملنا جلنا ترک کر دیں جس کی وجہ سے وہ سکون محسوس کرتے ہیں اور نہ ہی لوگوں کے منفی رویوں کا شکوہ کرنا پڑتا ہے کسی کو برا نہیں کہنا پڑتا اور نہ کسی سے وعدہ خلافی‘برے سلوک‘بدتمیزی کا گلہ رہتا ہے کوئی چاہے تو تعریف کرے یا تضحیک ان سے کوئی سروکار نہیں رہتا کوئی پاگل کہے مجنون نام رکھے مکر کا لبادہ اوڑھنے والا قرار دے یا ذمہ داریوں سے فرار اختیار کرنے والا دیوانہ خیال کرے اس کے باوجود وہ پرسکون رہتے ہوئے سفر زندگی جاری رکھتے ہیں اس لئے کسی سے اچھا یا برا سلوک روا رکھنے سے پہلے ہزار بار سوچیں کہ اس کے اثرات کیا ہوں گے ہماری باتیں‘نصیحتیں‘طعنے اس پر کتنا اثر چھوڑیں گے اس کے غموں کو اور زیادہ کریں گے ہم اپنی باتوں سے‘حرکات سے روزانہ کئی ایسے معصوم‘بے ضرر اور مجبور لوگوں کو چھلنی کرتے ہیں انتظامی مجبوریوں کے تحت بہت سے لوگوں کو ناحق تکلیف دیتے ہیں ان کو خون کے آنسو رلاتے ہیں‘ذہنی اذیت سے دو چار کرتے ہیں کاروباری نقصان‘لین دین میں بھول چوک اور غیرذمہ داری کے الزامات عائد کرتے ہوئے دھونس‘دھمکی اور روزگارسے نکال دینے تک کے اقدامات آئے دن بہت سے مجبور اور اور بے ضرر لوگوں پر قہر بن کر ٹوٹتے ہیں گھریلو ملازمین سے لے کر ہر ماتحت اس کرب کا شکار ہے ہمارے ملک میں اکثریت اس کوظلم تصور نہیں کرتی حالانکہ یہ ظلم کی ایسی قسم ہے جس سے کئی زندگیاں برباد ہوتی ہیں بہت سے لوگ اپنی صحت کو خراب کر بیٹھتے ہیں مسلسل ذہنی کوفت کا شکار لوگ بالآخرجان سے بھی ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں اپنے رویے سے کسی کو زچ کر دینا کسی کو مجبور کرکے رکھ دینا کامیابی خیال کرتے ہیں انتظامی فتح تصور کرتے ہیں لیکن یہ ناکامی کا تمغہ ہوتا ہے اگر رب کائنات ایسے انسان کو جینے کا حق دیتا ہے تو ہم کون ہوتے ہیں جو انتہائی معمولی اختیار کے تحت اسے غلام بنا کر رکھنے کی کوشش کرتے ہیں یہ ان لوگوں کے لئے دعوت فکر ہے کہ وہ ظلم کی اس قسم سے باز آئیں کسی پر الزام تراشی سے پہلے ہزار بار سوچیں کسی کو بے روزگار کرنے سے قبل اپنے ضمیر کی عدالت میں مقدمہ پیش کریں کسی پر طعنہ زنی‘الزام تراشی اور سزا دینے سے بغیر ثبوت کے باز آجائیں معاف کر دینے کو اختیار کریں کسی کو رسوا نہ کریں اس کے عیب پر پردہ ڈالیں اور ہو سکے تو ان معاملات کو آخرت کے سپرد کر دیں

اپنا تبصرہ بھیجیں