اقبال و قائد اعظم کا پاکستان

ہندوؤں نے جب انگریزوں کو ہندوستان پر مکمل قابض ہوتے دیکھا تو بڑی چالاکی سے بھولے اور مظلوم بن کر انگریزوں کی ہمدردیاں سمیٹنے لگے اور مسلمان چکی کے دو پاٹوں میں پسنے لگے اس ساری صورتحال سے نجات کا ایک حکیم و دانا نے جاگتی آنکھوں سے ایک خواب دیکھا اور وہ حکیمانہ خواب یہ تھا کہ مسلم اکثریتی علاقوں پر مشتمل ایک ریاست یا ریاستیں قائم کر دی جائیں اس خواب کو دیکھنے والی شخصیت کو بعد میں حکیم الامت اور شاعر مشرق اور مصور پاکستان کے القابات سے یاد کیا جانے لگا حکیم الامت نے نہ صرف خواب دیکھا بلکہ اس کے ساتھ ساتھ اس خواب کے نتیجہ میں قائم ہونے والی ریاست کے کچھ خدوخال بھی بیان کر دئیے تاکہ آنے والی نسل کی راہنمائی ہو سکے اس کے ثمرات کو بہتر طریقے سے سمیٹ سکیں 1937میں قائداعظم کو لکھے گئے خط میں رقمطراز ہیں ”اگر ہندوستان کے مسلمانوں کا مقصد سیاسی جدوجھد سے محض آزادی اور اقتصادی بہبود ہے اور حفاظت اسلام اس مقصد کا عنصر نہیں جیسا کہ آج کل کے قوم پرستوں سے معلوم ہو گیا ہے تو پھر مسلمان اپنے مقصد میں کبھی کامیاب نہیں ہو سکتے” اسی طرح 28 مئی 1937 کو کو قائد اعظم کے نام ایک اور خط میں لکھتے ہیں ”سوال یہ ہے کہ مسلمانوں کی غربت کے مسئلے کو حل کیا جائے مسلم لیگ کا مستقبل اسی پر منحصر ہے خوش قسمتی یہ کہ اسلامی شریعت کے کسی موزوں شکل میں نفاذ کے ذریعے اس مسئلے کو حل کیا جا سکتا ہے اسلامی شریعت کے گہرے اور دقیق مطالعہ اور طویل غور و فکر کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ معاشی مسئلے کا حل صرف اسلامی آئین کا نفاذ ہے اگر اس طرز آئین کو کماحقہ سمجھ کر نافذ کر دیا جائے تو کم از کم ہر ایک کا حق معیشت محفوظ ہو سکتا ہے لیکن اس ملک میں جب تک ایک آزاد مسلم ریاست یا مسلم ریاستیں مرض وجود میں نہیں آئیں گے اسلامی شریعت کا نفاذ ممکن نہیں ہو سکتا سال ہا سال سے میرا یہ عقیدہ ہے اور میں اب بھی اس کو مسلمانوں کی روٹی اور ہندوستان کے امن و امان بہترین حل سوچتا ہوں کہ مسلمان ایک الگ ریاست کا عمل کرے اور اس میں اسلامی شریعت کو نافذ کر دیا جائے ”علامہ اقبال اس مغربی جمھوریت کی بھی نفی کرتے دیکھائی دیتے ہیں جس میں سرے سے سرمایہ دار طبقہ ہی حصہ لے سکتا ہے وہ اسے سرمایہ داروں کی ایک چال کہتے ہیں فرماتے ہیں کیا تو نے دیکھا نہیں مغرب کا جمہوری نظام چہر ہ روشن اندروں چنگیز ہے تاریک تر (ارمغان حجاز) ہے وہی ساز کہن مغرب کا جمہوری نظام جس کے پروں میں نہیں غیر از نوائے قیصری (بال جبریل) یہ تو مصور پاکستان کا پاکستان تھا اب ذرا بانی پاکستان یا اس خواب کو حقیقی رنگ و روپ میں ڈھالنے والی شخصیت کے اس بارے میں کیا خیالات ہیں وہ اس کو کیسا دیکھنا چاہتے تھے وہ اس کا نظام کیسا دیکھنا چاہتے تھے جون 1945ء میں فرینڈ مسلم اسٹوڈنٹس کے نام اپنے پیغام میں قائد اعظم محمد علی جناح نے فرمایا”ہم نے اس قابل بننا ہے کہ اپنی آزادی کی حفاظت کرسکیں اور اسلامی تصورات اور اصولوں کے مطابق زندگی بسر کرسکیں اس ملک کے آئین وقانون کے متعلق سوال کیا گیا تو آپ نے ایک بار نہیں درجنوں بار فرمایا تھا کہ ”ہمیں کسی نئے دستور کی کیا ضرورت ہے،ہمارا دستور تو 14سوسال قبل بن چکا ہے ہمارا دستور وہی ہے جو اللہ اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قرآن و سنت کی صورت میں ہمیں عطا کیا ہے ہم دنیا کیلئے پاکستان کو ایک مینارہ نور ماڈل فلاحی ریاست اور اسلام کی تجربہ گاہ بنائیں گے” پاکستان کے قیام کے بعد 1948ء میں قائد اعظم نے پاکستان کو دنیا کی ایک عظیم اسلامی
مملکت بنانے کا دوٹوک اور واضح اعلان کرتے ہوئے فرمایا کہ ”اگر خدا نے مجھے توفیق بخشی تو میں دنیا کو دکھادوں گا کہ اسلامی اصولوں پر عمل پیرا ہو کر پاکستان پوری دنیا کے لئے مشعل راہ بنے گا” جب پاکستان معرض وجود میں آگیا تو آپ نے تمام دوستیوں تعلقات رشتہ داریوں سے بالا ہو کر اپنی پہلی کابینہ صرف اور صرف میرٹ پر دس افراد کی تشکیل دی تاکہ خزانے پر بوجھ نہ پڑے اور رات کو خود گورنر جنرل ہاؤس کی فالتو بتیاں بند کیا کرتے تھے قائداعظم نے اپنی حکومت کے ایک سال کے دوران مثالی گورننس کا عملی نمونہ پیش کیا بیوروکریٹس کو باور کرایا کہ وہ عوام کے حاکم نہیں بلکہ خادم ہیں وہ سیاست سے الگ تھلگ رہیں عوام کے مسائل کو برداشت کے ساتھ سنیں اقربا پروری اور رشوت ستانی سے گریز کریں اپنے فرائض انتہائی احساس وفاداری دیانت راست بازی لگن اور وفا شعاری کے ساتھ انجام دیں تاکہ اپنے اللہ کی بارگاہ میں سرخرو ہو سکیں فوج کو انتباہ کیا کہ وہ سیاست سے الگ تھلگ رہیں قائد اعظم نے آئین اور قانون کی حکمرانی کی شاندار مثال پیش کی انہوں نے ریلوے کی ٹرین کے گزرنے کا انتظار کیا اور ریلوے کا پھاٹک کھلوا کر آگے جانے سے انکار کر دیا ہمارا قائد اتنا اصول پسند تھا ہم نے دونوں کی تعلیمات سے انحراف کیا اسی لیے ہمیں آزادی حاصل کیے پچھتر سال ہو گئے لیکن ہم ترقی کی بجائے تنزلی کی طرف جارہے ہیں ہمارے ملک کے مصور اور معمار تو اس کو ایک اسلامی فلاحی ریاست بنانا چاہتے تھے وہ ملک میں اسلامی نظام کو ہی کامیابی و کامرانی کی ضمانت سمجھتے تھے لیکن ہمارے حکمرانوں نے اس کو چوں چوں کا مربہ بنا دیا ہے نہ اسلامی نہ سیکولر اگرہم سیدھی راہ اپنانا چاہتے ہیں اگر ہم آگے بڑھنا چاہتے ہیں اگر ہم ترقی چاہتے ہیں اگر ہم دنیا میں اپنا ایک مقام دیکھنا چاہتے ہیں اگر ہم اقوام عالم میں ایک مقام چاہتے ہیں تو ہمیں اقبال و قائد کے اصولوں کو اپنانا ہو گا ان کے بتائے ہوئے راستے پر چل کر آگے بڑھنا ہو گا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں