اقبالیات(منصور ظہور)

در شریعت معنی دیگر مجو
غیر ضو درباطن گوہر مجو
ایں گہر راخود خدا گوہر گراست
ظاہرش‘گوہر بطونش گوہر است‘ علم حق غیرازشریعت ہیچ نیست
اصل سنت جز محبت ہیچ نیست
فرد را شرع است مرقاتِ یقیں
پختہ تراز وے مقاماتِ یقین
تشریح۔شریعت میں کوئی دوسرے معنی تلاش نہ کرموتی کے اندر چمک دمک اور روشنی کے سوا کچھ اورمت ڈھونڈ شریعت ایسا موتی ہے جسے بنانے والی ذات خود اللہ تعالی کی ہے۔اس کا ظاہر بھی موتی ہے اس کا باطن بھی موتی ہے۔یہ جو شریعت طریقت حقیقت اور معرفت کی اصطلاحیں وضع کی گئی ہیں ان کی کوئی حیثیت نہیں۔واضح رہے علم حق شریعت کے سوا کچھ نہیں۔شریعت وہی ہے جو اللہ تعالیٰ کے حکم سے رسول اللہ نے انسانوں تک پہنچائی۔اور تجھے معلوم ہے سنت کی اصلیت کیا ہے؟محض اللہ اور اس کے رسولؐ پاک کے حکم وعمل سے محبت جو شخص اللہ تعالی کی مقرر کی ہوئی شریعت اور رسول اللہ کی سنت کے لیے جزب وکشش اپنے اندر نہیں رکھتا،اس کی زبان سے دعوی محبت جھوٹا سمجھا جائے گا۔رسول اللہ کی پیروی کا درجہ اتنا بلند ہے کہ اللہ تعالی نے قرآن میں فرمایا: رسولؐ کی پیروی خدا کی محبت کا وسیلہ ہے۔فرد کے لیے شریعت ایسا زینہ ہے جو اسے یقین کی بلندی پر پہنچا دے گا۔شریعت ہی کی پیروی سے یقین کے مقامات پختہ اور مستحکم ہوتے ہیں۔
تاشعار مصطفیؐ از دست رفت
قوم را رمزِ بقا از دست رفت
آں نہال سربلند و استوار
مسلم صحرائی اشتر سوار
پائے تادر وادی بطحا گرفت
تربیت از گرمی صحرا گرفت
آں چناں کا ہید ازبادِ عجم
ہی چو نے گردید ازباد عجم
تشریح۔جب سے قوم سے رسول اللہ کی سنت کا دامن ہاتھ سے چھوٹا ہے وہ بقا کی حقیقت اور بھید سے ناآشنا ہوگئی۔صحرا میں رہنے اور اونٹ پر سوار ہونے والا مسلمان ایک بلند اور پائیدار درخت کی طرح تھا۔اس نے وادی بطحا میں جڑ پکڑی اور صحرا کی گرم آب وہوا میں نشوونما پائی۔افسوس کے عجم کی ہوا نے اس سے قوت چھین لی۔ جب تک مسلمان عربی طور طریقوں اور اسلامی شیووں پر کاربند تھے‘انہیں دنیا بھر میں سربلندی حاصل تھی لیکن جب عجمیوں کے طور طریقے اختیار کر لیے، ان میں سختیاں برداشت کرنے کی قوت نہ رہی تو ان کی پہلی حیثیت زائل ہوگئی اور خود لے کی طرح کمزور اور بے طاقت ہوکر رہ گئے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں