افغان قیادت کو قریب لانے کیلئے سنجیدہ کوششیں ہونی چاہییں

ضیاء الرحمن ضیاء/چند روز قبل وزیراعظم عمران خان نے اپنا پہلا دورہ افغانستان کیاجس میں انہوں نے افغان قیادت بالخصوص صدر اشرف غنی سے سے ملاقاتیں کیں۔ صدر غنی نے کابل میں صدارتی محل میں وزیراعظم عمران خان کا پرجوش استقبال کیا، اس دورے میں وزیر اعظم عمران خان اور صدر اشرف غنی نے باہمی تعلقات کو بہتر اور مضبوط کرنے پر زور دیا۔ دونوں رہنماؤں نے ایک مشترکہ پریس کانفرس کی جس میں وزیر اعظم عمران خان نے کہا کہ میں نے یہ دورہ اس وقت کیا ہے جب افغانستان میں تشدد میں اضافہ ہوا ہے۔ ہم اس دورے سے یہ پیغام دینا چاہتے ہیں کہ پاکستان کی حکومت اور عوام افغانستان میں امن کی بحالی کے بارے میں سنجیدہ ہیں۔ اگر افغانستان کو لگتا ہے کہ ہم کسی بھی محاذ پر امن کی بحالی میں اس کی مدد کر سکتے ہیں تو ہم بلا جھجک پوچھیں گے کیونکہ پاکستان بھی افغانستان میں ہونے والے تشدد سے بری طرح متاثر ہے۔ وزیراعظم عمران خان کا یہ دورہ اس حوالے سے نہایت اہمیت کا حامل ہے کہ پاکستان حالیہ دنوں بھارت کی طرف سے افغان سرزمین کو اپنے خلاف استعمال کرنے کے ٹھوس شواہددنیا کے سامنے لا چکا ہے۔ اس سے قبل بھی پاکستان نے بھارت پر یہ الزامات عائد کیے ہیں کہ وہ افغانستان کی سرزمین کو پاکستان کے خلاف استعما ل کر رہا ہے اور اس کے ناقابل تردید ثبوت بھی پیش کیے ہیں۔ افغانستان کے بہت سے شہروں میں بھارت کے کونسل خانے موجود ہیں جن کی چنداں ضرورت نہیں ہے یہ کونسل خانے دہشتگردی کے اڈے ہیں۔ انہی کونسل خانوں کے ذریعے بھارت پاکستان میں دہشت گردوں کی کاروائیوں پر نظر رکھے ہوئے ہے اور وہاں سے کبھی دہشتگرد تنظیموں اور کبھی علیحدگی پسند گروہوں کی امداد کرتا رہتاہے۔ پاکستان میں ہونے والے دہشتگردی کے واقعات میں بھارت کا ہاتھ رہا جن کے لیے اس نے افغان سرزمین کو استعمال کیا، اس بات کا اعتراف پاکستان میں وقتاً فوقتا گرفتار ہونے والے بھارتی جاسوسوں نے خود کیا۔ اس کے باوجود بھارت انکار کرتا رہتا ہے اور اپنی کاروائیوں سے باز بھی نہیں آتا۔ کئی بار پاک افغان سرحد پر افغانستان کی سرزمین سے پاکستانی فوجیوں پر حملے ہوئے جن میں ہمارے کئی سپاہی شہید ہو چکے ہیں اور یقینا ان حملوں میں افغانستان کا کوئی فائدہ نہیں بلکہ بھارت ہی اپنے عزائم کی تکمیل کے لیے ایسے حملے کراتا رہتا ہے۔ بھارت افغانستان کو اپنے قریب لانے کے لیے کئی طرح کے ہتھکنڈے استعمال کر چکا ہے۔ اپنے ملک میں بھوک اور غربت کے باوجود افغانستان میں سرمایہ کاری کے نام سے رقم خرچ کر رہا ہے جبکہ بھارتی قیادت بھی اچھی طرح جانتی ہے کہ انہیں افغانستان سے کچھ بھی ملنے والا نہیں ہے۔ لیکن وہ پاکستان کے ساتھ دشمنی نبھانے اورپاکستان کو نقصان پہنچانے کے لیے افغان سرزمین کے استعمال کی خاطر یہ سب کچھ کر رہے ہیں۔ پاکستان کے راستے افغانستان میں تجارت کی آزادی کے باوجود بھارت ایران کا راستہ استعمال کرتارہتاہے اور ایرانی بندرگاہوں سے افغانستان تک شاہراہوں کی تعمیر کا ناکام اور انتہائی نامناسب عزم رکھتا ہے تاکہ دنیا کو یہ باور کرایا جا سکے کہ اسے پاکستان کے ذریعے افغانستان میں تجارت کی آزادی حاصل نہیں ہے۔ بھارتی قیادت افغانستان سے دوری کے باوجود اس کے ساتھ بہتر تعلقات رکھتی ہے جبکہ پاکستان ہمسایہ ملک ہونے کے باوجود افغانستان سے ہمیشہ دور رہا۔ پاکستان افغانستان دونوں نہ صرف ہمسایہ ممالک ہیں بلکہ ان کے اور بھی کئی طرح کے رشتے ہیں مثلا مذہبی لحاظ سے دیکھا جائے تو دونوں ممالک کا سرکاری مذہب اسلام ہے اور دونوں ممالک میں مسلمان غالب اکثریت میں آباد ہیں، اسی طرح زبان اور قوم کی بات کی جائے تو دونوں ممالک میں پشتو بولنے والوں کی کثیر تعداد موجود ہے جو ایک دوسرے کے ساتھ گہرا لگاؤ رکھتے ہیں جبکہ بھارت کے ساتھ افغانستان کا ایسا کوئی رشتہ نہیں، نہ دونوں ہمسایہ ممالک ہیں اور نہ ہی مذہبی، قومی و لسانی تعلقات ہیں اس کے باوجود افغانستان بھارت کے زیادہ قریب اس لیے ہے کہ بھارتی قیادت نے اس کے لیے انتھک کوشش کی۔ دوسری طرف پاکستانی قیادت کا یہ حال ہے کہ وہ افغانستان میں قائم ہونے والی ہر حکومت کے ساتھ تعلقات نہیں رکھتی۔ وزیر اعظم پاکستان کا اپنی حکومت قائم ہونے کے تقریباً اڑھائی سال بعد یہ افغانستان کا پہلا دورہ ہے، انہوں نے دور دراز ممالک کے لاتعداد دورے کیے لیکن ہمسایہ ملک افغانستان کا انہوں نے اس سے پہلے کوئی دورہ نہیں کیا اور یہ دورہ بھی افغان صدر کی دعوت پر کیا ہے یعنی اگر افغان صدر دعوت نہ دیتے تو شاید پورے پانچ سالہ دور حکومت میں وہ افغانستان کا ایک دورہ بھی نہ کرتے۔ لہٰذا پاکستانی قیادت کو یہ بات سمجھنی چاہیے کہ افغانستان پاکستان کے لیے نہایت اہم ہے، اسے اپنے قریب کرنے کی ہرممکن کوشش کرنی چاہیے تاکہ وہ بھارت سے دور رہے اور پاکستان کے ساتھ اس کے اچھے تعلقات قائم رہیں۔ افغانستان میں امن ہو تو پاکستان میں امن ہوتاہے اور اگر افغانستان میں حالات خراب ہوں تو پاکستان براہ راست ان سے متاثرہوتاہے۔ اس لیے اگر افغان قیادت سے تعلقات بہتر ہوں تو وہ کسی دوسرے ملک کو اپنی سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال نہیں ہونے دیں گے اور پاکستان میں دہشتگردی و تخریب کاری کی کاروائیوں میں کمی واقع ہو گی اور اگر ہم افغانستان کے ساتھ تعلقات بہتر کرنے میں سستی کا مظاہرہ کریں گے تو ظاہر ہے وہ اسی ملک کے قریب ہو جائیں گے جو ان کے ساتھ تعلقات بہتر کرنے کی کوشش کرے گا اور بھارت اس میں سرفہرست ہے لہٰذا وہ اس کے مفاد کے لیے کام بھی کریں گے جیسے ابھی ہو رہا ہے کہ بھارت کھل کر افغان سرزمین پاکستان کے خلاف استعما ل کر رہا ہے۔ ایسے حالات کسی بھی طرح پاکستان کے موافق نہیں ہوں گے اور ہم نقصان اٹھاتے رہیں گے۔ اس لیے افغان قیادت کو قریب لانے کے لیے سنجیدہ کوششیں کرنی چاہیئیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں