افغان شہریوں کی واپسی‘ایک عہد کا خاتمہ

راجہ طاہر محمود
پاکستان اور افغانستان کے تعلقات کی تاریخ صدیوں پر محیط ہے۔ روس کے افغانستان پر حملے کے بعد جب افغانستان میں حالات خراب ہوئے تو لاکھوں افغان شہری اپنی جانیں بچانے کے لیے پاکستان کے مختلف علاقوں کا رخ کرنے پر مجبور ہوئے۔ ان ہی دنوں میں گوجرخان، کلر سیداں، کہوٹہ، چک بیلی خان، روات، اور دیگر قصبے افغان پناہ گزینوں کے لیے ایک محفوظ ٹھکانہ بن گئے۔

پاکستانی عوام نے کشادہ دلی اور بھائی چارے کے جذبے کے ساتھ ان کا خیرمقدم کیا۔ ان چار دہائیوں میں افغان باشندے مقامی زندگی کا حصہ بن گئے، کاروبار قائم کیے، جائیدادیں خریدیں، شادیاں کیں، اور ایک طرح سے دونوں قوموں کے درمیان انسانی رشتوں کی ایک مضبوط زنجیر بن گئی۔اب جبکہ حکومتِ پاکستان کی جانب سے افغان شہریوں کی واپسی کا سلسلہ تیزی سے جاری ہے، تو ایک عہد ختم ہوتا دکھائی دیتا ہے۔

پوٹھوار کے مختلف علاقوں سے لے کر گجرخان، کلر سیداں، روات، چک بیلی خان اور کہوٹہ سے افغان خاندانوں کا قافلہ اپنے وطن کی جانب رواں دواں ہے۔ یہ منظر ایک طرف حکومتی پالیسی کا تقاضا ہے، تو دوسری جانب انسانی احساسات کو بھی جھنجھوڑ دیتا ہے۔ چار دہائیوں سے جو بچے یہاں پیدا ہوئے، جنہوں نے اردو بولنا سیکھا، پاکستانی کلچر اپنایا، اور جن کی روزی روٹی اسی دھرتی سے وابستہ تھی، ان کے لیے واپسی ایک جذباتی جدائی کی مانند ہے۔ یہ بات قابلِ تحسین ہے کہ حکومتِ پاکستان اور ضلعی انتظامیہ نے اس سلسلے میں قانون پر سختی سے عملدرآمد شروع کر رکھا ہے۔

کلر سیداں، گوجرخان، روات اور میں پولیس اور دیگر اداروں کی جانب سے افغان باشندوں کے اندراج، غیر قانونی قیام اور جعلی دستاویزات کی چھان بین کے لیے موثر اقدامات کیے جا رہے ہیں۔ ان علاقوں میں ایس ایچ اوز کو واضح ہدایات دی گئی ہیں کہ کوئی بھی شہری کسی غیر ملکی یا افغان باشندے کو مکان، دکان یا پلاٹ کرائے پر نہ دے۔تاہم اس سارے عمل میں ایک سوال اب بھی موجود ہے کیا کارروائی واقعی بلا تفریق ہو رہی ہے؟ زمینی حقائق بتاتے ہیں کہ جہاں غریب اور متوسط طبقے کے افغان شہریوں کے خلاف کارروائیاں جاری ہیں، وہیں وہ افغان افراد جو بااثر شخصیات، سیاستدانوں یا بڑے کاروباری حلقوں کی سرپرستی میں رہ رہے ہیں، انہیں اب تک کسی بڑی مزاحمت کا سامنا نہیں۔

اگر ریاست نے فیصلہ کر لیا ہے کہ تمام غیر قانونی افغان شہریوں کو واپس بھیجنا ہے تو یہ عمل شفاف اور غیر جانبدار ہونا چاہیے۔ قانون سب کے لیے برابر ہے، خواہ وہ کسی کے زیرِ سایہ کیوں نہ ہو۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ پاکستان نے دنیا کی تاریخ میں سب سے طویل عرصے تک لاکھوں مہاجرین کو پناہ دی۔ اقوامِ متحدہ اور عالمی برادری نے بارہا اس جذبے کی تعریف کی، لیکن اب جب ملکی معیشت دباؤ میں ہے، سکیورٹی خدشات بڑھ رہے ہیں، اور روزگار کے مواقع محدود ہیں، تو حکومت کا یہ اقدام قومی مفاد میں سمجھا جا سکتا ہے۔ تاہم، ہمیں اس انسانی پہلو کو فراموش نہیں کرنا چاہیے۔

راولپنڈی ڈویژن کے مختلف علاقوں میں افغان شہریوں کی واپسی کے دوران مقامی عوام کا رویہ بھی قابلِ ذکر ہے۔ کئی مقامات پر پاکستانی شہریوں نے ان خاندانوں کو الوداع کہا، ان کے لیے کھانا تیار کیا، اور بچوں کو کپڑے اور تحائف دیے۔ یہ منظر اس بات کا ثبوت ہے کہ پاکستانی عوام میں انسانیت اور بھائی چارے کی روح اب بھی زندہ ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومتِ پاکستان افغان باشندوں کی واپسی کے عمل کو مربوط اور منظم انداز میں مکمل کرے۔ ان کے جانے کے بعد خالی ہونے والے گھروں اور جائیدادوں کی نگرانی کی جائے تاکہ کوئی جرائم پیشہ عنصر ان جگہوں کا غلط استعمال نہ کر سکے۔ اسی طرح، جو افغان خاندان قانونی حیثیت رکھتے ہیں، یا جن کے بچے یہاں پیدا ہو کر تعلیم حاصل کر رہے ہیں، ان کے لیے خصوصی حکمتِ عملی اختیار کی جائے تاکہ انسانی حقوق کا خیال رکھا جا سکے۔پاکستان نے اپنے حصے کا فرض بخوبی ادا کیا۔ اب وقت آ گیا ہے کہ افغانستان بھی اپنے شہریوں کو گلے لگائے اور انہیں بحالی کے بہتر مواقع فراہم کرے