افغانستان کے مسائل اور امت مسلمہ کی ذمہ داری

افغانستان میں پندرہ اگست کو طالبان کی حکومت کے قیام کے بعد وہاں کے حالات نہایت ابتر ہیں۔ اس سے قبل امریکہ اور نیٹو افواج کی موجودگی کے دوران بھی وہاں کے حالات زیادہ اچھے نہیں تھے لیکن اسے میڈیا کے سامنے اتنا اجاگر نہیں کیا جاتا تھا کیونکہ اس میں امریکہ اور اس کے حواریوں کی بدنامی تھی۔ وہ اس وقت وہاں سب اچھا ہے کا راگ الاپتے تھے جبکہ سبھی جانتے ہیں کہ وہاں اس وقت کیا کتنا اچھا تھا۔ جب سے افغانستان میں طالبان کی حکومت قائم ہوئی تو میڈیا پر یہی دکھایا جا رہا ہے کہ افغان عوام نہایت دگرگوں حالات سے گز ر رہے ہیں، ٹھیک ہے وہاں کے حالات اچھے نہیں ہیں لیکن وہ صرف طالبان حکومت کی وجہ سے نہیں بلکہ بیس سالہ امریکی اور دس سالہ روسی جنگ کی وجہ سے ہے۔ جنگ کے بعد اگر افغانستا ن کے حالات اتنے خراب ہیں تو خود ہی اندازہ لگا لیں کہ جنگ کے دوران اس کی کیا حالت ہو گی؟ کیونکہ جنگ تو اچھے اچھے ترقی یافتہ اور کھاتے پیتے ممالک کا بھرکس نکال دیتی ہے تو جس ملک کے وسائل پہلے ہی نہ ہونے کے برابر تھے اوپر سے انہوں نے ابھی تازہ تازہ روسی جنگ سے خلاصی پائی تھی وہ اپنے پاؤں پر کھڑے ہونے کی کوشش کر ہی رہے تھے کہ آپ نے بیس سالہ جنگ ان پر مسلط کر دی تو اس صورت میں یہ کہنا کہ وہاں جنگ کے دوران حالات بہتر تھے اور جنگ کے بعد طالبان حکومت کی وجہ سے حالات خراب ہیں انتہائی بے وقوفی ہے یا دوسروں کو بے وقوف بنانے کی کوشش ہے۔ 
افغانستان میں جنگ کی وجہ سے حالات بہت خراب ہیں اوپر سے امریکہ نے بھی ان کے اثاثے منجمد کر رکھے ہیں۔ یعنی امریکہ ایک ایسی قوم کے پیسے کھانا چاہتا ہے جو اس وقت نہایت مفلسی کی حالت میں ہے اور اس مفلسی کی براہ راست اور پوری کی پوری ذمہ داری امریکہ پر ہے۔ بجائے اس کے کہ وہ اپنی طرف سے بھی مال خرچ کر کے اس قوم کی بحالی میں اپنا کردار ادا کریں اور اپنی غلطیوں کا ازالہ کریں وہ ان کے اپنے پیسے بھی ہڑپ کرنے کے چکر میں ہیں۔ جب آپ نے خود طالبان کے ساتھ مذاکرات کیے اور حکومت ان کے حوالے کی، کیونکہ امریکہ کی طالبان کی پیش قدمی کے سامنے عدم مزاحمت یہی بتاتی ہے کہ امریکہ خود بھی یہی چاہتا تھا کہ ہمیں بھاگنے کے لیے صاف راستہ مل جائے باقی چاہے طالبان افغانستان پر قبضہ کر لیں اسے اس سے کوئی سروکار نہیں تھا۔ اب وہ دنیا کے سامنے طالبان کے خلاف ہیں لیکن حقیقت میں انہیں اب افغانستان کے مسائل اور وہاں کی حکومت میں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ 
امریکہ کی ہٹ دھرمی کی وجہ سے افغانیوں کے لیے بہت سے مسائل پیدا ہو چکے ہیں۔ ان کی معاشی حالت نہایت ابتر ہے، کاروباری افراد کے کاروبار تباہ ہو رہے ہیں، ملازمین کو تنخواہیں نہیں مل رہیں، امن و امان کی صورتحال اگرچہ پہلے سے بہت بہتر ہے لیکن ابھی بھی جنگ کے اثرات باقی ہیں۔ حکومت بھی ان لوگوں کی قائم ہوئی ہے جو بیس سال حالت جنگ میں رہے، اس کے باوجودانہوں نے کافی حد تک بحرانوں پر قابو پا لیا ہے۔ وہ اپنی بساط کے مطابق افغانستان کی ترقی اور عوام کی فلاح کے لیے ہر ممکن کوشش کر رہے ہیں لیکن جب پوری دنیا اور بالخصوص امریکہ جیسے عالمی ٹھیکیدار ہی ان کے پیسے کھا جانے پر تلے ہوں اور دیگر کوئی ملک بھی ان کا ساتھ دینے پر راضی نہ ہو تو وہ کیسے حالات کا مقابلہ کرسکتے ہیں اور کیسے عوام کو ریلیف دیں۔
 غیر مسلموں سے کیا شکوہ کریں اپنے اسلامی ممالک ہی افغانستان کو ابھی تک تسلیم کرنے سے ہچکچا رہے ہیں، کھل کر طالبان حکومت

کی مدد نہیں کر رہے۔پاکستانی حکومت گزشتہ تین ماہ سے طالبان حکومت کے ساتھ کھڑی ہے اور عالمی برابری پر مسلسل زور دے رہی ہے کہ وہ افغانوں کو ان کا جائز حق دیں اور وہاں کے مسائل کو حل کرنے میں دلچسپی لیں، وہاں کسی بھی بڑے بحران کے پیدا ہونے سے پہلے ذرا ہوش کے ناخن لیں۔ مگر عالمی برادری ہمیشہ کی طرح اس مسئلے پر عدم دلچسپی کا اظہارکر رہی ہے۔ افغانستان کے عوام نہایت پریشانی اور بے سروسامانی کے عالم میں ہیں، عوام نے خود احتجاج کیے اور امریکہ سے ان کے منجمد اثاثے بحال کرنے کا مطالبہ کیا ہے مگر امریکہ ٹس سے مس نہیں ہوتا۔ اور تو اور اقوام متحدہ کے کہنے پر بھی امریکہ نے ان کے اثاثے بحال نہیں کیے۔
اسلامی ممالک میں اگر دینی حمیت اور غیرت ہو تو خود بھی اس مسئلے کو اچھی طرح اور باآسانی حل کر سکتے ہیں۔ افغانوں کو امریکہ اور اس کی امدادوں کی ضرورت ہی نہ رہے، وہ سب سے پہلے تو بلا خوف و خطر طالبان کی حکومت کو تسلیم کریں اور ان کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کریں۔ پاکستان نے اگرچہ کسی حد تک سفارتی تعلقات قائم کر لیے ہیں گزشتہ ماہ پاکستان کے وزیرخارجہ نے کابل کا دورہ کیا اور رواں ماہ افغانستان کے عبوری وزیر خارجہ نے پاکستان کا دورہ کیا، سفارتخانہ اور قونصل خانے بھی بحال کر دیے ہیں لیکن ابھی تک پاکستان نے باقاعدہ طور پر طالبان کی حکومت کو تسلیم نہیں کیا۔ بہر حال تمام اسلامی ممالک سفارتی تعلقات قائم کرنے کے بعد ان کی امداد بھی کریں اور افغانستان میں سرمایہ کاری بھی کریں، وہاں کے وسائل سے فائدہ اٹھائیں، وہاں مختلف قسم کی صنعتیں قائم کریں اور افغانستان کے محنت کش عوام کو روزگار فراہم کریں۔تمام ترقی یافتہ اسلامی ممالک مل کر افغانستان کو ترقی دینے کے لیے عزم کر لیں تو افغانستان کو آگے بڑھنے اور وہاں کے حالات بہتر ہونے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ یہ ویسے تو پوری دنیا کی اخلاقی ذمہ داری ہے لیکن اسلامی ممالک کا یہ مذہبی فریضہ ہے اور وحدت امت مسلمہ کا تقاضہ بے

اپنا تبصرہ بھیجیں