افطاریاں فیشن بن گئیں

رمضان المبارک اپنے آخری عشرہ میں داخل ہوچکا ہے۔لیکن اکثر مقامات پر عشاء کے وقت مساجد خالی دیکھائی دے رہی ہیں۔عام طور پر یہ بات کی جاتی ہے کہ باقی مہینوں کی نسبت رمضان المبارک میں مساجد میں رش پایا جاتا ہے لیکن دو چار سالوں سے یہ بات سچ ثابت نہیں ہو رہی بلکہ عشاء کے وقت مساجد خالی ہوتی ہیں۔ یہ رش مغرب میں ہی دیکھائی دیتا ہے۔حقیقت میں نماز تراویح کے ڈر سے فرض نماز کو بھی ضائع کیا جا رہا ہوتا ہے۔افطاریوں پر تو تل دھرنے کی جگہ نہیں ملتی اس مہنگائی کے دور میں بھی مخیر حضرات کی طرف سے بہترین اور اعلیٰ قسم کی افطاریوں کا انتظام کیا جا ارہا ہے۔

لیکن ہمارے بچپن کا کیا دور تھا اس وقت کبھی کبھار اس طرح کی افطاری کرنے کو ملتی تھی۔بڑی شدت کے ساتھ افطاری کی دعوت کا انتظار ہوتا تھا اور آخری عشرے میں اعتکاف کے ساتھ مساجد میں رش ہو جایا کرتا تھا۔لیکن اب منچلے تو صرف افطاری کے وقت ہی مساجد میں پائے جاتے ہیں عشاء کے وقت ایک دم سے غائب ہو جاتے ہیں۔ ایک گھنٹہ کے لیے سست اور اس کے بعد چست و تندرست ہو جاتے ہیں۔مساجد میں صرف بزرگ حضرات ہی دیکھائی دیتے ہیں نوجوان نہ ہونے کے برابر ہوتے ہیں۔اب تو افطاریوں کی دعوت میں اتنی شدت آ گئی ہے

کہ اب تو منچلے صرف اور صرف مٹن والی افطاری کے لیے گشت کرتے ہیں۔پہلے مینیو کا دریافت کیا جاتا ہے اس کے بعد دعوت کو قبول کیا جاتا ہے۔اب تو سیاسی افطاریاں ایک فیشن بن گئی ہیں۔جس میں بڑے اہتمام کے ساتھ شرکت کیا جاتا ہے۔رمضان کا اصل فلسفہ پس پشت چلا گیا ہے اب تو پکوانوں کے ذائقوں کو چیک کیا جاتا ہے۔پہلے تو بازاروں میں عصر کے بعد پکوانوں کے سٹال دیکھائی دیتے تھے لیکن اب صبح سویرے دس بجے ہی سب کچھ تیار ملتا ہے۔اس سے بے روزوں کی حوصلہ شکنی کے بجائے حوصلہ افزائی ہورہی ہوتی ہے۔

احترام رمضان کی کوئی چیز باقی نہیں رہی۔اکثریت نوجوان اپنا روزہ سو کر گزارتے ہیں۔پھر بہترین پکوانوں والی افطاری کی تلاش میں نکل پڑتے ہیں۔ خدارا افطار پارٹیوں میں ضرور شرکت کریں لیکن قیام الیل کے لیے بھی وقت نکالیں امام مساجد آپ کی راہ دیکھ رہے ہوتے ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں