افسانہ نگار سحرش خان

سحرش خان ابھرتی ہوئی افسانہ نگار ہیں جو 12 فروری 1988 کو ٹوبہ ٹیک سنگھ میں پیدا ہوئیں جنہوں نے نہایت ہی کم وقت میں اپنا کافی نام بنالیا ہے۔ آل پاکستان رائیٹرز ویلفئیر ایسوسی ایشن کی فنانس سیکرٹری ہیں اس کے ساتھ ساتھ معلمہ بھی ہیں اور وفاقی ادارے میں شعبہ درس و تدریس سے بھی وابستہ ہیں۔ ایم اے اسلامیات اور بی ایڈ کر چکی ہیں۔ مشہور افسانہ نگار طارق بلوچ صحرائی نے ان کی کتاب محبت خواب اور زندگی کا جو فلیپ لکھا ہے اُس میں سے چند سطور یہاں لکھی جاتی ہیں۔ ادیب اور تخلیق کا ربننابڑے دل اور بڑے ظرف کا کام ہے کیوں کہ تخلیق کار سمندر کی طرح ہوتا ہے۔ جسے نہ چاہتے ہوئے بھی دریاؤں کو اپنے اندر سمونا پڑتا ہے۔ ادیب اس خوبصورت کائنات میں گندگی پھیلانے پر انسان کی شکایت اپنے رب سے کرتا ہے۔ میں اکثر لوگوں کو کہتا ہوں ادیب کی عزت کرو تخلیق کار کا احترام کرو اگر یہ لوگ نہیں ہوں گے تو بے حس معاشرہ جنم لے گا۔ پھر محبت اخلاص، احساس مروت وفا اور قربانی عنقا ہو جائیں گی۔ پھر یہاں ایک سرمایہ دارانہ دجالی معاشرہ تشکیل پائے گا جہاں صرف وہی زندہ رہے گا جو بک سکے گا، وہ بھی اُس بازار میں جہاں روح کو جسم کے بھاؤ خریدا جائے گا اور پھر یہاں ہر شخص اپنی لاش کی بو کے ساتھ زندہ رہے گا۔ ایسے تعفن زدہ معاشروں میں کسی کے پاس اپنوں کو دفنانے کا وقت بھی نہیں ہوتا یہاں کوئی کسی کو یاد نہیں کرتا جہاں یاد کرنے والا نہ ہو وہ زندہ لوگوں کا نگر نہیں ہوتا ویران بستیاں، قبرستان ہوتا ہے۔ اللہ ہمیں ایسے معاشروں سے بچائے۔سحرش خان جس قبیلے سے تعلق رکھتی ہے وہاں لوگ دستار کو سروں سے زیادہ عزیز رکھتے ہیں اسی لیے جرات اور صداقت اس کی تحریر میں موجود ہے۔ تضادات انسان کو ودیعت کیے جاتے ہیں جو انسان اس سے سمجھوتا نہیں کرتا وہ تخلیق کار بن جاتا ہے اور مجھے خوشی ہے میرے قبیلے کی اس بہادر لڑکی نے ان تضادات سے کوئی سمجھوتا نہیں کیا۔

آج پنڈی پوسٹ نے ان کے ساتھ ایک نشست کا اہتمام کیا۔ سلام دعا اور حال احوال بیان کرلینے کے بعد انھوں نے بتایا کہ میں نے ابتدائی تعلیم ٹو بہ ٹیک سنگھ سے ہی حاصل کی۔ پہلے پہل لکھتی تو زیادہ نہیں تھی۔ مگر پڑھتی بہت تھی کبھی کبھی جب اندر کا لکھاری زیادہ جوش مارتا تھا تو کاغذ قلم سے ناطہ جوڑ لیتی تھی مگر با قاعدہ اشاعت کی طرف 2020 میں آئی اور میری پہلی کہانی 2020 میں ہی دوشیزہ ڈائجسٹ میں شائع ہوئی اور اس وقت یہ میری بہت بڑی کامیابی تھی۔ اب تو تمام معیاری ڈائجسٹس میں لگتی ہیں کہانیاں الحمد اللہ اور ٹی وی کے لیے دوسیریز ایک ٹیلی فلم لکھ چکی ہوں۔آپ کو کسی سئینرکی رہنمائی حاصل رہی ہے؟کا جواب دیتے ہوئے کہا آج کل کے دور میں اپنا استاد خود ہی بننا پڑتا ہے۔ لگن سچی تھی مختلف لوگوں کو پڑھا انٹرنیٹ سے مدد لی اور پھر اپنے اس سفر کو آگے بڑھایا۔ اس لیے کسی خاص شخصیت کا نام نہیں لے سکتی۔زیادہ تر اپنی مدد آپ کے تحت۔ مجھے جب آمد ہوتی ہے تو چالیس بچوں کی جماعت میں بیٹھ کر لکھ لیتی ہوں۔ چاہے کچھ سطور ہی کیوں نالکھوں۔ میری پہلی کتاب دسمبر 2020 میں شائع ہوئی۔ اچھا لکھاری ہونے کے لیے سب سے پہلے اللہ کی عطا ضروری ہے کیونکہ لکھاری بنا نہیں جاتا ہے۔ لکھاری پیدائشی ہوتا ہے، چاہے وہ اپنا لکھا اپنے تک رکھے یا پھر رسالوں جریدوں کی زینت بنائے۔ اچھا لکھاری ہر منظر کو اپنے اندر سمو لیتا ہے اور ہر کردار میں کہانی ڈھونڈ لیتا ہے۔ میں پہلے بھی کہہ چکی ہوں کہ لکھنے سے متعلق جو بھی معاملات ہیں یہ سب لکھاری کے بس کی بات نہیں یہ سب اللہ کی عطا ہے۔ تخلیق کار ہوتا ہے بنا نہیں جاتا۔ پہلے تو نہیں لیکن اب کچھ کہانیاں لکھ کر مختلف رسائل میں بھیج رکھی ہیں۔ ان شاء اللہ جلدشائع بھی ہوجائیں گیں۔ سب لوگ بہت عزت اور پیار دیتے ہیں اور اللہ کا شکر ہے کہ اس دورمیں بھی ادب سے محبت کرنے والے موجود ہیں اور ادیب کو قدرکی نگاہ سے دیکھتے ہیں آج کل ادب خوب ترقی کی راہ پر گامزن ہے اور بے شمار لکھنے والے ادب کے لیے بہت اچھا اور معیاری کام کر رہے ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں