افتخار وارثی اور شوکت بھٹی سے ڈبل گیم

طالب آرائیں/کچھ لوگ ہاتھوں کی کھاتے ہیں تو کچھ لوگ صرف باتوں کی جو الٹی سیدھی تدبیروں سے تقدیر بنانے کا گر آزماتے رہتے ہیں۔انسان خوبصورت اور عجیب وغریب عادات کا مجموعہ ہوتا ہے کبھی کسی عادت کی بدولت کامیابی کے زینے عبور کر لیتا ہے تو کبھی کسی عادت کے باعث ہمیشہ زندگی کی آخری قطار میں کھڑا نظر آتا ہے سمجھنا چاہیے کہ زمین کو فتح کرنے اور دل فتح کرنے میں زمین آسمان کا فرق ہے۔انسان لاشعوری طور پر ایک اسٹیج پر آکر اپنی ذات پر غور وفکر کرتا ہے تو گذرے ایام کے تلخ وشریں لمحات کچوے لگاتے ہیں کہ وقت پر درست فیصلے کیوں نہ کرسکا۔لیکن کچھ عناصر غور وفکر سے کہیں دور ماضی کی غلطیوں کو یاد رکھ کر فیصلے کرنے کے بجائے ان کا تسلسل قائم رکھ کر کامیابی کے خواہشمند رہتے ہیں۔گوجرخان مسلم لیگ کی لیڈر شپ 2018 میں اپنی دھڑے بندی کے باعث اپنا سیاسی مقام کھو کر دوڑ میں تیسرے نمبر پر رہی اور یہ گراوٹ ان اکابرین کی انا پرستی مفادات اور خود غرضی کے باعث ہی ہوئی۔ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ الیکشن میں بری طرح شکست کے بعد اس شکست پر غور وفکر کرنے اور اپنی غلطیاں کوتاہیاں دیکھتے ہوئے ان کے ازالے کی کوشش کر کے آئندہ کا لائحہ عمل مرتب کیا جاتا لیکن ہوا کچھ یوں کہ دونوں گروپوں کے کچھ لوگ یہاں سے وہاں اور وہاں سے یہاں جا بیٹھے۔لیکن گروپنگ کے خاتمے کے لیے کسی جانب سے سنجیدہ کوشش نظر نہیں آئی۔ایک جانب کے لوگ افتخار وارثی کے ساتھ تو دوسرے شوکت بھٹی کے ساتھ پینگیں بڑھانے لگے۔لیکن کچھ اطلاعات یہ ہیں کہ دونوں جانب سے بالتریب افتخار وارثی اور شوکت بھٹی کو مبینہ طور پر صرف ان کے ذاتی ووٹ بٹورنے کے لیے مہرے کے طور استعمال کرنے کی پلاننگ ہے۔سیاسی معاملات پرگہری نظر رکھنے والے ذرائع کا خیال ہے کہ الیکشن سے قبل دونوں جانب کے سرخیل اپنے اپنے حلقے میں بہت مضبوط ووٹ بینک رکھنے والے افتخار وارثی اور شوکت بھٹی کو ہمراہ لے کر ان کے ہمدردوں اور سپورٹروں اور ووٹروں سے اپنے رابطے مضبوط بنائے جانے کا پلان ہے اندر خانے اطلاعات کچھ یہ بھی ہیں کہ افتخار وارثی اور شوکت بھٹی کو بائی پاس کرکے آپس میں معاملات طے کیے جارہے ہیں۔دوسری جانب اطلاعات یہ بھی ہیں کہ افتخار وارثی اور شوکت بھٹی کو بھی ان کی بھنک مل چکی ہے اور دونوں بہت محتاط ہوچکے ہیں۔ اگر یہ اطلاعات درست ہیں تو دونوں گروپوں کے رہنماو¿ں کی سیاسی بصیرت پر سوائے افسوس کے کیا کیا جاسکتا ہے کہ وہ ان شخصیات سے گیم کرنے کے خواہشمند ہیں جوخود سیاسی میدان کے بہت منجھے ہوئے گیبملر ہیں۔جس کاثبوت 2018 کے الیکشن کا رزلٹ ہے۔ افتخار وارثی کو جتنا میں سمجھ سکا ہوں وہ محبت دوستی اور مروت میں سر کٹانے پر آمادہ ہو سکتا ہے لیکن دھوکہ اور دغابازی کے ذریعے اس سے جیتنا مشکل ہی نہیں ناممکن ہے۔کیونکہ وہ شخص تو مستقبل کی تصویر کھینچ کر اپنے اہداف کو حیرت میں مبتلا کرنے کا ہنر جانتا ہے اور یہ ہنر کسی اور کے پاس نہیں۔اس لیے مسلم لیگی رہنماوں کے لیے بہتر ہوگا کہ وہ تمام اسٹیک ہولڈز کو آن بورڈ لیں۔ایک نکاتی ایجنڈے پر متفق ہوں محبت‘ایثار اور قربانی کا جذبہ لے کر آگے بڑھیں تو کامیابی یقینی ہے۔لیکن اگر سازشی ذہنیت کے حامل لوگوں کے بہکاوئے میں آکر سیاسی گیبملروں سے گیم کی کوشش کی گئی تو جواب بھی اسی زبان میں ملے گا۔جو کافی نقصان دہ ہو سکتاہے۔اس وقت گوجرخان میں کوئی رہنما خود کو نظریاتی نہیں کہہ سکتا۔کوئی ق لیگ کے دور میں وزیراعظم کا مشیر رہا توکوئی ق لیگ کا ناظم۔کوئی ن لیگ چھوڑ کر ڈاکٹر قدیر کی جماعت کا مرکزی عہدے دار بنا تو کسی نے 2013 میں پارٹی کی پشت میں چھرا گھونپا۔کسی نے 2018 میں بھائی کو لیگ کے مدمقابل آزاد لیکشن لڑوا کر جماعت کے خلاف کام کیا تو کسی نے مضبوط جواز کے ساتھ در پردہ کام کیا۔خود کو نظریاتی اور دوسروں کو دو نمبر مسلم لیگی کہنے والوں نے ہی 2013 کے الیکشن میں مسلم لیگ کی تباہی اور دھڑے بندی کی بنیاد رکھی۔آج وہی لوگ مسلم لیگ کے اتحاد میں رکاوٹ ہیں۔مسلم لیگ کو ایک پلیٹ فارم پر لانے کا کھوکھلا دعویٰ کرنے کے بجائے تمام نامور اکابرین کو ایک جگہ جمع کر کے اس دعوے کا عملی ثبوت بھی دیں۔کیونکہ غلطیوں کااحساس اس وقت کوئی معنی نہیں رکھتا جب ان کی تلافی ممکن نہ ہو اور بس خمیازہ بھگتنے کی گنجائش ہی رہ جاتی ہو۔ نظام کوئی بھی ہو ترتیب تو رکھنی پڑتی ہے مگر جہاں عقلمندی کامظاہرہ کرتے ہوئے ترتیب کو تدبیرسے بگاڑنے کی کوشش کی جاتی ہے وہاں نہ توازن کا احساس‘ملتا ہے نہ انصاف کی نوبت آتی ہے۔من مانی کا عنصر اجتماعی مفاد کا دشمن ہے اور دشمنی سوائے تباہی کے اور کچھ نہیں لاتی اس لیے عقل کے استعمال کی ضرورت ہوتی ہے جب عقل باطن کی گہرائیوں سے ہمکلام ہوتی ہے تو انسان خواہشات سے بالاتر ہو جاتا ہے کیونکہ عقل باتدبیر باوفا اور دانش مند مشیر ہوا کرتی ہے۔لیکن اس مقام تک پہنچنے کے لیے اپنی ذات سے باہر نکل کر سوچنے کی ضرورت ہوتی ہے۔اگر مسلم لیگ کے دونوں دھڑوں کے لوگ اپنے ہی رفقا کو بائی پاس کرکے سیاسی مفادات حاصل کرنے کی سازش رچنے کی کوشش کریں گے تو اس سے بہتر نتائج کی توقع کس طرح کی جاسکتی ہے۔حکومت نے بلدیاتی الیکشن کو فل حال ملتوی کرنے کا اعلان کر دیا ہے اور یہ گوجرخان کے لیگی سیاستدانوں کو ایک موقع ہے کہ وہ اس مہلت سے فائدہ اٹھائیں مل بیٹھیں اور مشترکہ لائحہ عمل پر متفق ہونے کی سبیل نکالیں۔اگرخود کو عقل کل سمجھنے والوں کی مشاورت سے فیصلے کیے جاتے رہے تو نتائج 2018 سے مختلف نہیں ہوں گے کیونکہ افتخار وارثی اور شوکت بھٹی اپنے اپنے حلقے میں بہت بڑا ووٹ بینک رکھتے ہیں اور اپنے پینل کو جتوانے کی صلاحیت رکھتے ہیں اور اس کا ادراک لیگی رہنماو¿ں کو گذرے بلدیاتی الیکشن کے دوران ہوچکا جب گوجر خان کے نظریاتیوں نے بیول یونین کونسل میں اپنے نشان کی مخالفت کرتے ہوئے کھل کر پی ٹی آئی کے پینل کو سپورٹ کیا برادری ازم کو ابھارہ نفرتوں کو فروغ دیا لیکن ان تمام تر ہتھکنڈوں کے باوجودافتخار وارثی کا پینل کامیابی سے ہمکنار ہوا۔افتخاروارثی کی سیاسی سوچ کافی وسیع ہے۔ان کے مخالفین کی سوچ جہاں ختم ہوتی ہے وہاں سے افتخار وارثی کی سوچ شروع ہوتی ہے محبت اور خلوص سے انہیں زیر کیا جاتا سکتا لیکن انہیں بے وقوف بناکر استعمال کرنا بڑی بھول۔۔۔

اپنا تبصرہ بھیجیں