اعتکاف کا مقصود

اعتکاف عربی زبان کا لفظ ہے جسکے معنی ٹھہر جانے اور خود کو روک لینے کے ہیں شریعت اسلامی کی اصطلاح میں اعتکاف رمضان المبارک کے آخری عشرہ میں عبادت کی غرض سے مسجد میں ٹھہرے رہنے کو کہتے ہیں پہلی قومیں بھی اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرنے اور اپنے گناہوں کی توبہ واستغفار کے لیے اعتکاف کیا کرتے تھے اور یہ ان میں ایک معروف عبادت تھی اسی لیے اللہ تعالیٰ حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل علیہما السلام کو تعمیر کعبہ کے بعد انہیں اسے صاف ستھرا رکھنے کی جنکے لیے تلقین فرما رہا ہے

ان میں معتکفین کا بھی ذکر فرمایا اللہ رب العزت نے قرآن مجید میں فرمایا وَإِذْ جَعَلْنَا الْبَیْتَ مَثَابَۃً لِّلنَّاسِ وَأَمْناً وَاتَّخِذُواْ مِن مَّقَامِ إِبْرَاہِیمَ مُصَلًّی وَعَہِدْنَا إِلَی إِبْرَاہِیمَ وَإِسْمَاعِیلَ أَن طَہِّرَا بَیْتِیَ لِلطَّاءِفِینَ وَالْعَاکِفِینَ وَالرُّکَّعِ السُّجُودِ (اور ہم نے ابراہیم اور اسماعیل (علیھما السلام) کو تاکید فرمائی کہ میرے گھر کو طواف کرنے والوں اور اعتکاف کرنے والوں اور رکوع و سجود کرنے والوں کے لئے پاک (صاف) کر دو) جب حضور نبی اکرمؐنے بھی ساری زندگی اعتکاف کر کے اس کو اپنی سنت بنایا سیدہ عائشہ صدیقہؓنے بیان کیا ہے کہ حضرت محمد ؐ رمضان المبارک کے آخری عشرہ میں اعتکاف کیا کرتے تھے یہاں تک کہ آپ ؐ کا وصال ہو گیا

پھر آپ کے بعد آپ کی ازواج مطہرات (بیویاں) بھی اعتکاف کرتی رہیں (متفق علیہ) اسکی فضیلت بھی نبی اکرم ؐ نے بیان فرمائی ہے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ حضور ﷺ کا ارشاد نقل کرتے ہیں جو شخص ایک دن کا اعتکاف بھی اللہ کی رضا کے واسطے کرتا ہے تو حق تعالیٰ شانہٗ اس کے اور جہنم کے درمیان تین خندقیں آڑ فرما دیتے ہیں جن کی مسافت آسمان اور زمین کی مسافت سے بھی زیادہ چوڑی ہے اعتکاف بیٹھنے کی کچھ شرائط ہیں مسلمان ہونا اعتکاف کی نیت کرنا حدث اکبر (یعنی جنابت) اور حیض و نفاس سے پاک ہونا عاقل ہونا مسجد میں اعتکاف کرنا فقہی اعتبار سے اعتکاف کی تین اقسام کی جاتی ہیں

واجب اعتکاف سنت اعتکاف نفل اعتکاف واجب اعتکاف وہ اعتکاف ہے جس کی نذر مانی جائے یعنی زبان سے کہا میں اللہ کے لیے فلاں دن یا اتنے دنوں کا اعتکاف کروں گا تو اب جتنے بھی دن کا کہا ہے اتنے دن اعتکاف کرنا واجب ہو گیا ان دنوں کا روزہ رکھنا بھی معتکف کے لیے شرط ہے یعنی اگر کسی وجہ سے روزہ ٹوٹ گیا تو روزے کے علاوہ اعتکاف کی بھی قضاء لازم ہوگی مسنون اعتکاف رمضان المبارک کے آخری عشرہ کا اعتکاف مسنون ہے اسے فقہی اعتبار سے سنت مؤکدہ علی الکفایہ کہا جاتا ہے یعنی پورے شہر میں کسی ایک نے کر لیا تو سب کی طرف سے ادا ہو جائے گا اور اگر کسی ایک نے بھی نہ کیا تو سبھی گناہ گار ہوں گے نفلی اعتکاف نذر واجب اور سنت مؤکدہ کی شرائط سے ہٹ کر جو اعتکاف کیا جائے وہ نفلی اعتکاف کہلاتا ہے

اسکے لیے روزہ اور وقت کی کوئی قید نہیں ہے جب بھی مسجد میں داخل ہوں اعتکاف کی نیت کر لیجئے اعتکاف کا ثواب ملتا رہے گا جب مسجد سے باہر نکلیں گے تو اعتکاف ختم ہو جائے گا اللہ تعالی نے نسل انسانی پر دو راستے واضح فرما دیے ایک نیکی کا راستہ اور دوسرا بدی کا راستہ نیکی کا راستہ جو اسے اللہ رب العزت کی رضا اور خوشنودی کی طرف لیکر جاتا ہے دوسرا بدی کا راستہ جو شیطان کا راستہ ہے جو اسے گناہ اور برائی کی طرف لیکر جاتا ہے یہ اللہ اور اسکے رسول کی ناراضگی کا سبب بنتا ہے انسان چونکہ نسیان سے بنا ہے

اس لیے وہ اکثر اوقات بھول جاتا ہے جب انسان دنیا میں گھومتا پھرتا ہے اس کی خوبصورتی رعنائی دیکھتا ہے اور وقتی منفعت دیکھ کر اسکے پیچھے چل پڑتا ہے اور چلتے چلتے وہ اتنا اگے چلا جاتا ہے کہ اپنے خالق و مالک اپنے رب کو ہی بھول جاتا ہے یہ کام کاج اسے موقع ہی فراہم نہیں کرتے کہ وہ اپنے رب کے حضور سجدہ ریزہو سکے اپنے رب کو اپنے حقیقی خالق کو منا سکے اپنے گناہوں پر ندامت کے چند آنسوں بھا سکے اسے یہ موقع اعتکاف مہیا کرتا ہے اعتکاف نام ہے دنیا کی رعنائیوں دنیا کی خوبصورتی اپنے مال و متاع اپنے عزیز و اقارب سب سے قطع تعلق ہو کر صرف اور صرف اپنے رب قادر سے لو لگانے کا اعتکاف نام ہے اپنے رب کو منانے کا اعتکاف نام ہے اپنے حقیقی خالق اور مالک حقیقی کی خوشنودی حاصل کرنے کا اعتکاف نام ہے

اپنے گناہوں کی معافی مانگنے کا اعتکاف نام ہے اپنے گناہوں پر ندامت اختیار کرنے کا اعتکاف نام ہے ہر چیز سے کٹ کر صرف اور صرف اپنے اللہ سے باتیں کرنے کا ہر انسان کو اس غرض سے اعتکاف بیٹھنے کی خواہش کرنی چاہیے کہ وہ ایسا اعتکاف بیٹھے جس میں وہ اپنے گناہوں کی معافی ایسے مانگے گا کہ اس کا رب اس سے راضی ہو جائے اور اپنی آنے والی زندگی کو اس کی اطاعت و فرمانبرداری میں بسر کریگا بہتر تو یہ ہے کہ آدمی اللہ کے نیک اور برگزیدہ بندوں کیساتھ اجتماعی اعتکاف کرے تاکہ عبادت وبندگی اور زندگی گزارنے کے رموز سمجھ سکے اسے یہ معلوم ہو کہ اپنے رب کی عبادت وبندگی کیسے کرنی ہے

اس کی رضا و خوشنودی کیسے ملتی ہے اور وہ اپنے رب اور اس کے محبوب حضرت محمد ؐ کی اطاعت اور فرمانبرداری میں اپنی بقیہ زندگی کیسے گزار سکتا ہے یعنی وہ قران و حدیث کے کچھ اسباق ازبر کر لے سیکھ لے سمجھ لے ان کو اپنے پلو سے باندھ لے کہ اس نے اپنی بقیہ زندگی انہی اصولوں انہی ضوابت اسی طریقہ کار کے مطابق بسر کرنی ہے اور یہ سمجھ لے کہ یہی اصول و ضوابط اور طریقہ کار اللہ رب العزت کا بتایا ہوا نیکی کا راستہ ہیں

جب انسان نیکی کے راستے پر چل پڑتا ہے تو پھر اللہ اور اس کے رسول کی خوشنودی بھی حاصل ہو جاتی ہے اور انسان اپنے گناہوں سے بھی بچا رہتا ہے یہی اعتکاف کا مقصود ہے کہ انسان اپنی پہلی زندگی کے گناہوں سے توبہ استغفار کرے اور آنے والی زندگی کو اللہ کے بتائے ہوئے طریقہ کے مطابق گزارنے کا عہد کرکے مسجد سے باہر آئے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں