اصلاح نیت

تحریر:محمد شہزاد نقشبندی /انسانی اعمال دو طرح کے ہوتے ہیں نیک اعمال اور بد اعمال اعمال بد تو ہوتے ہی گناہ ہیں جو سزا اور ناراضگی کے مستحق ہیں اور نیک اعمال اجر و ثواب اور اللہ کے قرب کا باعث لیکن بعض اوقات انسان اپنی دانست میں بظاہر نیک اعمال سر انجام دے رہا ہوتا ہے لیکن اس کے نامہ اعمال میں کچھ بھی نہیں لکھا جا رہا ہوتا وہ خالی کا خالی ہی رہتا ہے کیونکہ اس عمل سے اس کی نیت اللہ کی رضا اور خوشنودی کی بجائے اپنی انا کی تسکین لوگوں کے سامنے اپنے آپ کو اچھا نیک اور پارسا ثابت کرنا ہوتا ہے الذین ہم یراؤن (وہ ریاکاری کرتے ہیں)کے مصداق وہ اس عبادت وبندگی نیکی کا اجر لوگوں میں مقام و مرتبہ نیک نامی کے عوض ضائع کر چکا ہوتا ہے یہ ساری محرومی صرف اور صرف نیت کی خرابی کے باعث ہوتی ہے نیت دل کے مصمم اور پختہ ارادے کا نام ہے یہی دل کا ارادہ انسانی عمل کو خوبصورت خوشنما اور باعث اجر ثواب بھی بناتا ہے اور انسانی عمل کو بدنما بدصورت باعث ندامت و شرمندگی اور باعث عذاب و عتاب بھی اسی چیز کو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک حدیث مبارکہ میں بڑی وضاحت کے ساتھ بیان فرما کر ہماری راہنمائی فرمائی یہ حدیث مبارک تقریبا ہر حدیث کی کتاب میں موجود ہے اور اس کا پہلا حصہ ہر خاص و عام کو ازبر ہے لیکن غور کبھی نہیں کیا حضور رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے (حدیث) یعنی ہر شخص کے عمل کا اجر وہی ہے جس کی اس نے نیت کی نیت اگر اچھی ہے تو اجر وثواب اور بری ہے تو عذاب و عتاب اس حدیث مبارکہ کے اگلے حصہ کو ذکر کرنے سے پہلے اس حدیث مبارکہ کا شان بیان ذکر کر دوں کہ یہ حدیث آقا علیہ الصلاۃ والسلام نے کب اور کیوں ارشاد فرمائی ایک گمنام صحابی نے ایک قبیلہ نامی عورت کو پیغام نکاح بھیجا جوابا اس عورت نے شرط رکھی کہ اگر تم مدینہ منورہ ہجرت کر کے جاؤ گے تو میں تم سے شادی کر لوں گی وہ بھی دیگر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے ساتھ مکہ مکرمہ چھوڑ کر مدینہ منورہ ہجرت کر گئے بعد ازاں وہ صحابی مہاجر ام قیس کے نام سے جانے جاتے تھے صحابہ کرام نے اس بات کا ذکر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے فرما دیا کہ ایک شخص نے عورت سے نکاح کے لیے ہجرت کی ہے(تفصیل نعمۃالباری علامہ سعیدی اور انعام الباری علامہ عثمانی) تب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ ارشاد فرمایا اعمال کا دارومدار صرف نیتوں پر ہے ہر شخص کے عمل کا اجر وہی ہو گا جس کی اس نے نیت کی سو جس شخص کی ہجرت دنیا کی طرف ھو جس کو حاصل کرے یا کسی عورت کی طرف ہو جس سے وہ نکاح کرے تو اس کی ہجرت اسی کی طرف شمار ہوگی جس کی طرف ہجرت کرنے کی نیت کی تھی دوسری حدیث مبارکہ کے اندر الفاظ کچھ مختلف بھی آئے ہیں جس میں فرمایا کہ جس نے اللہ اور اس کے رسول کے لیے ہجرت کی اس کی ہجرت اللہ اور اس کے رسول کے لئے ہے اور جس نے دنیا کو حاصل کرنے کے لئے یا عورت سے نکاح کے لیے ہجرت کی اسکی دنیا یا عورت کے لیے ہے سوچنے کی بات ہے تمام صحابہ نے ایک جیسا ہی عمل کیا مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ کی طرف ہجرت ایک مہاجر ام قیس ٹھرے جبکہ دوسرے مہاجر الی اللہ و الی الرسول فکر والی بات ھے کہ مقام ہجرت ایک سفر ایک جانے کا طریقہ کار ایک لیکن اجر وثواب میں زمین آسمان کا فرق وجہ صرف اور صرف نیت ایک کا مقصد و مدعا نکاح ٹھہرا دوسروں کا مقصود رضائے الہی اور رضائے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اسی فلسفہ کو اللہ تعالیٰ نے ایک قرآنی آیت میں واضح فرمایا کہ اللہ کے حضور تمہاری (قربانی) کا گوشت اور خون پیش نہیں کیا جاتا بلکہ تمہارے دلوں کا تقویٰ پہنچتا ہے(سورہ الحج 37) اس آیت قرآنی اور حدیث مبارکہ نے واضح کردیا کہ ہمارے اعمال کی قبولیت کا مدار ہیت ترکیبی میں نہیں بلکہ دل کا ارادہ اور نیت ہے اس حدیث کا دوسرا فائدہ اس طرح دو شخص نماز کے لیے مسجد میں جاتے ہیں ایک صرف نماز کی نیت سیاور دوسرا متعدد نیتوں کو یکجا کر لیتا ہے کہ راستے میں جو ملے گا سلام کروں گا مسجد میں جتنی دیر بیٹھوں گا اعتکاف کی نیت سے بیٹھوں گا قرآن مجید کی تلاوت کروں گا تو اسے نماز کے ساتھ ساتھ ان متعدد نیتوں کا ثواب بھی ملے گا جبکہ پہلے کو صرف نماز کا حدیث کا تیسرا فائدہ اسی طرح وہ کام جوصرف جائز ہیں کرنے یا نہ کرنے سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے نہ ثواب نہ عذاب جیسے کھانا پینا چلنا سونا وغیرہ یہ سب اعمال ایسے ہیں اگر حسن نیت کے ساتھ انجام دیے جائیں تو اجر و ثواب میں بدل جاتے ہیں جیسے کھانا ایک جائز عمل ہے لیکن اگر آدمی اس نیت سے کھائے کہ اللہ تعالی نے میرے نفس کا حق مجھ پر رکھا ہے اللہ کے رسول کی اتباع میں کھا رہا ہوں بدن میں طاقت آ ئے گی تو اللہ تعالیٰ کی عبادت وبندگی کروں گا اس طرح یہ عمل بھی عبادت اور باعثِ اجر وثواب بن جائے گا قارئین کرام ہمارے سارے اعمال میں اصل چیزحسن نیت ہے جس کو صحیح کرنے کی اشد ضرورت ہے اگر وہ صحیح ہو گی تو کامیاب بصورت دیگر کہیں ہمارے اعمال نیت فاسدہ کے ساتھ ضائع نہ ہو جائیں اورہمیں خبر بھی نہ ہوہم اس خوش فہمی میں ہوں کہ زاد راہ کافی ہے اور دفتر خالی ہو۔

اپنا تبصرہ بھیجیں