اس بار عمران خان کو طاہرالقادری کا سہارا نہ مل سکا

عمران خان کی سیاست کا اصل سفر 30 اکتوبر 2011 مینار پاکستان کے جلسے کے بعد شروع ھوا اس جلسے کے بعد میڈیا نے بھرپور طریقہ سے عمران خان کی کمپائن چلائی ھر ٹاک شو میں ان کو ہی ڈسکس کیا جاتا  اس کا اثر یہ ھوا کہ لوگ ان کی طرف متوجہ ھو گے اس کے ساتھ ساتھ خان صاحب نے بڑا ہی دلکش اور دلفریب نعرہ لگایا جو دلوں کو موہ لیتا ہے نیا پاکستان اور ریاست مدینہ  عوام پہلے ہی ان دو پارٹیوں سے اکتا چکے تھے

ساتھ ہی گھاک سیاست دانوں نے اڑان بھری اور بلے پر براجمان ھو گے 2013 کے الیکشن میں خان صاحب نے مرکز میں 35 نشستوں پر کامیابی حاصل کی اور خیبر پختونخوا میں صوبائی حکومت بنانے میں کامیاب ھو گے لیکن یہ نتیجہ ان کی ذاتی توقعات و خواہشات کے بر عکس تھا اس لیے انہوں نے احتجاجاً جلسے جلوس کرنے شروع کر دیے احتجاج میں وہ چار حلقے کھولنے کا مطالبہ دھراتے رہے اور 35 پنکچر کا بھی ذکر کرتے رہےگورنمنٹ ٹس سے مس نہ ھوئی  اسی اثناء میں 17جون کو منھاج القرآن کے مرکز پر حکومت پنجاب کے حکم پر پولیس نے رات کے ایک بجے بیرئیر ھٹانے کے بھانے دھاوا بول دیا

جس میں چودہ نہتے لوگ شہید اور سو کے قریب زخمی ھو گے عوامی تحریک اور منھاج القرآن کے کارکنوں کے لیے یہ بڑا کٹھن اور مشکل وقت تھا چند دنوں کے بعد قادری صاحب وطن واپس آئے تو اسلام آباد ائیرپورٹ کا علاقہ میدان جنگ بنا رھا اسی طرح شھداء ماڈل ٹاؤن کے چہلم کے لیے آنے والے بھکر کے قافلے پر پولیس نے دھاوا بول دیا تین چار آدمیوں کو  شھید  باقی تمام شرکاء کو گرفتار کر لیا گیا اس کے بعد ماڈل ٹاؤن کے ایرے کو مکمل سیل کر دیا گیا حتکہ کھانے پینے کی اشیاء کی ترسیل بھی بند کر دی گئی کسی جماعت نے امداد نہ کی سوائے ایم کیو ایم کے انہوں نے کھانے پینے کا سامان وھاں پر پہنچایا حصول انصاف کے لیے احتجاج کا فیصلہ کیا گیا  تو تحریک انصاف کی مشاورت سے  چودہ اگست کی تاریخ کا اعلان کر دیا گیا اس اعلان کے ساتھ ہی عوامی تحریک کے کارکنان کی گرفتاری کے لیے چھاپے مارے جانے شروع ھوگے چادر اور چار دیواری کے تقدس کو پامال کیا جانے لگا 

ھمارے ایک دوست کو  کلر سیداں کے نواحی گاؤں درکالی شیر شاہی سے رات کے اندھیرے میں گھر کے اندر کود کر گرفتار کر لیا گیا مجموعی طور پر سات ھزار سے زائد گرفتاریاں ھوئیں  میرے گھر میں بھی پولیس نے تین چار مرتبہ چھاپا مارا لیکن خوش قسمتی سے میں پہلے ہی کسی اور جگہ منتقل ھو چکا تھا میں تقریباً پندرہ دن تک گھر سے باھر سکونت پذیر رھا لیکن ھمارے مقابل تحریک انصاف کو سیف زون دیا گیا ان کے کسی بھی کارکن کے گھر چھاپا نہیں مارا گیا عوامی تحریک  کے کارکنان اتنی اذیتیں صعوبتیں اور مشکلات برداشت کرنے  کے باوجود حوصلہ نہ ھارے لاھور سے اسلام آباد کے راستے میں تمام رکاوٹیں توڑ اسلام آباد پہنچنے میں کامیاب ھو گے

اور ڈی چوک میں 30اور31اگست کی درمیانی رات کو وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان کے حکم پر اندھا دھند اور وحشیانہ شیلنگ کو جس جواں مردی اور حوصلے سے برداشت کیا اس کی نظیر نہیں ملتی جبکہ دوسری جانب تحریک انصاف کا قافلہ بغیر کوئی رکاوٹ دیکھے اسلام آباد پہنچا اور شیلنگ والی رات خان صاحب کو جان سے زیادہ پیار کرنے والے کارکن اور راہنما بلکل اکیلا چھوڑ کر بھاگ گے جس کا اعتراف خان صاحب نے دوسرے دن میڈیا پر بھی کیا کہ اگر عوامی تحریک کے نوجوانوں نے جس جواں مردی کے ساتھ بچایا اس کو میں ساری زندگی نہیں بھولوں گا اگر یہ نہ بچاتے تو وہ مجھے مار دیتے دوسری بات کہ دھرنا تو عوامی تحریک نے دیا تھا

تحریک انصاف والے تو رات کو میوزیکل شو سننے آتے تھے اور رات کے آخری پہر گھروں کو واپس لوٹ جاتے تھے اس دھرنے میں جتنی بھی صعوبتیں مشکلیں تکلیفیں موسم کی سختیاں کھانے پینے کے حصول میں مشکل وہ سب عوامی تحریک والوں نے برداشت کیں لیکن اس کا جتنا بھی کریڈٹ اور فایدہ تھا وہ سارے کا سارا خان صاحب اور تحریک انصاف نے اٹھایا اسی کریڈٹ پر 2018 میں ان کو حکومت ملی اب جب سے خان صاحب کی حکومت ختم ھوئی ہے انہوں نے بیرونی مداخلت  اور حقیقی آزادی کا بیانیہ پروان چڑھایا اس بیانیہ کا جادو سر چڑھ کر بول رھا ہے انہوں نے پورے ملک میں لگاتار جلسے کیے ہیں جن میں عوام کی کثیر تعداد نے شرکت کی ہے اور واقعتاً بہت بڑے جلسے ھوئے ہیں لیکن اس دفعہ احتجاجی لانگ مارچ اور دھرنا اکیلے اور اپنے زور بازو پر دے رہے ہیں اس دفعہ ان کے پاس ان کے حصے کا بوجھ اٹھانے کے لیے دوسرا کندا نہیں ہے

یہ 2014 والی خوش فہمی میں تھے انہوں نے سفر آزادی کو پھولوں کی سیج سمجھا ھوا تھا حکومت نے مارچ کے اعلان کے ساتھ ہی ان کے لانگ مارچ کو ناکام بنانے کے لیے انتظامات کرنا شروع کر دیے اور ساتھ ہی اعصابی جنگ سینئر اور متحرک اراکین کے گھروں پر چھاپے مار کر شروع کر دی گرفتاریاں کم کیں لیکن خوف وہراس زیادہ پیدا کر دیا  اس کا اثر یہ ھوا کہ پورے پنجاب میں پی ٹی آئی کا رکن اتنا خوف زدہ ھوا کہ زیر زمین چلا گیا اسی وجہ سے پنجاب سے نہ ھونے کے برابر تعداد مارچ میں شریک  ھوئی جڑواں شہر کے باسی بھی گھروں میں دبکے بیٹھے رہے اگر وہ آنا چاہتے تو چور راستوں سے پیدل بھی آ سکتے تھے لیکن وہ بھی چیدہ چیدہ لوگ ھی شریک ھوئے  ان میں سے بھی کچھ کا معاملہ تو صرف فوٹو سیشن تک رھا اگر یہ اتنے خوف زدہ نہ ھوتے

تو پنجاب سے صرف ایم این ایز اور ایم پی ایز  اپنے ساتھ صرف ایک ایک ھزار لوگ لے کر آتے تو تعداد گنتی سے باھر ھو جاتی جس سے حکومت کے ھوش اڑ جاتے اور یہ ان کے لیے مشکل بھی نہ تھا یہ تو خان صاحب خدا کا شکر ادا کریں کہ وہ خود پشاور سے ایک بہت بڑے قافلے کی قیادت کرتے ھوئے آئے ہیں وگرنہ ان کا مارچ بہت برے طریقے سے پٹ جاتا  ان کے مارچ کی لاج خیبرپختونخوا کے غیور عوام نے رکھ لی البتہ تحریک انصاف والوں کو اب احساس ھوا ہے کہ احتجاجی سیاست کتنی مشکل ھوتی ہے اس میں رکاوٹیں بھی ھوتی ہیں اور گرفتاریاں بھی شاید خان صاحب کے اچانک مارچ ختم کرنے کے پیچھے اور وجوہات کے علاؤہ اس کم تعداد کا بھی عمل دخل ضرور ہے

جس نے خان صاحب کو سوچنے پر مجبور کر دیا کہ آیا جو لوگ موجود ہیں وہ سارے مستقل دھرنا دینے کے لیے تیار بھی ہیں کہ نہیں یہ نہ ھو کہ دھرنے کا اعلان کر کے بند گلی میں چلے جائیں  جس کے باعث عروج زوال میں بدل جائے پچھلی بار تو عوامی تحریک والے تھے چوبیس گھنٹے بیٹھنے کے لیے جس سے دھرنے کا بھرم قائم رھا البتہ تحریک انصاف والوں کو یہ ماننا پڑے گا کہ وہ اعصابی جنگ بہت ھی برے طریقے سے ھار گے ہیں

اپنا تبصرہ بھیجیں