اسمبلیاں توڑنے کی بجائے چند ماہ انتظار کر لیں

چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان نے ایک بار پھر صوبائی اسمبلیاں توڑنے کا عندیہ دے دیا ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ صوبائی اور مرکزی وزراء سے ملاقات اور مشاورت کے بعد اس کا فیصلہ اور اعلان کیا جائے گا۔ اس وقت چار بڑی اکائیوں خیبرپختونخوا، پنجاب، کشمیر اور گلگت بلتستان میں عمران خان کی حکومت ہے وہ ان حکومتوں کو ختم کرنے کا کہہ رہے ہیں اور اس کے ساتھ ہی نئے انتخابات کی تاریخ بھی مانگ رہے ہیں یعنی نئے انتخابات کی صورت میں وفاقی حکومت کو بھی ختم کرنا پڑے گا، یہ تو تحریک انصاف کی طرف سے ہے اگر ہم دوسری طرف دیکھیں تو وفاقی حکومت بھی ایک بار پھر پنجاب کی حکومت واپس لینے کے بارے میں سوچ رہی ہے اور اس کے لیے انہوں نے کسی حد تک کوششیں بھی شروع کر دی ہیں۔ ایک بار پھر وہ جوڑ توڑ کے ذریعے پنجاب کی صوبائی حکومت حاصل کرنے کی کوشش کریں گے اب تو رانا ثناء اللہ نے خیبرپختونخوا میں بھی تحریک عدم اعتماد لانے کی باتیں شروع کر دی ہیں کہ وہاں بھی ہم تحریک عدم اعتماد لے آئے تو عمران خان کی حکومت خیبر پختونخوا کی اسمبلی کو بھی نہیں توڑ سکے گی حالانکہ وہاں پر اتنی زیادہ اکثریت ان کے پاس نہیں ہے وہاں تو اکثریت پی ٹی آئی کی ہے۔ یہ تمام تر صورت حال ہے جو پاکستان کو عدم استحکام کی طرف لے کر جا رہی ہے۔
ہم حکومت کو دیکھیں یا پی ٹی آئی کو، دونوں طرف سے ملک کو عدم استحکام کی طرف کھیلنے کی بھرپور کوششیں ہورہی ہے، ہمارا ملک جو پہلے ہی سیاسی اور معاشی طور پر انتہائی ابتری کا شکار ہے اسے یہ مزید عدم استحکام کی طرف دھکیلنے کی بھرپور کوشش کرنے جا رہے ہیں۔ اگر حکومت کی طرف سے پنجاب میں تحریک عدم اعتماد جمع ہوجاتی ہے تو ظاہر ہے کہ وہاں پر یہ بہت سے اراکین کو اپنے ساتھ ملانے اور جوڑ توڑ کی کوشش شروع کر دیں گے، دوسری طرف سے موجودہ پنجاب کی حکومت بھی آرام سے نہیں بیٹھے گی اور وہ بھی اپنے لوگوں کو اپنے ساتھ جوڑے رکھنے کی پوری کوشش کرے گی۔ یوں ان سب کی توجہ ایک بار پھر سیاست پر مرکوز ہو جائے گی جو پہلے سے ہی ہے لیکن مزید ایک ہیجانی کیفیت پیدا ہوجائے گی جس کی وجہ سے سیاست میں استحکام آئے گا ایک دوسرے کے خلاف پھر الزامات کی بارش ہوگی اور پیسے لینے کی بات ہوگی یوں ملک کی بدنامی تو ہوگئی ہی اس کے ساتھ ساتھ معاشی طور پر بھی ملک میں نہایت ابتر صورتحال پیدا ہوجائے گی۔
اس تمام تر صورتحال کا سب سے پہلا نشانہ معیشت بنتی ہے اور معاشی شعبہ عدم استحکام کا شکار ہو جاتا ہے جس کی وجہ سے ملکی معیشت کو بہت زیادہ نقصان پہنچتا ہے ملکی معیشت میں پہنچنے والے نقصان میں سب سے پہلے ڈالر کی قیمت گر جاتی ہے، بیرونی قرضوں میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ مہنگائی اور بے روزگاری بڑھ جاتی ہیں۔ امداد دینے والے دوست ممالک، آئی ایم ایف اور دیگر ادارے ملک پر اعتماد نہیں کرتے جس کی وجہ سے سرمایہ کاری کرنا یا امداد دینا تو دور کی بات ہے کوئی قرضہ دینے کے لیے بھی تیار نہیں ہوتا۔ جس کی وجہ سے ملک دیوالیہ ہونے کے قریب پہنچ جاتا ہے اور عوام کے مسائل اور تکالیف بہت بڑھ جاتی ہیں سیاستدانوں کو اس بات سے کوئی پریشانی نہیں ہوتی کیونکہ ان کے اثاثے بیرون ممالک میں محفوظ ہیں ان کے کاروبار چل رہے ہیں انہیں تنخواہیں مل رہی ہیں۔ مسئلہ غریب عوام کے لیے ہوتا ہے کہ وہ پریشانی کا شکار ہو جاتے ہیں مہنگائی براہ راست ان پر اثر انداز ہوتی ہے بیروزگاری آ جاتی ہے جو عوام کا جینا دوبھر کر دیتی ہے۔
یہ سیاستدان اقتدار کے لالچ میں نہ جانے کیوں ملک میں استحکام نہیں آنے دیتے کیوں ہر روز اسمبلیاں توڑنے اور اقتدار کے حصول کے
لیے کوشش کرتے ہیں حالانکہ اگر غیرجانبداری سے دیکھا جائے تو سب کی کارکردگی صفر ہے سب کی حکومتیں ہم نے دیکھ لی ہیں، سب نے ایک جیسی کارکردگی کامظاہر کیا ہے۔ اب حکومتوں کے حصول کے لیے ایسے لڑ رہے ہیں جیسے انہوں نے بہت اچھی کارکردگی دکھائی اور وہ ملک کو ترقی دینا چاہتے ہیں مگر ان کا مقصد صرف اور صرف حصول اقتدار ہے اس کے علاوہ کچھ نہیں۔ انہوں نے ملک کو عدم استحکام کی طرف دھکیلنا ہے صرف اور صرف اپنے عہدوں کی خاطر یہ پھر پنجاب اسمبلی توڑنا چاہتے ہیں خیبر پختونخوا کی اسمبلی کو تحلیل کرنا چاہتے ہیں اور یہ وفاقی حکومت کو حاصل کرنے کے لئے ملک کو عدم استحکام کا شکار کر رہے ہیں۔ جانے کیوں یہ کچھ ماہ ابھی انتظار نہیں کرسکتے۔ اقتدار کے باہر رہ کر یہ ایسے ہوتے ہیں جیسے مچھلی پانی سے باہر تڑپ رہی ہواور دوبارہ پانی میں جانے کے لیے بے قرار ہو۔ چند ماہ کی تو بات ہے تب تک ملک کو تھوڑا سنبھلنے دے دیں، چند ماہ بعد اسمبلیوں کی مدت پوری ہو جائے گی تو انہوں نے ویسے ہی ختم ہو جانا ہے اور اس کے بعد نگران حکومت اور پھر عام انتخابات ہو جائیں گے۔ سیاسی جماعتیں عام انتخابات کی تیاری کرنا چاہیں تو ابھی سے شروع کر دیں لیکن جو حکومتیں ابھی چل رہی ہیں انہیں اگلے چھ ماہ تک آرام سے کام کرنے دیں تاکہ ملکی معیشت بہتر ہو، عوام کا معیار زندگی بلند ہو۔
لہٰذا ان ساستدانوں کو چاہیے کہ چند ماہ گزار کریں اور عام انتخابات کی تیاری کریں وفاقی حکومت کو چاہیے کہ وہ پنجاب اسمبلی پر نظر نہ رکھے اور وہاں جو حکومت چل رہی ہے اس کو چلنے دیں اسی طرح عمران خان اور پی ٹی آئی کو چاہیے کہ وہ وفاق اور صوبوں میں جو حکومتیں چل رہی ہیں انہیں کچھ وقت اور چلنے دیں تاکہ ملک میں معاشی طور پر استحکام آئے اور سیاسی طور پر بھی ملک مستحکم ہو۔ آپ عام انتخابات کی تیاری شروع کردیں اور عام انتخابات میں جائیں وہاں سے عوام جس کو ووٹ دیں وہ اپنی حکومت بنا لیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں