87

اسلام آباد سرینا انڈر پاس کی حالت زار

آج جب دفتر سے واپسی پر سرینا انڈر پاس سے گزر ہوا تو دل افسوس سے بھر گیا۔ کبھی یہی انڈر پاس اسلام آباد کے خوبصورت منصوبوں کی فہرست میں شامل تھا، مگر آج اس کی حالت دیکھ کر لگتا ہے جیسے صرف فیتہ کاٹنے اور تصویریں بنوانے کے لیے ہی یہ تعمیر کیا گیا ہو۔نہ نکاسی کا نظام درست ہے، نہ سڑک کی سطح ہموار۔ جگہ جگہ ٹوٹ پھوٹ، پانی کا جمع ہونا، اور دیواروں پر سفیدی کی جھلسی ہوئی تہہ — سب کچھ ایک ہی سوال جنم دیتا ہے کہ کیا یہ منصوبہ واقعی عوام کے فائدے کے لیے تھا یا محض نمبر بنانے کے لیے؟ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے ہمارے ہاں صرف منصوبے “جلدی مکمل کروانے” کا جذبہ ہوتا ہے — “کوالٹی” جیسے لفظ سے شاید ہم واقف ہی نہیں۔ وہ لوگ جو ٹی وی پر بیٹھ کر قوم کو ترقی کے خواب دکھاتے ہیں، کبھی زمینی حقائق دیکھنے نکلیں تو انہیں پتہ چلے کہ سڑکیں صرف افتتاحی ربن کاٹنے سے نہیں، مستقل دیکھ بھال سے چلتی ہیں۔کیا یہ عوام کا حق نہیں کہ انہیں معیاری اور دیرپا سہولیات فراہم کی جائیں؟ کیا ہم صرف تصویری ترقی کے محتاج رہیں گے؟ انڈر پاسز، فلائی اوورز اور سڑکیں بنانا کوئی کارنامہ نہیں، اصل کامیابی یہ ہے کہ وہ منصوبے سالوں بعد بھی اسی شان سے کام کر رہے ہوں۔آج سرینا انڈر پاس مجھے صرف ایک راستہ نہیں لگا، یہ ہمارے نظام کی عکاسی کرتا آئینہ تھا — جس میں دکھاوا تو بہت ہے، مگر پائیداری کہیں دکھائی نہیں دیتی۔شاید کل پھر یہاں سے گزرتے ہوئے یہی سوچوں گا، مگر سوال اب بھی وہی رہے گا…کیا ہم کبھی “کوالٹی” کو بھی اہمیت دینا سیکھیں گے؟

خبر پر اظہار رائے کریں