اسلامی علم المعیشت/محمد حسین

تخلیق کائنات کے ساتھ انسان کی بے شمار خواہشات نے جنم لیا جب ایک آرزو پوری ہو جاتی ہے تو دوسری سر اٹھا لیتی ہے اور اسی طرح یہ ایک لا متناہی سلسلہ جاری ہے اگرچہ قدیم زمانے میں یہ خواہشات مختصر اور سادہ ہوتی تھی مگر موجودہ زمانے میں ان کی نوعیت اور اہمیت میں بھی جدت

آتی گئی اور جوں جوں انسان ترقی کی منازل طے کرتا رہا ان کی خاصیت میں بھی تبدیلی آ گئی اور موجودہ دور میں ان کی حالت بہت ہی عجیب و غریب منزل پہ پہنچ چکی ہے۔تن ڈھانپنے کے لئے لباس ، بھوک مٹانے کے لئے خوراک ، رہائش کے لئے مکان، بیماری کے لئے علاج اور ذہنی نشوونما اور قدرت کی شناسائی حاصل کرنے کے لئے علم کی اشد ضرورت ہے اور انہیں ہی ہم بنیادی احتیا جات کا نام دیتے ہیں دراصل انسان کی تگ و دو ان کی بنیادی احتیاجات کے حصول کے گرد گھومتی ہے اور ان کو حاصل کرنے کے لئے منصوبہ بندی کی ضرورت محسوس ہوتی ہے اور ایک ایسے علم کی تلاش ہوتی ہے جو ان گتھیوں کو سلجھانے اور ان کو پورا کرنے میں معاون ثابت ہوتا ہے اور یہاں سے علم المعیشت کی بنیاد پڑتی ہے۔اسلام انسانیت کے لئے اللہ تعالیٰ کا بھیجا ہوا اور پسند کیا ہوا طریقہ حیات ہے جس کی عملی تکمیل خود صاحب وحی حضرت محمدؐ رسول اللہ نے کر کے نمونہ قائم کر دیا اور آپؐکے صحابہ کرامؓ نے اس نمونہ پر عمل کر کے دکھا یا یہ ایک مکمل ضابطہ حیات ہے جس میں انسان کی پوری حیات کے لئے اور ہرہر مرحلہ کے لئے واضح اصولی ہدایات موجود ہیں اس لئے جہاں اسلام نے عقائد اور عبادات کی تعلیم دی ہے

وہاں معاملات اور معاشیات سے متعلق بھی واضح احکام دئے ہیں جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ اسلام میں کوئی متعین معاشی نظام موجود نہیں ہے دہ نہ تو معاشیات کے فن کو سمجھتے ہیں اور نہ ہی اسلامی احکام سے واقف ہیں۔
بھلا وہ دین جس کے اصولی نظریات کی بنیادوں کو قرآن مجید جیسی عظیم کتاب نے ہمیشہ کے لئے محفوظ کر دیا ہو معاشی احکام و قوانین سے خالی ہو سکتا ہے قرآن مجید کی سب سے پہلی سورت سورۃ فاتحہ اور اولین آیت میں اللہ تعالیٰ کی صرف ایک صفت کا ذکر ہے اور وہ ہے رب العٰلمین .اسلامی معاشی نظام کی بنیاد اللہ کے قرآن پاک میں احکامات ، رسول اللہ کے ارشادات اور ان کے طریقہ زندگی اور صحابہ کرام کے طریقہ کار پر مبنی ہے یعنی جو کچھ اللہ تعالیٰ نے قرآن مقدس میں فرمایا نبی کریمؐ نے جو ارشاد فرما یا، کر کے دکھایا اور صحابہ کرام نے پیروی میں جو طریقہ کار اختیار کیا وہ بس سچ ہے اور ہر لحاظ سے انفرادی اور اجتماعی زندگی گذارنے کے لئے مشعل راہ ہے ۔اسلام ایک سلامتی کا دین ہے اور بنیادی طور پر ایمانداری، نیک نیتی، راستبازی،ہمدردی و موافقت، اخوت و شرافت اور دیانت و امانت کا درس دیتا ہے اس کی تلقین ہے کہ اسلام کے زریں اصولوں کو اپناتے ہوئے اور اچھے مسلم بن کر دنیاداری بھی نبھائیں۔حدود میں رہتے ہوئے ہمارے تمام اقدامات دین و دنیا میں سرخروئی کا ذریعہ بن جاتے ہیں

جبکہ نیت میں خلوص ہو اگر قرآن و سنت اور آثار صحابہ کا غور سے مطالعہ کیا جائے تو بہت سے حقائق ابھرتے ہیں جو ہمارے لئے راہ عمل متعین کرتے ہیں جس کی کما حقہ پیروی سے انسان ایک جانب دنیا میں سر خرو ہو سکتا ہے اور اسی پر انسان کی حقیقی فلاح ہے انسانی زندگی کا مقصد اللہ نے عبادت بیان کیا ہے مگر انسان کو اس دنیا میں روح و جسم کا رشتہ قائم رکھنے کے لئے دنیاوی ذرائع اور اسباب سے استفادہ کئے بغیر چارہ کار نہیں لہذا یہ استفادہ ممنوع نہیں بلکہ اس کا حکم دیا جاتا ہے مگر یہ گوہر حقیقی نہیں تا ہم دنیاوی لذتوں میں بہت زیادہ انہماک کر نا انسان کو آخرت سے غافل کر دیتا ہے اور اس معاملہ میں اعتدال سے نکل جانا انسان کو حرام کے قریب کر دیتا ہے جس سے انسان خسارے میں رہتا ہے اور اپنا دامن گناہ کی گندگی سے آلودہ کر لیتا ہے چنانچہ احتیاط ضروری ہے اسلام نے لا تعداد انسانی خواہشات کی تکمیل کے لئے اسلامی حدود میں رہتے ہوئے کھلی اجازت دی ہے۔احادیث میں انسانی فطرت کا نقشہ اس طرح کھینچا گیا ہے کہ عبداللہ بن زبیرؓ مکہ معظمہ میں ممبر پر کھڑے ہوئے بیان کر رہے تھے کہ نبی کریم ؐ فرماتے تھے کہ ’اگر بنی آدم کو ایک وادی سونے کی بھری دی جائے تو وہ دوسری کی خواہش کرے اور اگر دوسری دی جائے تو تیسری کی خواہش کرے گا اور انسان کا پیٹ تو قبر کی مٹی کے سوا کسی چیز سے نہیں بھرتا ‘۔گویا انسان کی آرزوئیں اتنی زیادہ ہیں کہ تمام کی تمام پوری نہیں ہو سکتی جب ایک کی تکمیل ہوتی ہے تو دوسری کمر بستہ ہو جاتی ہے اور اس طرح نہ ختم ہونے والا چکر جاری رہتا ہے

انسان کی کئی خواہشات ایسی ہوتی ہے جو اس دنیا میں پوری نہیں ہوتی اور وہ آخر کار حسرتوں کا روپ دھار لیتی ہیں۔اسلام میں صرف جائز تمناؤ ں کے حصول کی متعدل مساعی کو پسندیدگی کی نظر سے دیکھا گیا ہے اور تلقین کی گئی ہے کہ وہ ایک ہی گوشے میں ہاتھ پاؤں باندھ کر نہ بیٹھ جائے بلکہ اس دنیا میں پورے جوش و خروش اور تندہی سے عمل میں مصروف رہے اور اپنی خداداد صلاحیت و اہلیت کو بروئے کار لاتے ہوئے عملی جدوجہد کا مظاہرہ کرے اللہ اس کی محنت میں برکت ڈالتا ہے مشقت سے گھبرانا اور پہلو تہی کرنا اسلام کے منافی ہے۔
اسلام میں ہر صاف ستھری چیز کھانے کی اجازت ہے قرآن مقدس ایسی آیات سے معمور ہے اس نے ضروریات زندگی کو آسائشات کی حد تک محدود نہیں رکھا ہے بلکہ بڑی فیاضی سے زیب و زینت اور آرائش و زیبائش سے بھی مناسب استفادہ کرنے کی اجازت دی ہے اللہ تعالیٰ نے تمام اشیاء انسان کے استعمال اور استفادہ کے لئے پیدا کی ہیں ان بہت سی اشیاء کی تخلیق کا مقصد یہی ہے کہ انسان ان سے جائز حدود تک استفادہ کرے کوئی چیز بیکار پیدا نہیں کی گئی۔علم الاقتصاد اس علم کا نام ہے جو ان ذرائع سے بحث کرتا اور ان کے صحیح و غلط ہونے پر مطلع کرتا ہو گویا اس نظام معیشت میں بلاشبہ زیادہ سے زیادہ کمانے والے افراد موجود ہوں گے کیونکہ سعی و کسب کے بغیر کوئی مومن زندہ ہی نہیں رہ سکتا لیکن جو فرد جتنا زیادہ کمائے گا اتنا ہی زیادہ خرچ کرنے پر مجبور ہو گا اور اس لئے افراد کی کمائی جتنی بڑھتی جائے گی اتنی ہی زیادہ جماعت بہ حیثیت جماعت کے خوشحال ہوتی جائے گی تمام افراد قوم کے لئے کمائیں گے یہ صورت پیدا نہ ہو سکے گی کہ ایک طبقہ کی کمائی دوسرے طبقوں کے لئے محتاجی و مفلسی کا پیام ہو جائے۔اسلام نے سوسائٹی کا جو نقشہ بنایا ہے اگر وہ ٹھیک ٹھاک قائم ہو جائے اور صرف چند خانے ہی نہیں بلکہ تمام خانے اپنی اپنی جگہ پر بن جائیں تو ایک ایسا اجتماعی نظام پیدا ہو جائے گا جس میں نہ تو بڑے بڑے کروڑ پتی ہو گے اور نہ مفلس و محتاج طبقے ایک طرح کی درمیانی حالت غالب افراد پر طاری ہو جائے گی اسلامی اقتصادیات کا اطلاق ایک ایسے بہتر اور مکمل نظام معیشت پر ہوتا ہے جواپنے اندر معیشت کے قدیم و جدید نظام مذہبی و عقلی کے کلی محاسن کو سموئے ہوئے ہیں

اور ان کے مصائب و نقائص سے یکسر خالی بلکہ اس کے مسموم اثرات کا بے نظیر تریاق ہے اور ان تمام کمالات کے علاوہ اس کو برتری حاصل ہے کہ وہ انسانوں کے دماغ کی اختراج نہیں ہے بلکہ وہ نظام کائنات کے خالق کا بنایا ہوا ہے کہ جس کی بنیاد انتقام، بغض یا طبقاتی منافقت جیسی خام کاریوں پر رکھی گئی ہے زندگی کے دوسرے شعبوں کی طرح جسے رسول کریم ؐنے اپنا کر دکھایا اور صحابہ کرام اسوہِ رسول ؐ کی پیروی کی عمدہ مثال قائم کی یہ نظام ہر زمانے کے لئے ایک نسخہ کیمیا ہے یہ اور چیز ہے کہ آج کا مسلمان اس سے الگ ہو چکا ہے اور دوسرے فاسد نظاموں کا پجاری بنا ہوا ہے اسی لئے تباہی و بربادی کے دہانے پر کھڑا ہے اور غیروں کا محتاج ہے اسلامی نظام معشیت زریں اصولوں کا رفع ہے اور اس کا مقابلہ دنیا کا کوئی دوسرا نظام نہیں کر سکتا کیونکہ مسلمان دائرہ اسلام میں وہ کام اور نام پیدا کرے گا وہ عبادت کا درجہ رکھتا ہے اور اللہ تعالیٰ کی رضا اور خوشنودی کے لئے اٹھا ہوا ہر قدم اپنے جلو میں نیکیوں کا ثمر رکھتا ہے اور نیکی بھلائی کی طرف لے جاتی ہے اور بھلائی جنت کا دروازہ کھٹکھٹاتی ہے۔انسان اشرف المخلوقات ہے اس کی ا صل کامیابی یہی ہے کہ ایک ہاتھ میں دنیا اور دوسرے ہاتھ میں اس دنیا کی مدد سے دین حاصل کیا ہو اور اقتصادیات الاسلامیہ اس کا درس دیتی ہے۔{jcomments on}

اپنا تبصرہ بھیجیں