اسرائیلی جارحیت کے خلاف مسلم ممالک کا اتحاد ناگزیر

گزشتہ چند روز سے اسرائیلی جنگی طیاروں کی جانب سے غزہ میں حملوں کا سلسلہ جاری ہے، ان حملوں کے نتیجے میں درجنوں فلسطینی شہید جبکہ ایک ہزار سے زائد زخمی ہو چکے ہیں جن میں کئی خواتین اور بچے بھی شامل ہیں۔ طیاروں کی بمباری کے علاوہ اسرائیلی فورسز نے بیت المقدس میں موجود شہریوں کو وحشیانہ تشدد کا نشانہ بھی بنایا جس کے نتیجے میں بھی سینکڑوں فلسطینی زخمی ہو گئے۔ اسرائیلی فوج نے غزہ میں 130سے زائد اہداف کو نشانہ بنانے کا اعتراف بھی کیا ہے۔ یہ سب عوامی مقامات ہیں اور اسرائیلی فوج کے ان حملوں میں معصوم شہریوں کا بے تحاشا جانی و مالی نقصان ہو چکا ہے۔ لیکن اسرائیلی درندوں کی پیاس نہیں بجھ رہی اور مزید حملوں کی دھمکیاں دے رہے ہیں۔ اسرائیل نے پہلے بھی کئی بار فلسطینیوں پر تشدد کیا ہے اور حماس اور دیگر تنظیموں کا بہانہ بنا کر فلسطینیوں کی نسل کشی میں مصروف ہے۔ اسرائیل نے گزشتہ کئی دہائیوں سے فلسطینیوں پر اتنے مظالم ڈھائے کہ سن کر دل کانپ اٹھتا ہے،ان مظالم کو دیکھ کر انسانیت کا سر شرم سے جھک جاتا ہے۔ اسرائیل کا جب جی چاہتا ہے وہ فلسطینیوں پر حملے شروع کر دیتا ہے، یہودیوں نے ان حملوں میں شہری آبادیوں کا خیال بھی نہیں رکھا حالانکہ شہری آبادی پر بم برساناعالمی جنگی قوانین کے خلاف ہے مگر امریکہ نواز لوگوں کے لیے کسی قانون پر عمل کرنا ضروری نہیں وہ جو چاہے کرتے پھریں انہیں امریکہ و یورپ اور اقوام متحدہ کی طرف سے کسی قسم کی پابندی کا خطرہ نہیں ہوتا یہی وجہ ہے کہ اسرائیل کھلے عام فلسطین پر بم برساتا ہے اپنی فضائیہ کے ذریعے شہری آبادیوں پر راکٹ فائر کرواتا ہے۔ جس کے نتیجے میں ہزاروں لاکھوں بے گناہ شہری ہلاک ہو جاتے ہیں ہزاروں زخمی ہو جاتے ہیں جن کا کوئی پرسان حال نہیں ہوتا ان میں عورتیں اور بچے بھی کثیر تعداد میں ہلاک و زخمی ہوتے ہیں ان کی دل دہلا دینے والی چیخیں ان کے کانوں تک نہیں پہنچتیں، ان ننھے بچوں کے زخمی اجسام کو دیکھ کر بھی ان درندوں کی درندگی میں ذرا برابر کمی واقع نہیں ہوتی۔ انہوں نے اپنی ناجائز ریاست پر اپنے تسلط کو برقرار رکھنے اور اسے وسعت دینے کے لیے ہر طرح کا ظلم روا رکھا ہوا ہے جسے امریکہ و یورپ کی پوری حمایت حاصل ہے۔امریکہ و یورپ ہی اسے امداد بھی فراہم کرتے ہیں جو اسلحہ اور ڈالروں کی شکل میں دی جاتی ہے اور یہ کس کو نہیں معلوم کہ اسرائیل اس امداد سے کیا کرتا ہے؟ صرف نہتے فلسطینیوں پر بمباری کرتا ہے، انہیں بے گھر کرنے کے لیے اس امداد کو استعمال کرتا ہے۔ اس سب کو دیکھ کر بھی امریکہ و یورپ اسرائیل کی امداد کیوں نہیں روکتے اس کی وجہ صاف ظاہر ہے کہ وہ لوگ مسلمانوں کے دشمن ہیں اور چاہتے ہیں کہ مسلمان ہر وقت کسی نہ کسی مسئلہ میں پھنسے ہی رہیں اس کے لیے جس خطے میں جس طرح کے مسائل پیدا کر سکتے ہیں وہ کرتے رہتے ہیں۔ کسی مسلم ملک میں سیاسی بحران پیدا کر دیتے ہیں، کہیں معاشی مسائل پیدا کر دیتے ہیں کہیں عوام کو اپنی حکومتوں کے خلاف اکسا کر خانہ جنگی پیدا کر دیتے ہیں۔ کہیں شر پسندوں کو اسلحہ دے کر مسلم عوام کے خلاف کاروائیوں میں مدد دیتے ہیں بالکل اسی پالیسی پر عمل کرتے ہوئے انہوں نے فلسطین پر اسرائیل کو مسلط کر رکھا ہے جو امریکہ و یورپ کے رحم و کرم پر نہتے اور معصوم فلسطینی مسلمانوں پر مظالم ڈھا رہا ہے۔ اقوام متحدہ اور اس کے ذیلی ادارے جن میں سلامتی کونسل اور انسانی حقوق کے ادارے بھی ہیں ان مظالم کو روک نہیں پائے دوسری طرف اسلامی ممالک ہیں کہ جن کے حکمران سب کچھ دیکھتے اور سمجھے بوجھتے ہوئے بھی آنکھیں بند کیے ہوئے ہیں، انہیں مسلمانوں پر ہونے والے تشدد پر اپنی کوئی ذمہ داری محسوس نہیں ہوتی۔ یہ حکمران اپنی عیاشیوں اور بدمستیوں میں مصروف ہیں کیونکہ یہ خیال کر رہے ہیں کہ فلسطین میں لگنے والی آگ فلسطینیوں تک ہی محدود ہے حالانکہ انہیں خوب سمجھ لینا چاہیے کہ یہ آگ جو آج فلسطین میں لگی ہے کل دیگر اسلامی ممالک کو بھی اپنی لپیٹ میں لے سکتی ہے۔ فلسطین کے عوام کا خیال نہیں ہے تو کم ازکم اپنے ممالک کے مستقبل کی فکر کرتے ہوئے ہی اسرائیل کے خلاف سخت ایکشن لے لیں۔ عرب ممالک کو اللہ رب العزت نے خوب دولت سے نوازا ہے جس کا استعمال کرتے ہوئے وہ کسی بھی ملک کو خاموش کرا سکتے ہیں۔ اس کے ذریعے وہ نہ صرف یہ کہ بھاری مقدار میں اسلحہ خرید سکتے ہیں بلکہ خود اپنے ممالک میں اسلحہ کے انبار بھی لگا سکتے ہیں اور دیگر اسلامی ممالک کو بھی اسلحہ دے کر ان کی امداد کر سکتے ہیں جیسے غیر مسلم ممالک ایک دوسرے کی اسلحہ کے ذریعے امداد کر رہے ہیں۔اسرائیل کی جانب سے ہونے والے حالیہ حملوں کے رد عمل کے طور پر اسلامی ممالک کسی بھی ایک ملک میں ہنگامی اجلاس منعقد کریں اور تمام ممالک کے سربراہان اپنی تمام تر مصروفیات ترک کر کے اس اجلاس میں شرکت کریں۔ اس اجلاس میں اسرائیل اور اس کی پشت پناہی کرنے والے ممالک سے شدید احتجاج کریں اور مذمتی قراردادیں منظور کریں۔ اس کے علاوہ مستقبل میں ایسے حملوں کے جواب کے لیے مؤثر حکمت عملی اختیار کریں۔ جس میں اسلامی ممالک کا ایک عسکری اتحاد بھی قائم کیا جا سکتا ہے ، جس کا مقصد تمام اسلامی ممالک کا دفاع ہو۔ کسی بھی اسلامی ملک پر جارحیت کے خلاف یہ اتحاد فوراً حرکت میں آئے اور اس کا بھر پور دفاع کرے۔ تب امت کے مسلمہ کے مسائل حل ہوں گے۔ اگر اسی طرح مسلم حکمران آنکھیں بند کیے رکھیں گے تو کفار مسلم ممالک کو ایک ایک کر کے تباہ کرتے رہیں گے اور پھر مسلم ممالک کوئی اتحاد وغیرہ قائم کرنے کے قابل بھی نہیں رہیں گے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں