اسرائیلی بر بر یت

سات اکتوبر سے غزہ پر اسرائیلی بربریت جارہی ہے غزہ لہو لہان ہے ہر طرف لاشیں بکھری پڑی ہیں اسرائیل مسلسل شہری آباد یوں پر بم باری کر رہا ہے جو جنگی جرا ئم میں شمار ہوتا ہے مگر امریکی اور یورپی ممالک کا ضمیر بالکل خاموش ہے کسی کی زبان سے یہ نہیں نکل رہا کہ تم یہ جنگ نہیں لڑرہے ہو بلکہ تم انسانوں کا قتل عام کر رہے ہو جنگ کے بھی کچھ اصول ہوتے ہیں اور بہادر قومیں ان اصولوں کے تحت ہی جنگ لڑتی ہیں مگر اسرائیل کے بزدل حکمران تمام انسانی قدروں اور جنگی اخلاقیات کو پامال کرتے ہوئے انسانیت سوز جرائم کا ارتکاب کر رہے ہیں مگر اس اسرائیلی وحشیانہ کا روائی کی سب سے پہلے حمایت کرنے والے ملک امریکہ نے انسانیت کی نوحہ خوانی نہیں کی بلکہ اس نے یہ کہا کہ خبردار کوئی اسرائیل کے مد مقابل آنے کی کوشش نہ کرے ورنہ نتائج کا خود ذمہ دار ہو گا دنیا بھر کے ترقی پذیر ممالک کی طرف سے بڑی بے ضرر سی آواز یں سنائی دی ہیں جن میں اسرائیل کو اس بربریت سے دست بردار ہونے کی درخواست کی گئی ہے

کیا ہمیں تسلیم کرلینا چاہیے کہ حماس نے اسرائیل پر حملہ کر کے سخت غلطی کی ہے اس نے خود اپنی طاقت کا ہی غلط انداز نہیں لگایا بلکہ اپنے مدگار وں کی حمایت سے بھی نا واقف ہے لیکن یہ مسئلہ جنگ کا نہیں ہے یہ مسئلہ انسانی المیہ ہے کہ اسرائیل فلسطینیوں کی نسل کشی کر رہا ہے اس کے مد مقابل نہ کوئی باقاعدہ فوج اور نہ ہی کوئی نشانہ ہے وہ آسانی سے اہل زمین پر آگ سارہا ہے محض بمباری جاری ہے اور وہ بھی ہسپتالوں پر عورتوں بچوں اور عام انسانوں پر اور اس کا مقابلہ کسی باقاعدہ فوج سے ہے ہی نہیں فوجی مقابلہ اس کے پروگرام میں داخل ہے انسانوں کی اس بے قدری پر اسرائیل کے حامیوں میں سے کسی کے منہ سے کوئی لفظ ایسا نہ نکل سکا جو اس انسان کشی کی مخالفت میں ہو جہاں تک ستاون اسلامی ممالک کی بات ہے تو یہ قوموں کا مقدر ہوتا ہے جب وہ اپنی اصل کو فرا موش کر دیتے ہیں او ر خصوصاً مسلمان جب حکم الٰہی کو بالائے طاق رکھ دیتے ہیں تو پھر اس کی تعداد کوئی اہمیت نہیں رکھتی انسانی تاریخ اس پر گواہ ہے کہ میدان جنگ کم تعداد مگر مقصد یت کے حامل افراد ہمیشہ بھاری اکثرت پر غالب آتے رہے ہیں اس وقت مسلمانوں کی حالت اتنی قابل رحم ہے کہ وہ زبانی کلامی بھی غزہ کی حمایت سے قاصر ہیں سات اکتوبر سے جاری اسرائیلی بمباری کے نتیجے میں غزہ کا انفرا سڑکچر مکمل طور پر تباہ ہوگیا ہے

جبکہ مواصلاتی نظام ا نٹر نیٹ اور موبائل سروس معطل ہونے سے غزہ کا رابطہ پوری دنیا سے منقطع ہو گیا ہے اسرائیل کی جانب سے غزہ کے مسلسل محاصر ے نے محصور شہریوں کو قحط کے خطرے سے دوچارکر دیا ہے اور پچیس لاکھ افراد کو پانی اشیائے خور ونوش اورایندھن کی فراہمی معطل ہوگئی ہے مشرق وسطیٰ میں ان تنازعات کی وجہ سے عالمی اقتصادی بحران پیدا ہو سکتا ہے کیو نکہ دنیا پہلے ہی غیر یقینی عالمی معیشت درپیش چیلنجوں کا سامناکر رہی ہے پوری دنیا میں خوف بڑھ رہا ہے اور یہی خوف طویل مدتی بحران پیدا کر سکتا ہے اور ان بڑھتے ہو ئے تنازعات کے ممکنہ طور پر توانائی خوراک کی قیمتوں اور سفارتی تعلقات پر اثرات پڑسکتے ہیں غزہ ایک ساحلی پٹی ہے جو بحیرہ روم کے ساحل کے ساتھ قدیم تجارتی اور سمندری راستوں پر واقع ہے اور گذشتہ صدی کے دوران برطانیہ سے مصر اور پھر اسرائیل فوجی حکمرانوں کو مستقبل کیا گیا اور اب یہ ایک حفاظتی باڑکا حامل ایک ایسا علاقہ ہے جہاں پچیس لاکھ فلسطینی آباد ہیں مغربی سامراجی حکومتیں اس وقت یہ بات کر رہی ہیں کہ اسرائیل کو اپنا دفاع کرنے کا حق ہے اور کئی دہائیوں
سے جاری اسرائیلی جارحیت پر منہ بند کئے بیٹھے ہیں

فلسطینی نوجوانوں کی جانب سے غاصبات قبضے کے خلاف مزاحمت کی کوشش کا جواب ڈیفنس فور سز نے منصوبہ بند دیوہیکل تباہی اور جبر کے ذریعے دیا ہے جس میں لامتناہی حملے اور ٹارگٹ کلنگ شامل ہیں مغربی پٹی مشرقی یروشلم اور اسرائیل سے ہزاروں فلسطینی نوجوان گرفتار ہیں اور کسی عدالتی کا رروائی کے بغیر جیلوں میں پڑے گل سڑ رہے ہیں لیکن دوسری طرف ایک بھی مجرم آباد کار گرفتار نہیں کیا گیا اور نہ ہی کسی ایک فرد کو کسی قسم کی سزا دی گئی ہے رواں برس کے آغاز سے اسرائیل ایک بند سیاسی گلی میں پھنسا ہوا ہے اور اسرائیلی حکومت کی عدالتی اصلاحات کے خلاف دیوہیکل اسنجا بوں نے پورے ملک کوجھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے جبکہ صیہونی حکمران طبقہ شدیداختلافات میں ڈوبا ہوا ہے اسرائیلی حکومت کی اپنی سیاسی انوکھی جنگ نے یہودی دائیں بازو کے شدید انتہا پسندوں کو تاریخی موقع دیا کہ وہ اسرائیلی ریاست میں طاقتورعہد ے حاصل کر لیں ان کا پروگرام فلسطینیوں کی وسیع پیمانے پر نسل کشی کر کے مغربی پٹی، مشرقی یروشلم،گولان ہائٹس اور غزہ پر قبصہ کر کے اس خطے سے پوری فلسطینی عوام کا صفایا کرنا ہے ایک قوم کے بنیادی جمہوری حقوق سلب کرکے انہیں تباہ و برباد کرکے مسلسل ان کی زمینوں اورگھروں پر قبضے کر کے انہیں قتل وغارت گرفتار ٹارچراور مسلسل غربت کی چکی میں پیس کر یہ امید نہیں کی جا سکتی کہ جلد یا بدیراس ساری تباہ کاری کا دیواپیکل جواب نہیں ملے گا

الا قصیٰ مسجد اسلام میں تیسرا سب سے مقدس مقام ہے اس لئے اس پر صہیونی انتہا پسندوں کا قبضہ کھلے عام اشتعال انگیزی ہے اس سارے کھیل میں اسرائیلی پولیس نے کھلے عام معاونت اور حفاظت فراہم کی مقدس مقام اس شرمناک تحقیر نے موجودہ حملے کا فوری جواز فراہم کر دیا ہے اور عالمی میڈیا نے دانستہ طور پر اس سارے واقعے کو پس پشت ڈال دیا ہے مسلم ممالک کے حکمران اگر کچھ مصلحتوں کا شکار ہو بھی جائیں تو وہا ں کے عوام کبھی بھی اس بات کو قبول نہیں کریں گے کہ غاصب صہیونی قبلہ اول پر قابض ہوں اقوام متحدہ کو چاہیے کہ وہ اس مسئلے کو مستقل بنیادوں پر حل کروانے کے لئے اپنا بھر پور کردار ادا کرے ورنہ ناجائز اسرائیلی ریاست اور غاصب صیہونیوں کے مظلوم فلسطینیوں کے خلاف مسلسل بڑھتے ہوئے اقدامات کسی وقت بھی کسی ایسی صورتحال کو جنم دے سکتے ہیں جوعالمی جنگ کا باعث بھی بن سکتے ہیں اور ایسی صورت میں معاملات کسی کے بھی ہاتھ میں نہیں رہ سکیں گے غزہ پروحشیانہ اسرائیلی بمباری پر دنیا بھر میں لوگ سراپا احتجاج بنے ہوئے ہیں

لیکن امریکہ اور اس کے اتحادی اور یورپی ممالک بد ستور صہیونی ریاست کے غیر انسانی اقدامات کی حمایت پر کمر بستہ ہیں اور جنگ بندی کی حمایت سے گریزاں اسرائیلی اور فلسطین تنازع کا بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ فلسطینی ایک آزاد ریاست کے خواہاں ہیں لیکن ان کی یہ خواہش کئی دہائیاں گزرنے کے باوجود بھی پوری نہیں ہو سکی دو ریا ستی حل میں 1967کی سرحدوں کی بنیاد پر مکمل خود مختار آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کی کی تجویز دی گئی جس کا دارالحکومت مشرقی یروشلم ہو گا یہ حل زمیں کے بدلے امن کے اصول پر مبنی ہے جس سے مخصوص زمینوں پر رعائتیں دے کر طویل مدتی امن حاصل کیا جا سکتا ہے اگر چہ اسرائیل اورفلسطین نے دوریاستی حل کے اصول کو قبول کر لیا ہے لیکن اس کے عملی نفاذ میں اختلافات کی موجو دگی کی وجہ سے امن عمل رک گیا ہے لیکن چیلنجز کے باوجود دو ریاستی حل ہی واحد قابل عمل نفاد کرانے کے لئے دوریاستی حل کے تحت آزاد فلسطین قائم کرے یروشلم کو عملی طور پر عالمی شہر بنایا جائے اور دونوں خود مختار ریاستوں کو ایک دوسرے کے عالمی تسلیم شدہ سرحدوں کا احترام کرنے کا پابند کیا جائے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں