ایک دن خلیفہ ہارون الرشید بالا خانے میں بیٹھے اپنی محبوب اہلیہ سے محو گفتگو تھے۔بغداد کے درودیوار سے محبت وعقیدے کے ترانے سنائی دیے زبیدہ باہر نکلی کیا دیکھتی ہے کہ بغداد کے گلی کوچوں سے عوام کا سمندر امڈ آیا ہے لوگوں نے ایک شخص کو کندھوں پر اٹھایا ہے دل ونگاہ فرش راہ کرتے ہوئے سلام عقیدہ پیش کررہے ہیں اور پھولوں کی پتیاں نچھاور کر رہے ہیں زبیدہ یہ منظر دیکھ کر واپس ہوئیں اورشوہر نامدار سے یوں مخاطب ہوئی سرتاج آپ تو کہتے ہیں کہ مسلمانوں کا خلیفہ میں ہوں لیکن میں نے تو منظر کوئی اور ہی دیکھاہے ایک جم غفیر ہے خلیفہ حالات کاجا ئزہ لینے باہر تشریف لائے تو دیکھے ہیں کہ لوگ وقت کے استاد کو اپنے کندھوں پہ سوار کیے ہوئے ہیں فرط محبت سے ا ہلیہ کے ساتھ مخاطب ہوئے اورپوچھا جانتی ہویہ کون ہیں کہا یہ عبداللہ بن مبار ک ہیں جو وقت کے استاد ہیں اس کے سامنے تیرے شوہر کی کیا اوقات ہے۔
پھر ایک مرتبہ ایسا ہوا کہ ہارون الرشید اپنے بیٹوں کے ساتھ نماز جمعہ ادا کرنے بغداد کی مسجد میں گئے نماز کی ادائیگی کے بعد صاحب زادوں کی نظر اپنے استاد پر پڑی دونوں استاد کی جوتی اٹھانے کے لئے دوڑے ایک کے ہاتھ میں ایک جوتی آئی اور دوسرے کے ہاتھ میں دوسری جوتی آئی دونوں نے وہ جوتی اپنے استاد کو پہنچائی خلیفہ ایک کونے میں کھڑے یہ دیکھ رہے تھے دربار لگا درباریوں سے پوچھا میری سلطنت میں سب سے زیادہ باوقار اور قابل احترام کون ہے درباری درباری ہوتا ہے کہا خلیفہ محترم آپ سے بڑھ کر کون اس رتبہ عالی کا حامل ہوسکتا ہے تو خلیفہ نے فرمایا نہیں سب سے بڑھ کر عزت واحترام کے قابل وہ استاد ہے جس کے جوتے اٹھانا خلیفہ وقت کے صاحب زادے اپنے لیے باعث فخروافتخار سمجھیں ارسطو سکندراعظم کا استاد تھا سکندر اعظم فتوحات پر فتوحات حاصل کر رہاتھا استاد رہنمائی کر رہا تھا راستے میں دریا آگیا استاد نے کہا کہ میں زرا اس کی گہرائی معلوم کر لیتا ہوں لیکن سکندراعظم اس سے پہلے ہی دریا میں کو دگئے جب پانی سے صحیح سلامت باہر نکلے تو استادنے پوچھا سکندر تم نے کبھی میری حکم عدولی نہیں کی آج تم نے ایسا کیوں کیا سکندراعظم کا تاریخی جواب سنیئے آج اگر سکنداراعظم مر جاتا تو ایک ہی سکندر مرتا ارسطو ہزاروں سکندر پیدا کر لیتا اور اگر ارسطو مر جاتا تو سکندروں کا باب ہی ہند ہوجاتا
یہ وہ ہارون وسکندار تھے جو آدھی دنیا کے حکمران تھے انکی حکمرانی کا راز استاد کی محبت،عقیدت،عزت واحترام سے جڑا تھا استاد شاہراوں پہ نہیں درس گاہوں میں، تجر بہ گاہوں میں اور مطالعہ گاہوں میں ملتے تھے آخر استاد کمرہ جماعت کو چھوڑ کر شاہراوں پر نکلنے پر کیوں مجبور ہوا
استاد بھی ایک انسان ہے اس کی بھی ضروریات ہیں ایک استاد اپنی زندگی کا ابتدائی حصہ حصول علم کیلئے وقف کرتا ہے کالج یونیورسٹی تعلیم کے بعد جب وہ محکمہ تعلیم میں آتا ہے تو اس کی تنخواہ ایک دیہاڑی درد مزدور سے بھی کم ہوتی ہے اس کا مقصد پیسہ کمانہ نہیں بلکہ علم کی روشنی پھیلانا ہوتا ہے اگر وہ پیسہ کمانا چاہتا تو اس کے پاس پیسہ کمانے کے اور بہت سے راستے تھے وہ بھی بیرون ملک جاکرخوب پیسہ کما سکتا تھا وہ اس ملک میں اپنا کاروبار تجارت کرکے لوگوں کی جیبیں خالی کرسکتاتھا وہ کسی اور محکمہ میں جاکر جہاں خوب کمائی کے مواقع ملتے ہیں کمائی کر سکتا تھا لیکن یہ سب چھوڑ کر اس نے محکمہ تعلیم کو چنا اس لیے تاکہ وہ نو نہالان قوم کی تعمیر کر سکے اس کے سیرت و کردارکو سنوارسکے اپنے دین، اپنے وطن اور
اپنی قوم کو دنیامیں عزت واحترام کا مقام دلا سکے اس لیے وہ کم پر قناعت کرتا ہے لیکن افسوس کہ ان اساتذہ کو سڑکوں پر نکلنے کے لیے مجبور کیاگیا ان کے مطالبات کیا ہیں سرکاری سکو لوں کو پرائیویٹ نہ کرواس میں صرف اساتذہ کا نقصان نہیں بلکہ لاکھوں غریب لوگ جن کو دووقت کا کھانا میسر نہیں ان کے بچوں کے ہاتھ سے کتاب مت چھینو ایک استاد جو محکمہ میں بال سفید کرتا ہے اپنی ریاست سے وفادری کرتاہے ریاست ماں کی طرح ہوا کرتی ہے حکومت وقت اس کی پنشن کٹوتی کرنا چاہتی ہے اس کالیوان کیشمنٹ ختم کر دیا گیا ایک استاد چھٹی کا استفادہ نہیں کرتا نہ گرمی دیکھتا ہے نہ سردی اس کی تیس پینتس سال کی چھٹیاں جو وہ بچا بچا کر رکھتا ہے تاکہ ریٹا ئر منٹ پر اسے کچھ مل جائے استاد کی ساری ز ندگی کی محنت کے ثمر سے اسے محروم کرنے کی پالیسی ظلم کی انتہا ہے جس استاد کے بچے تعلیم حاصل کر رہے ہوں، جس استاد نے بچوں کو شادی کروانی ہو، جس استاد نے گھر بنانا ہو اس کی زندگی بھر کی پونچی وہی کمیوٹیشن وہی لیو ان کیشمنٹ اور ماہانہ انکم وہی پنشن ہو جس میں حکومت کٹوتی کرنا چاہتی ہے تو پھر استاد سڑکوں پر نہ ہو تو کہاں ہو؟
استاد سے اس کے بچوں کا رزق چھین کر ترقی کی شاہرہ پر گامزان ہونا چاہتے ہو؟ پالیساں ان کے لیے بناؤ جنھوں نے منی لانڈ رنگ کے ذریعے ملکی دولت کو بیرونی ملکوں میں منتقل کیا ہے ملکی قرضہ کسی استاد نے نہیں لیا کسی استاد کا گھر بحریہ اور ڈی ایچ اے میں نہیں ہے کسی استاد کے گھر چار چار ملازم کا م نہیں کرتے جوتخواہ سرکار سے لے رہے ہوں کسی استا دکے پاس مرسی ڈیز اور کرولہ نہیں ہے جن کو پٹرول سرکاری خزانے سے ملتا ہو کوئی استاد فری بجلی اور گیس نہیں جلاتا۔
1982ء میں بھی اساتذہ نے ہڑ تال کی تھی باعزت اور باوقار طریقہ سے اساتذہ کو واپس کلاس روم میں بھیجا گیا تھا حالانکہ ایک فوجی جنرل ضیاء الحق کی حکمرانی تھی کسی استاد پر ہاتھ نہیں اٹھایا گیا تھا یاد رکھو اساتذہ پر لاٹھی چارج کر کے اور تشدد کروا کر تم اس آواز کو دبانا چاہتے ہو تو وقتی ایسا ہو تو سکتا ہے لیکن اس کے دور رس نتائج بہت بھیانک ہوں گے یہ کام منتخب حکومت کے ہیں عبوری حکومت کو ملک کا آئین اور قانون اجازت نہیں دیتا عبوری حکومت انتخابات کروانے آتی ہے انتخابات کروائے اور اپنی راہ لے کسی شاعر نے کیا خوب کہا۔
خود ار تیرے شہر کا فاقوں سے مر گیا۔راشن جو آرہا تھا وہ افسرکے گھر گیا
چڑھتی رہی مزارپر چادر تو بے شمار باہر جو ایک فقیر تھا سردی سے مرگیا
روٹی امیر شہر کے کتوں نے چھین لی فاقہ غریب شہر کے بچوں میں بٹ گیا
چہرہ بتارہاتھاکہ مارا ہے بھوک نے حاکم نے کہ دیا کہ کچھ کھا کے مر گیا
ڈپٹی کمشنر جہلم کا تمام تحصیل انتظامیہ، ریسکیو 1122 اور عوام کو الرٹ رہنے کا…
ایس ایچ او تھانہ سول لائنز کی اہم کاروائی،جسم فروشی کے مکروہ دھندے میں ملوث…
راولپنڈی عادل جان بحق اور جابر نامی بندہ زخمی زخمی اور ڈیڈ باڈی کو ھسپتال…
کہوٹہ(نمائندہ پنڈی پوسٹ)کہوٹہ کے علاقہ جیوڑہ میں رانگ سائیڈ سے آنے والی کار نے سوزوکی…
اکادمی ادبیات پاکستان اسلام آباد کے ہال میں اس وقت ایک دلکش اور یادگار منظر…
راولپنڈی (نامہ نگار سید قاسم) وزیراعظم شہباز شریف نے آزاد کشمیر میں مذاکرتی عمل کی…