136

استاد/محمد انشال

امریکی صدر ابراہیم لنکن نے کہا تھا کہ موجودہ نسل کے لیئے سکول کے کمرے کا فلسفہ اگلی نسل کے لئے اقتدار کا فلسفہ ہوتا ہے اگر کمرے کا فلسفہ درست ہو تو اقتدار کا فلسفہ بھی درست ہو گا لیکن اگر کمرے کا فلسفہ نا گفتہ بہ ہو تو پھر آپ اندازہ لگا سکتے ہیں اگر ہم آج سے کوئی تیس یا کم از کم بیس سال پہلے کے حالات کا جائزہ لیں تو ہمیں یہ بات بخوبی نظر آئے گی کہ اس دور مین اساتذہ کو بہت مقام اور مرتبہ حاصل تھا اس وقت اساتذہ کے مقام اور مرتبے کا یہ عالم تھا کہ اگر کوئی استاد بازار سے گزرتا تو استاد کے ادب میں لوگ کھڑے ہو جاتے تھے اگر اساتذہ کوئی کام شاگرد کو کہتے تو شاگرد اس کام کو سر انجام دینے میں بڑی چوٹی کا زور لگاتے تھے جسے کسی زمانے میں دو شہزادے ایک استاد کے پاس فیض حاصل کرتے تھے ایک دفعہ بادشاہ وہاں سے گزرا تو اس نے دیکھا کہ جب استاد اٹھا تو ایک شہزادے نے استاد کا ایک جوتا جبکہ دوسرے نے استاد کا دوسرا جوتا اٹھا کر استاد کے پاوں میں رکھا اس سے آپ خود اندازہ لگا سکتے ہیں کہ جس کے جوتے شہزادے اٹھائیں اس کا مقام مرتبہ کیا ہو گا لیکن بدلتے حالات کے ساتھ ساتھ استاد کی تعظیم اور قدر بھی کم ہوتی گئی اور آج کے حالات میں استاد کی عزت اور مرتبہ تو آپ کے سامنے ہے جہاں استاد کی قدر و منزلت کم کرنے میں اور بہت سے اسباب نے حصہ ڈالا وہاں اساتذہ نے خود پیچھے رہنا گوارا نہ کہا جہاں اساتذہ میں اور سی خرابیاں پیدا ہوئیں وہاں یہ بات بھی قابل زکر ہے کہ نقل مافیانے اساتذہ کی قدرو منزلت کم کرنے میں نمایاں کردار ادا کیا آج کل نقل مافیا عروج پر ہے اور یہ بات قابل زکر ہے کہ نقل کرانے والے بھی اساتذہ ہیں اساتذہ نہ صرف نقل کرانے میں معاون ثابت ہوتے ہیں بلکہ شاگرد وں کو نقل کے طریقے بھی سکھاتے ہیں یہ نقل طالب علموں کی صلاحتوں کو بری طرح متاثر کرتی ہیں اس کا سب سے بڑا نقصان یہ ہوتا ہے کہ اس سے طالب علموں میں محنت کرنے کی صلاحیت کم ہو جاتی ہیں بلکہ ایساکہنا چاہیے کہ وہ محنت کرنا چھوڑ ہی دیتے ہیں کیونکہ اگر کسی طالب علم کو یہ پتا ہو کہ اس نے نقل کر کے پاس ہو جانا ہے تو اسے محنت کرنے کی ضرورت ہی نہیں رہتی اس طرح وہ اپنی صلاحتیں استعمال نہیں کرتا اور انہیں ضائع کر دیتا ہے اس کے علاوہ اس سے دھوکے کے جذبات بھی ابھارے جاتے ہیں اور ان قوم کے معماروں کے اندر یہ جذبات ابھارنے والے اور کوئی نہیں بلکہ اساتذہ ہی ہوتے ہیں جب وہ خود طالب علموں کو برائی کی دعوت دیں گے اور طالب علموں میں دھوکے کے جذبات ابھاریں گے تو طالب علم کیا خاک ان کی قدر اور عزت اور احترام کریں گے اس کے علاوہ طمع ایک ایسا بلا ہے جو انسان کو حیوان بنا دیتی ہیں آج کل کے اساتزہ میں طمع کا مادہ کچھ زیادہ ہی پایا جاتا ہے اساتذہ جب طالب علموں کو نقل کراتے ہیں تو وہ خوش ہوتے ہیں کیونکہ ایسا کرنے سے انکا رزلٹ اچھا آجاتا ہے وہ یہ بات بھول جاتے ہیں کہ ان کے ایسا کرنے سے بہت سے زہین طالب علموں کا حق مارا جاتا ہے اور وہ یہ بھی بھول جاتے ہیں کہ رزق دینے والی زات اللہ تعالی کی ہے جس نے اس بات کا وعدہ کیا ہے اس کے علاوہ کچھ اساتذہ تو براہ راست طالب علموں سے پیسے لیتے ہیں اور نقل کراتے ہیں یہ نہیں سوچتے کہ جو پیسے کماتے ہیں یہ حلال کے ہیں یا حرام کے ہیں اس سارے پر اس سے گزر کر جو قوم کے معمار آگے آتے ہیں وہ اچھے نمبر بھی لیتے ہیں اور اچھے نمبروں پر بھی فائز ہوتے ہیں اس سے نہ صرف زہین لوگوں کا حق مارا جاتا ہے بلکہ یہ لوگ ملک وقوم کے لئے بھی تباہی کا باعث بنتے ہیں ان لوگوں کے پاس کوئی ہتھیار نہیں ہوتا زہانت کا نہ صلاحیت کا اور نہ ہی احساس کا کیونکہ انہیں صرف ایک ایک چیز ہی سکھائی جاتی ہے اور وہ ہی دھوکہ اور یہ لوگ دھوکہ دیتے بھی ہیں تو اپنے آپ کو اپنے ملک کو اور اپنے ساتھیوں کو جو ان محکموں پر فائز ہونے کا حق رکھتے ہیں نتیجتاملک ایک ایسے راہ پر چل نکلتا ہے جس کی منزل صرف اندھیرا ہے صرف اندھیرا آپ یقین جانیے اگر صرف استاد طبقہ اپنا کام صیحیح ایمانداری اور دیانتداری سے سر انجام دے تو پوری قوم سدھر سکتی ہیں کیونکہ کلرک سے کر وزیر اعظم تک سب لوگ استاد کے سایے سے ہی گزر کر آگے جاتے ہیں کچھ اساتذہ آج بھی فرض ادا کر رہے ہیں لیکن باقی اساتذہ کو بھی آنکھ سے بٹی اتارنی چاہیے اور اپنی زمہ داریاں دیکھنی چاہیے تا کہ سکول کے فلسفے سے اقتدار تک کا فلسفہ درست ہو جائے ۔{jcomments on}

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں