ارکان پارلیمنٹ ملکی خزانے پر بوجھ

جب بھی کسی نجی یا گورنمنٹ کے ادارہ میں خالی آسامیوں کا اشتہار آتا ہے چاہے وہ آسامی نائب قاصد یا مالی کی ہی کیوں نہ ہو اس کی اہلیت کے لئے انھوں نے کچھ شرائط رکھی ہوتی ہیں مثلاً تعلیم‘ تجربہ عمر‘کردار وغیرہ خاص طور پر ملک کے کسی بھی دفاعی محکمہ میں آپ کی شمولیت اور بھی مشکل ہوتی ہے اگر آپ خوش قسمتی سے اپنی قابلیت کی بنا پر خالی آسامی کے اہل ہو چکے ہیں اور آپ صحت مند بھی ہیں تو پھر بھی آپ کے سر پر صاف شفاف بے داغ کردار کی ایک تلوار لٹک رہی ہوتی ہے اگر آپ اپنے خاندان محلہ گاؤں میں ایک معمولی سی لڑائی جھگڑے میں ملوث پائے گے بیشک وہ لڑائی جھگڑا گالم گلوچ تک ہی محدود ہو مار کٹائی کی نوبت ہی نہ آئی ہو جب سکیورٹی کلیئرنس کے لیے ایجنسی کے افراد آئیں گے تو کسی نے بے دھیانی میں کہہ دیا کہ اسکا کسی کے ساتھ جھگڑا ہوا تھا تو آپ کی قابلیت اب کسی کام کی نہیں آپ ہمیشہ کے لئے نااہل ہو چکے ہیں یا آپ کے خلاف کسی بھی وقت جھوٹی یا سچی ایف آئی آر درج ہو چکی ہے تو پھر بھی آپ دفاعی ادارہ کے لئے نااہل ہیں کیونکہ آپ جھگڑالو ہیں با کردار نہیں ہیں لیکن اگر کسی آسامی پوسٹ کے لیے معیار یا اہلیت نہیں ہے تو وہ ہے ہمارے ملک کے ایم این ایز ایم پی ایز کے لیے ان کو کاغذات نامزدگی جمع کرانے کے لیے تجویز کنندہ اور دو گواہان کی موجودگی ضروری ہے اس کے علاوہ نہ ہی ان کی سکیورٹی کلیئرنس کی ضرورت ہے اور نہ ہی ان کا صاف ستھرے کردار کا ہونا ضروری ہے اور نہ ہی ان کے لیے تعلیم ضروری ہے کیونکہ کون سا انہوں نے ملک کی نمائندگی کرنی ہوتی ہے کون سا انھوں نے وزیراعظم‘وزیر خارجہ‘ وزیر د فا ع‘ کے منصب پر فائز ہو کر ملک و قوم کی نمائندگی کرنی ہے کون سا انہوں نے دفاعی امور کا جائزہ لینا ہوتا ہے کہ دشمن ملک کے پاس کون سے جہاز ہیں کون سے میزائل ہیں وہ کہاں تک مار کر سکتے ہیں کتنا جوہری مو ا د ساتھ لے جاسکتے ہیں اس کے پاس دیگر ہتھیار کس نوعیت کے ہیں ہم کس طرح اپنے وطن عزیز کا دفاع مضبوط کر سکتے ہیں اور ملکی دفاع کو مزید بہتر کرنے کے لئے کون سے اقدامات اٹھانے ضروری ہیں اور کو ن سا انہوں نے دوسرے ممالک کے ساتھ اپنے ملک کے تعلقات مضبوط بنیادوں پر استوار کرنے ہوتے ہیں اور اپنے ملک کی عزت ناموس اور عالمی دنیا میں ملک کے کردار کو بڑھانا ہوتا ہے کون سی انہوں نے ملک کی تعلیمی پالیسی بنانی ہوتی ہے کہ اس وقت دنیا کا مقابلہ کرنے کے لیے بچوں کو کون سے مضامین پڑھانے کی ضرورت ہے اور ان مضامین میں کن اسباق کا اضافہ کیا جائے اور کن کی اب ضرورت نہیں ہے ان کو نکال دیا جائے جس کے لیے ان کو خود تعلیم کی ضرورت ہو کون سی انہوں نے ملک کی تجارتی پالیسی بنانی ہوتی ہے کہ کس طرح ملکی وغیر ملکی تاجروں کو اپنے پیارے دیس میں پیسہ لگانے کی ترغیب دی جائے تاکہ ملکی معیشت بہتر ہوسکے روزگار کے مواقع پیدا ہوں اور بے روزگاری کا خاتمہ ہوسکے کے ساتھ ساتھ لوگوں کا معیارِ زندگی بھی بہتر ہو سکے ملکی اشیاء دوسرے ممالک کو بھیج کر وافر زرمبادلہ کمایا جا سکے اور غیر ملکی قرضوں سے نجات حاصل ہو ملک حقیقی معنوں میں آزاد و خود مختار ریاست بن سکے اگر تجارتی پالیسی بنائی ہوتی تو آج بجلی کی اتنی کمی ہوتی کیونکہ تجارت کے لیے صنعت ضروری ہے اور صنعت کے لیے سستی بجلی اور سستی بجلی کے لیے ڈیم ضروری ہیں ہمارے ملک میں تو دونوں بڑے ڈیم بھی مارشل لاء کے دور میں بنے ہیں مارشل لاء کو لوگ بہت برا بھلا کہتے ہیں ہوتا ہو گا مارشل لاء برا ہماری جمہوریت سے تو ابھی تک ا یک نیا ڈیم نہ بن سکا بچپن
سے بھاشا ڈیم کے بننے کا سنتے آ رہے ہیں لیکن پتہ نہیں وہ دنیا کے کس کونے میں بن رہا ہے اور کتنا بڑا ہے کہ سال ہا سال بیتے جا رہے ہیں اور مکمل نہیں ہو رہا اگر بر وقت ڈیم بن جاتے تو پانی کی قلت کا بھی سامنا نہ کرنا پڑتا اورہماری زرعی پیداوار بھی بہتر ہوتی اور ان کو اچھے اخلاق و کردار کی بھی ضرورت نہیں ہے کیونکہ کون سا دنیا ان کو دیکھ رہی ہے وہ تو جنگل اور ویرانے میں رہتے ہیں ان کا دنیا سے کیا واسطہ چاہے وہ بچوں کی طرح آپس میں لڑیں اور جیسے بچے سکول میں لڑ پڑیں تو ایک دوسرے کو کتابیں دے مارتے ہیں (آجکل ویسے بچے بھی سیانے ہوگئے ہیں انہیں پتہ ہے کتابیں بہت مہنگی ہیں خا ص کر پرائیویٹ سکولوں کی اب وہ نہیں مارتے) اسی طرح ایک دوسرے کو بجٹ کی دستاویزات کی کاپیاں ماریں گتھم گتھا ہوں ایک دوسرے کا گریبان پھاڑیں مخالف کو مارنے کے لیے دوڑیں اپنے وزیر اعلیٰ پر بوتلیں پھینکیں پتھراؤ کریں اسے ایوان میں نہ جانے دیں سرے عام ٹی وی چینلزکے لائیو پروگرام میں مرد وعورت دست وگریباں ہوں ایک دوسرے کو ننگی گالیاں بکیں اورپھر ڈھٹائی سے اسے اپنا کلچر کہیں صرف اور صرف اپنی جاہل گنوار قیادت کے سامنے نمبر بنانے کے لیے کہ دیکھیں جناب میں نے اپنی پارٹی کا کتنا دفاع کیا کوئی پوچھے ملک کے وقار کا کیا کیا سارا ملک براہ راست یہ تماشا دیکھ رہا ہے اور پھر بھی ملوث افراد پرکسی قسم کی پابندی نہ لگے اگر یہی کام نائب قاصد سے ہوتا تو معطل یا برخاست ہو چکا ہوتا اور کون سا یہ دفاع خارجہ داخلہ امور کی کمیٹیوں کے ممبران ہوتے ہیں اور ان کی حساس اداروں اور حساس معلومات تک ان کو رسائی حاصل ہوتی ہے کہ ان کی سکروٹنی کی جائے اس ساری صورتحال سے تو ایک ہی بات سمجھ آتی ہے کہ ملک کی نمائندگی اور ساری پالیسیاں نظم و نسق نائب قاصد اور مالی ہی بناتے اور قائم کرتے ہیں اور سکیورٹی رسک بھی یہی ہیں ان ہی کی سیکرٹ دستاویزات تک رسائی ہوتی ہے اسی لیے انہیں بھرتی ہونے کے لیے کڑی شرائط سے گزرنا پڑتا ہے اگر ایم این ایز اور ایم پی ایز کی کچھ اہمیت ہوتی اور کچھ کرنا ہوتا تو کچھ شرائط حدود و قیود ضرور ان کے لیے بھی مقررہوتیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں