181

ارادے جن کے پختہ ہوں

ہیڈماسٹر صاحب کا عملی سیاست سے دور دور تک کوئی تعلق و واسطہ نہیں‘ انہوں نے دروان درس تدریس اور صدر معلم کی حیثیت سے کسی سیاسی جماعت سے وابستگی ظاہر کی اور نہ ہی کسی امیدوار کی انتخابی مہم کا حصہ بنے۔ ان کا فوکس صرف و صرف فرائض منصبی کی ادائیگی پر ہی مرکوز رہا البتہ آبائی علاقہ کی پسماندگی کے بارے کافی فکر مند رہتے‘ لوگوں کا معیار زندگی بہتر بنانے کے خواہاں اور ان کے بہتر مستقبل کے لیے کچھ کر گزرنے کا جذبہ رکھتے۔ ملازمت سے سبکدوش ہونے کے بعد عزیز واقارب کی خوشی و غمی اور دیگر معاملات میں بھرپور حاضری اور نمائندگی کی وجہ سے بھی خاندان و برادری میں عزت و احترام اور اثرو رسوخ رکھتے ہیں۔
ہیڈ ماسٹرصابر صاحب کا نام اس وقت سیاسی حلقوں میں شہرت پا گیا جب آزاد کشمیر میں جنرل الیکشن کے اعلان کے بعد انتخابی مہم کا آغاز ہوا امیدواروں کی آمدروفت شروع ہوئی تو ہیڈ ماسٹر صاحب نے اپنی رہائش گاہ پر اہلیان محلہ کو جمع کرکے بتایا کہ ہمیں یکجا ہوکر اس امیدوار کو اپنا نمائندہ مقرر کرنا ہوگا جو اسمبلی میں نہ صرف اپنے حلقہ کی پسماندگی کے خاتمہ کے لیے آواز اٹھائے‘ عملی جدوجہد کرے بلکہ پورے آزاد کشمیر کی تعمیر وترقی اور خوشحالی کے لیے پالیسیاں مرتب کرے‘قانون سازی کی اہلیت رکھتا ہو۔ ماسٹر صاحب کی آواز پر حاضرین نے لبیک کہا کہ ہمیں یقین ہے آپ ایماندار امیدوار اہل قیادت کا چناو اور پارٹی کا انتخاب کرینگے‘آپ کا فیصلہ من و عن تسلیم کرتے ہیں۔ حلقہ باغ کی سیاسی جماعتیں اور امیدوار بھی مشترکہ فیصلہ سے آگاہ ہوئے تو انہوں نے ووٹ کے لیے ماسٹر صاحب کے گھر کی جانب دوڑیں لگا دیں ایک نے نقدی دینے کی لالچ دی تو دوسرے نے الیکشن سے پہلے گاؤں کی روڈ کی پختگی کی پیش کش کی غرضیکہ ہر ایک نے ووٹ خریدنے کے لیے سفارش سمیت ہر حربہ استعمال کیا لیکن ماسٹر صاحب سب امیدواروں سے ملاقاتیں و میٹنگز کرتے رہے بلا آخر فائنل ہو نے والے امیدوار کو پولنگ اسٹیشن سے بھاری اکثریت سے کامیاب بھی کروادیا لیکن اسے مجموعی نتائج میں کامیابی حاصل نہ نصیب نہ ہوسکی۔

حکومت کوبنے ابھی چند ماہ ہی گزرے تھے کہ منتخب رکن قانون ساز اسمبلی نے حلقہ میں ترقیاتی منصوبوں کا آغاز کیا‘ دو برس سے زائد کا عرصہ گزر گیا لیکن ماسٹر صاحب کا گاؤں ہر دفعہ ہی نظر اندازرہا‘ان کی جدوجہد کے باوجود کسی حکومتی نمائندے نے حامی نہ بھری تو ماسٹر صاحب نے دل برداشتہ ہونے کی بجائے علاقہ کے مسائل اپنی مدد آپ کے تحت حل کرنے کا فیصلہ کرلیا۔میٹنگ بلا کر اپنی کوششوں اور جدوجہد کے بارے میں لوگوں کو بریف کیا اور کہا کہ جس طرح آپ نے الیکشن کے موقع پر یکجہتی کا مظاہرہ کیا‘ متفقہ فیصلہ دیا۔ آج ایک مرتبہ پھر آپ کے تعاون کی ضرورت ہے ہم نے یکجا ہوکر گاؤں کو ماڈل بنانے کا حتمی فیصلہ کرنا ہے جب سب لوگوں نے ہاتھ اٹھا کر ماسٹر صاحب کے فیصلہ کی تائید کی‘باہمی مشاورت سے کمیٹی تشکیل ہوئی۔ ہیڈ ماسٹر صاحب نے اپنے دو ماہ کی پنشن اڑھائی لاکھ روپے ترقیاتی فنڈز میں دیکر پہلے منصوبہ کی بنیاد رکھی۔دوست و احباب سے مشاورت سے مذیدفنڈ ریزنگ بھی شروع ہوئی‘ ہر غریب و امیر نے حسب توفیق حصہ لیا جو لوگ مالی امداد کرنے یا فنڈز میں حصہ ڈالنے کی اہلیت نہیں رکھتے تھے انہوں نے روڈ منصوبہ میں عملی طور پر حصہ لینے کی یقین دہانی کروائی۔ کام
شروع ہوا تو ماسٹر صاحب کے ساتھ گاؤں کے بوڑھے بچے اور نوجوان بھی نکل آئے پہاڑی علاقہ ہونے کے باوجود چند دنوں میں روڈ کو ہموار کرکے دو کلومیٹرکنکرکیٹ کرکے پختہ روڈ کا پہلا منصوبہ مکمل کرلیا۔

صاف پانی کے حصول کے لیے خواتین کو دشوار گزارراستوں سے گزرنا پڑتا تھا یہ مسئلہ حل کرنے کے لیے کمیٹی نے بین الاقوامی تنظیم مسلم ہینڈز سے رابطہ کرکے پانچ ہینڈز پمپ کو گاؤں کے مرکزی مقامات پر انسٹال کرکے پانی کی سہولت لوگوں کے گھر وں کی دہلیز پر فراہم کردی۔کم وولٹیج کی بناء پر گاؤں میں بجلی کی آنکھ مچولی کا سلسلہ بھی صارفین کے لئے سردرد بنا تو کمیٹی نے محکمہ برقیات سے رجوع کیا تو دفترکی مختلف پوسٹوں پر ہیڈ ماسٹر صاحب کے شاگرد تعینات نظر آئے۔ انہوں نے گاؤں کی پروپوزل بنا کر چند ماہ میں ہی کھمبے اورنیا ٹرانسفارمر نصب کردیا۔جب ہیڈ ماسٹر صاحب کے بارے میں ان کے کولیگ پروفیسر گلزار صاحب تعریفی کلمات نچھاور کررہے تھے ان ہی لمحوں میں میرے گاؤں کی ہردلعزیز شخصیت سردار محمد سیلم کا ایک اہم فیصلہ میرے دماغ میں گھوم رہا تھا‘ تین دہائیاں گزرنے کے باوجود ان کے تاریخی کلمات آج بھی میرے ذہن میں من وعن پیوست ہیں۔رمضان المبارک کی آمد آمد تھی تو سیلم صاحب نے نمازیوں سے مشاورت کے دوران اپنی تجویز دی اور خواہش کا اظہار کیا کہ امسال رمضان المبارک کی نماز تروایح کے دوران قرآن پاک سنایا جائے اس کے لیے حافظ صاحبان کی مالی خدمت میں اپنے ذمہ لیتے ہوئے یہ قیمتی جملہ بولا کہ مجھے اللہ نے سیگریٹ سلگانے کے نشہ سے مبرا رکھا ہوا ہے اگرمیں اس کا عادی ہوتا میں روزانہ بیس روپے کی ڈبیہ دھواں کی نذر کردیتا جس کا ماہانہ خرچ 600 روپے اور سالانہ 7200 روپے آتا۔میں اللہ کا شکرادا کرنے کے لیے حافظ قرآن کی خدمت کی ذمہ داری اپنے ذمہ لیتا ہوں ان کے الفاظ کو سبھی نے سراہا یوں نماز تروایح کے لیے حافظ قران کی خدمات حاصل کر لی گئیں۔
ماہ رمضان المبارک کے ختم ہونے کو ابھی چند دن باقی تھے کہ مسجد کمیٹی کے پاس توقع سے بھی زیادہ چندہ جمع ہوگیا سردار سیلم کو پاس سے رقم ادا کرنے کی نوبت ہی نہ پیش آئی اس فیصلہ کو تیس برس ہونے کو ہیں لیکن نماز تروایح میں قرآن پاک کا سنانے کا سلسلہ بدستور جاری و ساری ہے۔
ملکی تعمیر و ترقی میں میں شہریوں کی انفرادی و اجتماعی شمولیت اس لیے بھی ضروری ہے جب کسی منصوبہ میں ان کی ذاتی کنٹری بیوشن بھی شامل ہوجاتی ہے پھر اس کے پایہ تکمیل کے بعد اس کو فعال رکھنے و تسلسل برقرار رکھنے کے ساتھ ساتھ اس کی حفاظت ذمہ داری بھی وہ اپنے ذمہ لے لیتے ہیں چونکہ اس میں ان کا خون و پسینہ شامل ہوتا ہے اس طرح کے منصوبے جنرل مشرف کے مارشل لاء کے دور میں ہونیوالے بلدیاتی الیکشن کے ذریعے قائم ہونے والی بنیادی حکومتوں میں بھی دیکھنے کو ملتے ہیں ان منصوبوں میں انتخاب میں منتخب ہونیوالے عوامی نمائندوں کے علاوہ عام شہریوں کو بھی شامل کیا گیا تھا کہ وہ علاقائی اور ملکی ترقی میں اپنا حصہ ڈال سکیں۔
گورنمنٹ وپبلک پارٹنر شپ کے منصوبوں کے لیے گاؤں محلے اور یونین کونسل کی سطح پر سی سی بی (سیٹزن کمیونٹی بورڈ) کمیٹیاں تشکیل دی گئیں کمیونٹی منصوبہ میں 20 فیصد (مالی یا عملی امداد) جبکہ گورنمنٹ اس منصوبہ کے تکمیل کے لیے 80 فیصد مالی امداد کرتی تھی۔ چار سالہ دور میں
بے شمار ترقیاتی منصوبے عوام کی زیر نگرانی مکمل ہوئے جس کی حفاظت کی ذمہ داری بھی لوگوں کے اپنے ذمہ لی۔ یہی وجہ ہے کہ وہ منصوبے آج بھی اپنی فعالیت اور موجودگی کو برقرار رکھے ہوئے ہیں۔ جن علاقوں میں شہریوں کی مقامی کمیٹیاں کا وجود نہیں ہے یا فعال نہیں ہے ان علاقوں میں سماجی شعور اور بیداری اس نہج پر پہنچ چکی ہے کہ یہاں کے باسی گلی و نالی کی صفائی سے لیکر سڑک و تعلیم و صحت کے منصوبوں کی تکمیل و حفاظت کی ذمہ داری صرف اور صرف سرکار کو سونپ کر خود کو بری الذمہ قر ار دیتے ہیں۔حکومت پبلک پارٹنر شپ منصوبے حکومت اور سیاسی جماعت کے منشور کا حصہ بن جائیں تو شہریوں کے بنیادی مسائل مقامی سطح پر ہی حل ہوتے رہیں۔ یہی وقت کی ضرورت بھی ہے
ہیڈ ماسٹر صابر کی کاوشوں اور سردار سیلم کے نیک جذبات کو شاعر مشرق علامہ محمد اقبال کے اس شعر کے ساتھ خراج تحسین پیش کرنا بھی ہمارا حق ہے۔
ارادے جن کے پختہ ہوں نظر جن کی خدا پر ہو
تلاطم خیز موجوں سے وہ کبھی گھبرایا نہیں کرتے

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں