معاشرے کی حقیقی اصلاح ہمیشہ فرد کی اصلاح سے شروع ہوتی ہے۔ اسلام میں انسان کی ذاتی ذمہ داری کو بنیادی مقام حاصل ہے۔ جب کوئی شخص اپنی سوچ، نیت اور کردار کو بہتر بنانے کی کوشش کرتا ہے تو اس کی روشنی سب سے پہلے اُس کے گھر اور پھر پورے معاشرے تک پہنچتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام تبدیلی کا آغاز خود انسان کے دل اور عمل سے کرواتا ہے۔
قرآنِ مجید میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ “اللہ کسی قوم کی حالت نہیں بدلتا جب تک وہ خود اپنے آپ کو نہ بدلیں” (الرعد: 11)۔ یہ آیت واضح اعلان ہے کہ تبدیلی کا اختیار سب سے پہلے انسان کے اپنے ہاتھ میں ہے۔ اگر ہم اپنی ذات کی اصلاح کا فیصلہ کر لیں تو کوئی طاقت اجتماعی تبدیلی کو روک نہیں سکتی۔
نبی کریم ﷺ نے بھی اپنی دعوت کا آغاز لوگوں کے دلوں اور اخلاق کی اصلاح سے کیا۔ جب افراد درست ہوئے تبھی معاشرہ ایک مثالی اور باکمال اسلامی معاشرہ بنا۔ یہی سیرتِ نبوی ہمیں سکھاتی ہے کہ اجتماعی تبدیلی ہمیشہ فرد کی تبدیلی سے پیدا ہوتی ہے۔
اسلامی اخلاقی اقدار میں سچائی، امانت داری، عدل، حلم، صبر، برداشت، حیا اور رحم دلی بنیادی خصوصیات ہیں۔ یہ خوبیاں وہ روشنی ہیں جو انسان کو راہِ حق پر چلاتی ہیں۔ اگر ایک مسلمان اپنے روزمرہ کے معاملات میں ان اخلاقیات کو اپنا لے تو وہ خود بخود دوسروں کے لیے ایک کامل مثال بن جاتا ہے۔
ہمارا آج کا معاشرہ جھوٹ، بے ایمانی، حسد، غیبت اور بد اخلاقی جیسے مسائل میں گھرا ہوا ہے۔ ان مسائل کا حل دوسروں کو بدلنے کی کوشش نہیں، بلکہ خود کو بدلنے سے شروع ہوتا ہے۔ اسلام ہمیں دوسروں پر تنقید سے زیادہ اپنا محاسبہ کرنے کا سبق دیتا ہے۔ جب افراد اپنے عیوب کو پہچان کر انہیں دور کریں گے، تبھی معاشرتی بگاڑ ختم ہوگا۔
گھر اور خاندان معاشرے کی سب سے پہلی اکائی ہے۔ اگر والدین اپنے کردار کو اسلام کے مطابق بنا لیں، اپنے بچوں کے سامنے عملی نمونہ بن جائیں، تو ایک نئی نسل اعلیٰ اخلاق کے ساتھ پروان چڑھے گی۔ یوں تبدیلی کا سفر گھر سے شروع ہو کر پورے معاشرے تک پھیلتا ہے۔
ہم اکثر حالات کی خرابی کا رونا روتے ہیں، لیکن اپنی ذمہ داریوں کو نظر انداز کر دیتے ہیں۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: “تم میں سے بہترین وہ ہے جس کا اخلاق بہترین ہے”۔ اس فرمان کے مطابق معاشرہ اس وقت بہترین ہوگا جب اس کے افراد بہترین اخلاق کے حامل ہوں گے۔ لہٰذا اپنی اصلاح معاشرے کو بہترین بنانے کا پہلا قدم ہے۔
اگر ہم اپنی زبان، رویے، معاملات اور اخلاق کو قابو میں رکھیں، دوسروں کے حقوق ادا کریں، پڑوسی کا خیال رکھیں، وعدہ پورا کریں اور کسی کو تکلیف نہ دیں تو معاشرہ خودبخود امن کا گہوارہ بن جائے گا۔ اسلامی تعلیمات میں ان چھوٹی چھوٹی باتوں کو بہت اہمیت دی گئی ہے کیونکہ انہی سے بڑی تبدیلیاں پیدا ہوتی ہیں۔
صفائی، سچائی، صبر، شکر، وقت کی پابندی، انصاف، نرمی اور خیر خواہی—یہ چھوٹے مگر طاقتور اصول ہیں۔ اگر ہر فرد صرف اپنے حصے کا عمل کرے تو معاشرہ بہترین سمت میں گامزن ہو سکتا ہے۔ یہ اصول صرف کتابوں میں نہیں بلکہ عملی زندگی میں اپنانے کے لیے ہیں۔
آخر میں یہی حقیقت سامنے آتی ہے کہ خود کو بدلنا ہی معاشرے کی تبدیلی کی بنیاد ہے۔ اسلام ہمیں خود احتسابی، کردار سازی اور اخلاقی مضبوطی کا راستہ دکھاتا ہے۔ اگر ہم فرداً فرداً اپنی ذات کو قرآن و سنت کے مطابق بہتر بنا لیں تو پوری سوسائٹی خود ہی روشنی، امن، انصاف اور حسنِ اخلاق کی طرف بڑھ جائے گی۔