احکام و مسائلِ رمضان

{jcomments on}مفتی زبیر احمدغفاری مہتمم جامعہ خلفائے راشدینؓ واسلامک اکیڈمی میل سٹاپ چوکپنڈوڑی،کلرسیداں ،ضلع راولپنڈی

رمضان المبارک
رمضان المبارک کا مقدس اور مطہّر مہینہ ایک طرف خیر و برکت والا تو دوسری طرف عظمت و فضیلت والا ہے،ایک طرف اخوّت و اطاعت والا تو دوسری طرف مقام و منقبت والا ہے،ایک طرف شرف و عزّت والا تو دوسری طرف حیثیت و اہمیت والا ہے اس مقدس مہینے کی بے شمار خصوصیات ہیں اس کی سحری ایسی جو یہود و نصاریٰ سے ممتاز کر دے اور اس کی افطاری ایسی جس پر کی گئی ہر دعا کو رب منظور کر دے اور اس میں لگی پیاس ایسی جو فرشتوں کو دعا پر مجبور کردے اور اس میں منہ سے اٹھتی بو فضاء کو معطر کردے اوراس کی رات میں ایسی خیر اور دن میں ایسی برکت جس سے سارا سال مالا مال ہو جائے،جیسا کہ حضرت مجدد الف ثانی ؒ فرماتے ہیں ’’رمضان کے مہینے میں اتنی خیر و برکت نازل ہوتی ہے کہ بقیہ پورے سال کی برکتوں کو رمضاں کی برکتوں سے وہ نسبت بھی نہیں جو قطرے کو سمندر سے ہوتی ہے‘‘(بحوالہ:روزے کے مسائل،صفحہ45) اللہ رب العزت ہمیں اس بابرکت مہینے کی رحمتیں سمیٹنے کی توفیق عطا فرمائے،آمین فضائلِ رمضان المبارک أ*یہ ایسا بابرکت مہینہ ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے اپنے مقدس کلام کو نازل فرمایا چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:شَھْرُ رَمَضَاْنَ الَّذِیْ اُنْزِلَ فِیْہِ الْقُرْآنُ ھُدً ی لِّلنَّاسِ وَ بَیِّنٰتٍ مِّنَ الْھُدیٰ وَالْفُرْقَانِ فَمَنْ شَھِدَ مِنْکُمُ الشَّھْرَ فَلْیَصُمْہُ (البقرۃ:185)رمضان کا مہینہ وہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیاجو لوگوں کے لئے سراپا ہدایت اور ایسی روشن نشانیوں کا حامل ہے جو صحیح راستہ دکھاتی اور حق و باطل کے درمیان دو ٹوک فیصلہ کرتی ہیں ،لہذا تم میں سے جو آدمی یہ مہینہ پائے وہ ضرور روزہ رکھے۔*یہ ایسا بابرکت مہینہ ہے جس میں تمام آسمانی کتابیں نازل ہوئیں رمضان کی پہلی تاریخ کو حضرت ابراہیم علیہ السلام پر دس صحیفوں کا نزول ہوا،سات سو سال بعدچھ رمضان کو حضرت موسیٰ علیہ السلام پر توریت نازل ہوئی مزید پانچ سو سال بعدحضرت داؤدعلیہ السلام پر13رمضان کو زبور نازل ہوئی اور زبور سے بارہ سو سال بعد حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر18رمضان کو انجیل نازل ہوئی اور انجیل کے چھ سو سال بعد رمضان کے آخری عشرے میں قرآن کریم پہلے لوح محفوظ سے آسمانِ دنیا پر اور پھر آسمانِ دنیا سے زمین پر اسی مبارک مہینے میں نازل ہوا(تفسیر مظہری،جلد2صفحہ181) *یہ ایسا بابرکت مہینہ ہے جس میں وہ رات رکھی گئی جس ایک رات کی فضیلت ہزار مہینوں سے بھی ذیادہ ہے ،جیساکہ فرمانِ باری تعالیٰ ہے : لَیْلَۃُ القَدْرِ خَیْرٌ مِّنْ اَلْفِ شَھْرٍ(سورۃ القدر،آیت نمبر2)لیلۃ القدر ہزار مہینے سے ذیادہ بہتر ہے۔*یہ ایسا بابرکت مہینہ ہے جس میں جنت کے دروازے کھولے اور جہنم کے دروازے بند کر دئے جاتے ہیں،رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے:اِذا دخل رمضان فُتِّحت ابوالجنۃ وغلِّقت ابواب جھنمَ(صحیح بخاری،حدیث نمبر 3103)جب رمضان کا مہینہ شروع ہوتا ہے تو جنت کے دروازے کھول دئے جاتے ہیں اورجہنم کے دروازے بند کر دئے جاتے ہیں ۔*یہ ایسا بابرکت مہینہ ہے جس میں رکھاجانے والا روزہ مغفرت کا ذریعہ ہے،حدیث مبارک میں ہے:من صام رمضان ایمانا واحتسابا غفر لہ ماتقدم من ذنبہ(جامع ترمذی،جلد1صفحہ147)جس نے رمضان کا روزہ ایمان کی حالت میں آخرت کے اندر ثواب ملنے کے یقین سے رکھا اس کے تمام (صغیرہ)گناہ معاف کر دئے جائیں گے۔*یہ ایسا بابرکت مہینہ ہے جس کی ہر رات میں خیر سے ہٹ کر شر کو اختیار کرنے والے کو محبت و پیار سے شر چھوڑنے اور خیر اختیار کرنے کی دعوت دی جاتی ہے،فرمانِ پیغمبر ﷺ ہے:ینادی منادٍیاباغی الخیر اقبل ویا باغی الشر اقصر وللہ عتقاء من النار وذلک فی کل لیلۃٍ (جامع ترمذی،جلد1صفحہ147)بطورِ نمونہ پیش کی گئی چند احادیث کے علاوہ بے شمار احادیث فضائل رمضان سے متعلق مروی ہیں*اگرچہ یہ مہینہ رحمتِ خداوندی کا مظہر ہے لیکن اگر اس کی بے قدری کی جائے تو غضبِ خداوندی بھی بے شمار ہے،چنانچہ بشیر و نذیر پیغمبر ﷺ فرماتے ہیں :من افطر یوما من رمضان من غیر رخصۃٍولا مرضٍ لم یقْضِ عنہ صوم الدھر کلہ وان صامہٗ(صحیح بخاری،جلد3،صفحہ166)جس نے رمضان کا روزہ مجبوری اور بیماری کے بغیر چھوڑ دیا وہ ساری زندگی روزہ رکھ کر بھی اس چھوڑے ہوئے روزے کی کمی کو پورا نہیں کر سکتا ۔
عباداتِ رمضان المبارک
رمضان المبارک کی مخصوص عبادات مندجہ ذیل ہیں*روزہ*تراویح یا قیام رمضان*اعتکاف*لیلۃ القدر کی تلاش*صدقۂ فطروغیرہ
رمضان اور روزہ
روزے کے احکام مندرجہ ذیل حصوں میں تقسیم کئے جائیں تو سمجھنا آسان ہوگا(۱)روزہ کے معنیٰ اور مفہوم(۲)روزہ کی فرضیت(۳)ادائیگی فرضیت روزہ(۴)روزہ کی اقسام(۵)روزہ کی نیت(۶)روزے کی فضیلت(۷)سحری کے احکام ومسائل(۸)افطاری کے احکام و مسائل(۹)وہ مجبوریاں جن کی وجہ سے روزہ توڑا جاسکتا ہے(۱۰)وہ مجبوریاں جن کی وجہ سے روزہ چھوڑا جاسکتا ہے(۱۱)وہ باتیں جن سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے یعنی مفسداتِ روزہ(۱۲)وہ چیزیں جن سے روزہ نہیں ٹوٹتا(۱۳)مکروہاتِ روزہ(۱۴)فدیہ کے مسائل(۱۵)وہ صورتیں جن میں روزہ نہ ہونے کے باوجود کھانا پینا درست نہیں(۱۶)روزے کے متفرق مسائل۔

روزہ کا معنیٰ اورمفہوم
عربی میں روزے کو صوم کہا گیا ہے اور صوم کے لفظی معنی ہیں ’’رک جانا‘‘اور اصطلاحِ شریعت میں صوم کہتے ہیں ’’صبح صادق سے لے کرغروبِ آفتاب تک کھانے ،پینے اور نفسانی خواہشات سے رکے رہنے کو‘‘(شامی جلد 2صفحہ369)
روزہ کی فرضیت
یَا اَیُّھَا الّذِیْنَ آمَنُوُا کُتِبَ عَلَیْکُمُ الصِّیامُ کَمَا کُتِبَ عَلَی الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ(سورۃ بقرہ،آیت183)اے ایمان والو!فرض کئے گئے ہیں روزے تمہارے اوپر جیسا کہ تم سے پہلے لوگوں پر فرض کئے گئے تھے تا کہ تم متقی (پرہیزگار)بن جاؤ،روزہ اسلام کے بنیادی پانچ ارکان میں سے ایک ہے جس کی فرضیت قرآن،حدیث،اجماع امت اور قیاس سے ثابت ہے ،جیساکہ’’بدائع الصنائع ‘‘میں ہے :والدلیل علی فرضیۃ صوم شھر رمضان الکتاب والسنۃ والاجماع والمعقولالخ(بدائع الصنائع،جلد2صفحہ75)روزے کی اسی فرضیت کے پیش نظراسکے منکر کو کافر قرار دیا گیا ہے اورماننے کے باوجود روزہ نہ رکھنے والا فاسق اور کبیرہ گناہ کا مرتکب ہے(بدائع الصنائع،جلد2صفحہ75)
ادائیگئ فرضیتِ روزہ
ویسے تو یہ عبادت ان تین شرائط کے پائے جانے پر فرض ہوجاتی(۱)مسلمان ہونا(۲)عاقل ہونا(۳)بالغ ہوناجیسا کہ ’’بدائع الصنائع ‘‘ میں ہے: امالشرائط العامۃ،فبعضھا یرجع الی الصائم وھو شرط اھلیۃ الاداء(بدائع الصنائع،جلد2صفحہ77)لیکن اس کی ادائیگی اس وقت لازم ہوتی ہے جب رمضان کا مہینہ شروع ہو جائے اور مسلمان میں مندجہ ذیل تین شرطیں پائی جارہی ہوں(۱)تندست ہونا(۲)مقیم ہو نا(۳)عورت کا حیض و نفاس سے پاک ہونا ،جیسا کہ ردالمحتار میں ہے: وھی( شرط وجوب اداۂ)ثلاثۃ :الصحۃ والاقامۃ والخلومن حیض ونفاس (ردالمحتار،جلد2صفحہ372)لہذاجس میں یہ تین شرائط پائی جائیں اس کے لئے روزہ رکھنا فرض ہوتا ہے ،مریض اور مسافرقضاء کرسکتے ہیں البتہ اگر بعد میں قضاء کے اندر کوتاہی کا خدشہ ہوتو حالتِ سفر میں ہی روزہ رکھا جائے۔
روزہ کی اقسام
روزہ کی مندرجہ ذیل اقسام ہیں(۱)فرض جیسے رمضان کے روزے،ان کی قضاء اور کفارات(۲)واجب جیسے نذر وغیرہ کے روزے(۳)مسنون جیسے نو اور دس محرم کا روزہ(۴)مستحب جیسے ہرماہ میں ایام بیض کا روزہ اور ممنوعہ ایام کے علاوہ عام دنوں کا روزہ وغیرہ(۵)مکروہ جیسے محرم میں صرف ۹یا صرف ۱۰محرم کا روزہ رکھنا(۶)حرام جیسے ایام تشریق اور عیدین کا روزہ رکھنا(البحرالرائق،جلد2صفحہ نمبر449-450مطبوعہ:مکتبہ رشیدیہ کوئٹہ)
روزہ کی نیت
نیت کا معنیٰ ارادہ ہے لہذا اگر کسی نے دل میں ہی ارادہ کیا کہ روزہ رکھوں گا تو اس کاوہی ارادہ نیت کہلائے گا اور نیت کا وقت روزے سے پہلی شام کے غروب آفتاب سے شروع ہوتا ہے رمضان کے ہر روزے کی الگ الگ نیت کرنا ضروری ہے جیسا کہ ’’درمختار‘‘میں ہے:ویحتاج صوم کل یوم من رمضان الی نیۃ(در مختار ،جلد2صفحہ379)لہذا یہ نیت ہر روز کی جائے بیشک وہ دل کے ارادے ہی کی صورت میں ہو۔
روزہ کی فضیلت
روزہ کے بے شمار فضائل ہیں مثلاًروزے سے سابقہ گناہوں کا معاف ہوجانا(صحیح بخاری ،حدیث 1901،جامع ترمذی،جلد1صفحہ147)روزہ دار کے لئے جنت میں داخلے کے وقت ’’باب الریاّن‘‘ کا مختص ہونا(صحیح بخاری ،حدیث نمبر1896)روزہ دار کے منہ سے آنے والی مشک کا کستوری سے ذیادہ پسندیدہ قرار دیا جانا(صحیح بخاری ،حدیث نمبر8)روزہ دار کے چہرے کو جہنم سے ستر سال کی دور ی پر کر دینے کی خوشخبری(صحیح مسلم ،حدیث نمبر1153) وغیرہ وغیرہ ،روزہ کے ان فضائل کو اسی وقت حاصل کیا جاسکتا ہے جب ایک مسلمان اصول ضوابط کے ساتھ روزہ رکھے اور اگر اصول وضوابط کو پامال کر دیا جائے تو سوائے بھوک اور پیاس کے کچھ بھی حاصل نہیں ہوتا اور اللہ پاک کو صرف بھوک اور پیاس سے کوئی غرض نہیں(صحیح بخاری ،حدیث نمبر1903)
سحری کے احکام و مسائل
*سحری کھانا سنت ہے اگر دل نہ چاہے تب بھی سنت کو پورا کرنے کی غرض سے کچھ نہ کچھ کھالینا چاہئے کیونکہ سحری کے کھانے کو بابرکت کہا گیا ہے،رسول اللہ ﷺ کا فرمان مبارک ہے:تسحروا فان فی السحور برکۃ(صحیح بخاری،حدیث 1923)سحری کھایا کرو اس لئے کہ اس کھانے میں برکت ہے،دوسری حدیث مسند احمد کے حوالے سے ’’ردالمحتار ‘‘میں یوں ہے کہ:السحور کلہ برکۃ فلاتدعوہ ولو ان یجرع احدکم جرعۃ من ماء(ردالمحتار،جلد2صفحہ419)سحری تمام تر برکت ہے،لہذا اسے مت چھوڑو اگرچہ ایک گھونٹ پانی ہی کی صورت میں سحری ہو*سحری کی اہمیت اپنی جگہ لیکن اگر سحری کے وقت آنکھ نہ کھلے تو بغیر سحری کھائے روزہ رکھنا ضروری ہوگا سحری چھوٹ جانے سے روزہ چھوڑنے کی کوئی گنجائش نہیں ہے* روزے کے لئے دل کی نیت اور سحری کھانا ہی اس روزے کے آغاز کی علامت ہے البتہ یہ دعا بھی پرھ لی جائے تودرست ہے ،سحری کی دعا یہ ہے :وبصوم غدٍ نویت من شھر رمضان*سحری میں تاخیر(آخری وقت میں کھانا) باعث خیر و برکت ہے(عالمگیری،جلد1صفحہ200)*یہ سوچ کر سحری میں مصروف رہاکہ ابھی صبح صادق نہیں ہوئی بعد میں پتہ چلا کہ صبح صادق ہو چکی ہے تو ایسی صورت میں روزہ نہیں ہوا،غروب تک کھانا پینا جائز نہیں اور اس روزہ کی قضاء بھی ضروری ہے(عالمگیری،جلد1صفحہ194)*اگر غسل فرض ہے اور صبح صادق سے پہلے غسل کرنے کی صورت میں سحری رہ جاتی ہے تو ناپاکی کی حالت میں ہی سحری کھانا اور روزہ رکھ لینا جائز ہے ،البتہ غسل میں اتنی تاخیر ناپسندیدہ ہے۔(عالمگیری،جلد1صفحہ200)*صبح صادق کا وقت ختم ہوتے ہی سحری کا وقت ختم ہوجاتا ہے اس لئے اس کے بعد کھانے سے روزہ نہیں ہوگا اگرچہ ابھی تک اذان نہ ہوئی ہو(عالمگیری،جلد1صفحہ194)*سحری کے بعد کلی کرنا اور دانتوں کو صاف کر لینا بہتر ہے(احسن الفتاویٰ،جلد4صفحہ453)
افطاری کے احکام و مسائل
*یقینی طور پر سورج کے غروب ہوتے ہی افطار کا وقت شروع ہوجاتا ہے،اسی ابتدائی وقت میں افطار کرنا پسندیدہ اور بلاوجہ تاخیر کرنا مکروہ ہے(مشکوٰۃ ،جلد1صفحہ ,175بدائع الصنائع،جلد2صفحہ105)*افطاری کھجور ،چھوہارے یا کسی بھی میٹھی چیز سے کی جائے اگر کوئی میٹھی چیز نہ ہو تو پانی سے افطاری کر سکتے ہیں ،جیسا کہ حدیث مبارک میں ہے: عن انس رضی اللہ عنہ انہ علیہ السلام کان یفطر علی رطبات قبل ای یصلی فان لم تکن رطبات فتمرات فان لم تمرات حسا حسوات من ماء (الزیلعی،جلد1صفحہ443)* افطار کے وقت کی دعا یہ ہے :اَلّٰلھُمَّ لَکَ صُمْتُ وَعَلٰی رِزْقِکَ اَفْطَرْتُ(سنن ابی داؤد،جلد2صفحہ 294)اے اللہ میں نے تیرے لئے روزہ رکھا اور تیرے دئیے ہوئے رزق سے میں افطار کرتا ہوں*کسی کو روزہ افطار کرانا انتہائی اجرو ثواب کا باعث ،جیسا کہ حدیث مبارک میں ہے:من فطّر صائما کان مغفرۃ لذنوبہ وعتق رقبتہ من النار وکان لہ مثل اجرہ …..الحدیث(مشکوٰۃ ،جلد1صفحہ173)روزہ دار کو افطار کرانے سے صغیرہ گناہ معاف ہوتے ہیں،جہنم سے نجات ملتی ہے،روزہ دار کے برابر ثواب ملتا ہے۔
وہ مجبوریاں جن کی وجہ سے روزہ توڑا جاسکتا ہے
*روزہ دار اچانک ایسا بیمار ہو گیا کہ روزہ برقرار رکھنے کی صورت میں موت واقع ہوسکتی ہے یا بیماری خطرناک حد تک جاسکتی ہے تو روزہ توڑنا اور دوا استعمال کر لینا جائز ہے(البحر الرائق،جلد2صفحہ281)*سانپ بچھو یا کسی بھی ایسی زہریلی چیز نے کاٹ لیا کہ دوا نہ لینے کی صورت میں موت کا خطرہ ہے یا شدید نقصان کا خطرہ ہے تو بھی دوا کھانا اور روزہ توڑ دینا جائز ہے(البحر الرائق،جلد2صفحہ281)*اگر روزہ دار کو اتنی شدید پیاس لگی کہ پانی نہ پینے کی صورت میں موت یقینی ہے تو بھی پانی پینا اور روزہ توڑنا جائز ہے اور یہی مسئلہ شدید بھوک کی صورت میں بھی ہے(عالمگیری،جلد 1صفحہ 207)*حاملہ عورت کے ساتھ ایسا کوئی مسئلہ پیش آجائے جس سے اس کی اپنی جان یا بچہ کی جان جانے کا خطرہ ہو تو بھی روزہ توڑنا درست بلکہ افضل ہے(فتاویٰ تاتارخانیہ،جلد2صفحہ207)*اگر کسی شخص کے ساتھ کوئی حادثہ پیش آگیا جیسے ایکسیڈینٹ ہوجانا،کسی بلندی سے گرنا،کسی بھاری چیز کے نیچے دب جانا یا ان جیسا کوئی بھی مسئلہ پیش آجائے جس میں جان پر بن جائے تو روزہ توڑنا جائز ہے (البحر الرائق،جلد2صفحہ281)نوٹ!وہ تمام صورتیں جن میں روزہ مجبوراً توڑنا پڑا بعد میں صرف ان کی قضاء کرنا ہوگی کفارہ نہیں(ردالمحتار،جلد2صفحہ402)
وہ مجبوریاں جن کی وجہ سے روزہ چھوڑنا جائزلیکن بعد میں قضاکرناضروری ہے
*کوئی شخص بیمار ہے اور کسی مسلمان ماہر ڈاکٹر و طبیب کے بقول روزہ رکھنے سے اسے شدید نقصان پہنچ سکتا ہے یا موت واقع ہو سکتی ہے تو اس کے لئے روزہ چھوڑنے کی شرعاً اجازت ہے(فتاویٰ شامی،جلد2صفحہ442)اگربیمار کو ڈاکٹر و طبیب نے روزہ سے منع نہیں کیا لیکن خود ماہر ہے اور تجربہ کار ہے تو اپنے غالب گمان پر عمل کر کے روزہ چھوڑ سکتا ہے ،البتہ اگر خود ماہر و تجربہ کار نہ ہو تو ایسا کرنا جائز نہیں ہے(ردالمحتار،جلد2صفحہ422)*اگر فی الوقت بیمار نہیں مگر پہلے گذری بیماری کی وجہ سے لاغر اور کمزور ہے اور اس بیماری کی وجہ سے ضعف باقی ہے روزہ رکھنے کی صورت میں بیماری کے دوبارہ شروع ہوجانے کا یقینی خطرہ ہے تو بھی روزہ چھوڑنا جائز ہے(ردالمحتار،جلد2صفحہ422)*اگرعورت حاملہ ہو اور روزے کی وجہ سے اپنی جان یا بچے کی جان کو خطرہ ہو تو اس حاملہ کے لئے روزہ چھوڑنا جائز ہے(عالمگیری،جلد1صفحہ207) اگر عورت بچے کو دودھ پلاتی ہے اور بچہ اس دودھ کے علاوہ کوئی اور دودھ یا دوسری کوئی خوراک نہیں کھا سکتا ایسی حالت میں دودھ پلانے سے بچے یا ماں کی جان کو خطرہ ہو تو یہ مرضِعہ(دودھ پلانے والی)روزہ چھوڑ سکتی ہے(عالمگیری،جلد1صفحہ207) *مسافر(جوکم ازکم 48میل کی مسافت کاسفر کر رہا ہو ) سفر کی وجہ سے روزہ چھوڑ سکتا ہے اور اگر سفر ذیادہ دشوار نہیں جس میں روزہ رکھنے سے کوئی پریشانی لاحق نہیں ہوتی تو روزہ رکھنا ہی افضل ہے(فتاویٰ شامی،جلد2صفحہ421-423)ایسا مسافر جو صبح صادق کے وقت سفر میں نہ ہو دن کے وقت اگرچہ سفر کا پختہ ارادہ ہو اس کے لئے روزہ چھوڑنا جائز نہیں(فتاویٰ شامی،جلد2صفحہ431)ایسا مسافر جس نے دوران سفر پندرہ دن یا اس سے ذیادہ قیام کا ارادہ کرلیا اس کے لئے روزہ چھوڑنا جائز نہیں(فتاویٰ شامی،جلد2صفحہ431)اگر کوئی مسافر زوال سے پہلے مقیم ہو گیا اور اس سے روزے کے منافی کوئی کام سرزد نہیں ہوا تو اسی وقت سے روزہ رکھنا لازم ہوگا افطار کرنا شرعا جائز نہیں(حوالہ بالا)*ایسا آدمی جو کسی بیماری میں تو مبتلا نہیں لیکن عمر ذیادہ ہونے کی وجہ سے کمزوری اس حد تک ہوچکی ہے کہ روزہ رکھنے کی طاقت نہیں رہی تو ایسا شخص بھی روزہ چھوڑ سکتا ہے(عالمگیری،جلد1صفحہ207)*شوگر کے مریض اگر واقعتاروزہ رکھنے پر قادر نہ ہوں، روزہ رکھنے کی صورت میں جان کا خطرہ ہو تو وہ بھی روزہ چھوڑ سکتے ہیں (ردالمحتار،جلد2صفحہ422)لیکن اس میں حتی الامکان استقامت کی کوشش کی جائے اور رمضان المبارک کی رحمتوں سے رو گردانی نہ کی جائے نیز یہ بھی کہ فدیہ دینے کے بجائے مناسب وقت پر اپنے روزے کی قضاء کریں،تفصیل درج ذیل ہے۔نوٹ!مذکورہ بالا وہ اعذار جن کی وجہ سے روزہ چھوڑنا جائز ہے جب وہ عذر ختم ہو جائے تو چھوڑے ہوئے روزوں کی قضا ء ضروری ہے اور جب تک روزہ رکھنے کی طاقت موجود ہو یا طاقت کا پایا جانا متوقع ہو فدیہ نہیں دے سکتے قضاء ہی ضروری ہوگی(بدائع الصنائع،جلد2صفحہ265)
نوٹ! اگرعذر کی وجہ سے روزہ چھوڑا گیا اور بعد میں روزہ رکھنے کا موقع ہی نہیں ملا جیسے اسی رمضان میں معذور فوت ہو گیا تو اس پر فدیہ بھی نہیں ہوگا اور اگر موقع ملا لیکن روزے رکھنے سے پہلے قریب الموت ہوگیا تو اسے فدیہ کی وصیت لازماً کرنی ہو گی ورنہ گنہگار ہوگا(عالمگیری،جلد1صفحہ207،فتاویٰ شامی،جلد2صفحہ423-424-425)
مفسدات روزہ
وہ چیزیں جن سے روزہ فاسدہوتا (ٹوٹتا)ہے دو طرح کی ہیں (۱)روزہ ٹوٹنے کی صورت میں قضاء اور کفارہ دونوں ہیں(۲)صرف قضاء ہے کفارہ نہیں۔
وہ مفسدات جن کی وجہ سے قضاء اور کفارہ دونوں لازم آتے ہیں
*جان بوجھ کر کھانا ،پینا یا جماع کرنا (عالمگیری جلد1صفحہ205)*لواطت[غیر فطری فعل،ہم جنس پرستی](شامی جلد2صفحہ406)*وہ چیز جو عادتاً دوا یا غذا ہے اسے جان بوجھ کر استعمال کرنا(شامی جلد2صفحہ409-410)جو چیز عادتاً غذا نہیں لیکن اسے کسی نے اپنی عادت بنا لیا تو اسے جان بوجھ کر استعمال کرنے کی صورت میں روزہ ٹوٹ جائے گا،جیسے مٹی وغیرہ کھانے کی عادت بنا لینا(عالمگیری جلد1صفحہ202)
روزے کا کفارہ
مذکورہ صورتیں وہ ہیں جن میں قضاء اور کفارہ دونوں لازم ہیں ،یعنی ایک روزہ توڑنے کی صورت میں بطور کفارہ غلام آزاد کرنا،لگاتار ساٹھ (60)روزے رکھنا یا ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلانا (ان تین میں سے کوئی ایک کام کرنا ہوگا )اور روزے رکھنے کی صورت میں اکسٹھ (61)روزے لگاتاربغیر فاصلے کے رکھنا ہونگے(شامی جلد 2صفحہ412،ھندیہ جلد1صفحہ215)اگر کفارے کے روزے رکھتے ہوئے ایک دن کا ناغہ بھی کرلیا تو دوبارہ شروع کرنا پڑے گا اور پہلے والے روزے کالعدم ہوجائیں گے(شامی جلد 2صفحہ412)البتہ اگر عورت کفارے کے روزے رکھ رہی ہو اور اس کے ’’ایام‘‘شروع ہوجائیں تو اتنے دن کا ناغہ معاف ہے ’’ایام‘‘کے بعد وہیں سے شمار کرے گی جہاں چھوڑا تھا(البحرالرائق ،جلد2صفحہ277)اگر کفارہ مسکینوں کو کھانا کھلانے کی صورت میں ادا کرنا ہو تو اس میں مندرجہ ذیل باتیں ضروری ہیں[۱]بھوکے اور خالی پیٹ مسکینوں کا انتخاب کیا جائے(شامی جلد2صفحہ479)[۲]اگرایک ساتھ ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلایا جا رہا ہے تو صبح و شام دونوں وقت کھانا کھلانا ہوگااور جنہیں ایک وقت کھلایا دوسرے وقت بھی انھیں کو کھلائے(عالمگیری،جلد1صفحہ514)[۳]روزانہ ایک مسکین کو کھانا کھلانے کی صورت میں ایک ہی مسکین کو ساٹھ دن کھلانا بھی ٹھیک اور ساٹھ دنوں میں ہر روز نئے مسکین کو کھلانا بھی درست ہے(البحرالرائق جلد4صفحہ109)۔
وہ مفسدات جن کی وجہ سے صرف قضاء لازم ہے کفارہ نہیں
*اگر منہ بھر کر قصداً قے کردی یا قے خود بخود آئی تھی لیکن اسے واپس حلق سے نیچے اتار دیا (خواہ وہ چنے کے برابر ہی ہو) اور اس وقت روزہ یاد تھا تو اس کیفیت میں روزہ ٹوٹ گیا (ردالمحتارجلد2صفحہ414)*کان میں دوائی یا کوئی بھی تر چیز ڈالنے سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے (شامی جلد2صفحہ402)*ناک میں دوائی یا کوئی بھی تر چیزڈالنے سے روز ہ ٹوٹ جائے گا ،اگر کلی کرتے وقت پانی حلق سے نیچے چلا گیا اور اس حال میں روزہ یاد تھا تو روزہ ٹوٹ گیا(عالمگیری جلد1صفحہ202)البتہ اگر کلی کرتے وقت روزہ یاد نہیں تھا تو فاسد نہیں ہوگا۔*بھول کر کھایا ،پیا،جماع کرلیا،احتلام ہوگیا،تھوڑی مقدار میں قے ہوگئی یا شہوت کی حالت میں دیکھنے و چھونے سے انزال ہو گیا تو روزہ نہیں ٹوٹا مگر روزہ دار نے ان حالتوں میں یہ گمان کر کے کھانا پینا شروع کردیا کہ میرا روزہ ٹوٹ گیا ہے تو اب واقعتاً روزہ ٹوٹ چکا ہے صرف اس کی قضاء لازم ہے کفارہ نہیں(شامی جلد2صفحہ402)نسوار اور سگریٹ استعمال کرنے سے روزہ ٹوٹ جائے گا(شامی جلد2صفحہ395،فتاویٰ دارلعلوم دیوبندجلد2صفحہ428)*اگر روزہ دار کو اتنی شدید پیاس یا بھوک لگی کہ پانی نہ پینے اورکھانانہ کھانے کی صورت میں موت یقینی ہے ،پھر اس نے کھالیا یا پی لیا تو روزہ ٹوٹ جائے گا(عالمگیری،جلد 1صفحہ 207)*غروبِ آفتاب سے پہلے دی گئی اذان سن کر یا کسی اور طرح غلطی سے غروبِ آفتاب سے پہلے افطار کر لیا تو روزہ مکمل ہونے کے بجائے ٹوٹ گیا (ہدایہ جلد 1صفحہ207)اور پہلے دی گئی اذان پر وقت ہونے یا نہ ہونے کا شک تھایقین نہیں تھا اس کے باوجود افطار کرلیا توبھی روزہ ٹوٹ گیا قضاء کے ساتھ ساتھ کفارہ بھی لازم ہوگا(الاشباہ والنظائر،صفحہ60)*اگر کسی بھی وجہ سے خون تھوک پر غالب آکر حلق سے نیچے اتر گیا تو روزہ ٹوٹ جائے (عالمگیری،جلد 1صفحہ 203)*سحری کا وقت ختم ہونے کے باوجود(یہ سمجھ کر کہ وقت ختم نہیں ہوا) سحری کھانے میں مشغول رہنے سے روزہ نہیں ہوا افطار تک کھانا پینا منع ہے اور قضاء لازم ہے(عالمگیری،جلد 1صفحہ 194)*دانت میں پھنسی چیز اگر نگل لی اور وہ چنے سے ذیادہ تھی یا دانتوں سے باہر نکال کر دوبارہ نگل لی تو کم ہو یا ذیادہ ہر صورت میں روزہ ٹوٹ جائے گا((عالمگیری،جلد 1صفحہ 202)*کسی بیماری میں مبتلا ہونے والے یا حادثے کا شکار ہونے والے کو دوائی یا پانی پلانے سے روزہ ٹوٹ گیا فقط قضاء لازم آئے گی کفارہ نہیں،اورایسی دوا جو دماغ یا پیٹ کے زخم پر لگانے کی صورت میں دماغ یا پیت تک سرایت کر جائے اس سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے(شامی جلد2صفحہ402)*ایسی دوا جو ناک سے سونگھی جائے اس کے اثرات دماغ تک پہنچنے کی وجہ سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے،اور دمہ کے مریض جو وینٹولین استعمال کرتے ہیں اس سے بھی روزہ ٹوٹ جاتا ہے(شامی جلد2صفحہ395)*اگر روزہ دار کو روزہ توڑنے پر مجبور کیا جائے اور جان جانے کا خطرہ سمجھ کر روزہ دار روزہ توڑ دے تو بھی شرعاً روزہ ٹوٹ جائے گا (مبسوط سرخسی جلد3صفحہ98)*مسافر نے صبح صادق سے روزہ رکھا تھا پھر کچھ کھایا پی لیا تو روز ہ ٹوٹ گیا قضاء لازم ہے(شامی جلد2صفحہ431)نوٹ !یہ اور ان جیسی دیگر صورتیں وہ ہیں جن میں روزہ ٹوٹ جاتا ہے لیکن کفارہ لازم نہیں آتا فقط قضاء کرنا ہوگی((عالمگیری،جلد 1صفحہ 207،فتاویٰ تاتارخانیہ جلد 2صفحہ384)
وہ چیزیں جن سے روزہ نہیں ٹوٹتا
*جسم کے بالوں میں تیل لگانے سے روزہ نہیں ٹوٹتا (شامی جلد 2صفحہ419)*آنکھوں میں سرمہ یا دوائی ڈالنے سے روزہ نہیں ٹوٹتا(شامی جلد 2صفحہ419)*مسواک تر ہو یا خشک اس سے روزہ نہیں ٹوٹتا(شامی جلد 2صفحہ419)*کسی بھی قسم کی خوشبو لگانے سے روزہ نہیں ٹوٹتا (شامی جلد 2صفحہ417)*ٹیکہ (رگ میں لگایا جائے یا گوشت میں)لگوانے سے روزہ نہیں ٹوٹتا (ردالمحتار جلد 2صفحہ395)*بھول کر کھانے اور پینے سے روزہ نہیں ٹوٹتا خواہ کم کھایا یا ذیادہ(شامی جلد 2صفحہ394)*کان میں پانی جانے سے روزہ نہیں ٹوٹتا (شامی جلد 2صفحہ396)*خود بخود قے ہونے سے روزہ نہیں ٹوٹتا خواہ وہ کم ہو یا ذیادہ(بدائع الصنائع جلد2صفحہ92)احتلام ہونے سے روزہ نہیں ٹوٹتا (بدائع الصنائع جلد2صفحہ91)*حلق میں گردو غبار دھواں یا مکھی و مچھر چلے جانے سے روزہ نہیں ٹوٹتا (خزانۃ الفقہ صفحہ81،شامی جلد2صفحہ395)*پچھنا ،سینگی لگوانے سے روزہ نہیں ٹوٹتا (خزانۃ الفقہ صفحہ81)مجبوراً کسی چیز کو چکھا حلق سے نیچے نہیں اتارا تو روزہ نہیں ٹوٹتا ،جیسے بدمزاج و سخت طبیعت شوہر کی سختی اور ناراضگی سے بچنے کے لئے عورت نے کھانا یوں چکھا کہ حلق تک اس کا اثر نہیں پہنچا تو روزہ نہیں ٹوٹے گا (فتاویٰ تاتارخانیہ جلد 2صفحہ380)ایسا آپریشن جو پیٹ اور دماغ کے علاوہ کسی اور عضوِ جسم کا ہو اس سے روزہ نہیں ٹوٹتا (شامی جلد2صفحہ395)*اگر دوچار قطرے پسینہ روزہ دار کے منہ میں چلا جائے تو اس سے روزہ نہیں ٹوٹتا (فتاویٰ تاتارخانیہ جلد 2صفحہ369)البتہ اگرپسینہ ذیادہ ہو اور حلق میں چلا جائے تو روزہ فاسد ہو جائے گا *اگر ماں نے اپنے دودھ پیتے بچے کو دودھ پلایا تو اس سے روزہ نہیں ٹوٹتا (البحرالرائق جلد 2صفحہ278)

مکروہاتِ روزہ

*بلا عذر کوئی چیز چکھنے یا چبانے سے روزہ مکروہ ہو جاتا ہے(عالمگیری،جلد 1صفحہ199)*منہ میں جمع شدہ لعاب کو نگل لینے سے روزہ مکروہ ہوجاتا ہے(عالمگیری،جلد 1صفحہ199)*روزے کی حالت میں ٹوتھ پیسٹ یا منجن استعمال کرنے سے روزہ مکروہ ہوجاتا ہے اور اگر حلق سے نیچے اتر جائے تو فاسد ہو جاتا ہے(فتاویٰ شامی جلد2صفحہ 416)*ناک میں پانی ڈالنے یا کلی کرنے میں پانی بہت ذیادہ استعمال کرنا یا بار بار کلی کرنا مبالغہ میں آتا ہے اور یہ مکروہ ہے(عالمگیری،جلد 1صفحہ199)*روزے کی حالت میں اتنا خون دینا جس سے کمزوری آجائے مکروہ ہے (عالمگیری،جلد 1صفحہ200)*ضرورتِ شدیدہ کے بغیر روزے کی حالت میں دانت یا داڑھ نکلوانا مکروہ ہے (شامی جلد 2صفحہ 396)*جماع کے محرکات یعنی شہوت کے ساتھ بوسہ لینا ،شہوت کے ساتھ دیکھنا و چھونا،فحش مناظر دیکھنا وغیرہ یہ سب کام مکروہ ہیں (حجۃ اللہ البالغہ ،جلد 2صفحہ141)*غیبت کرنے ،چغلخوری کرنے،دھوکہ دینے،جھوٹی قسم کھانے،جھوٹی گواہی دینے،ظلم کرنے،فحش گوئی کرنے اور بے پردگی کرنے سے روزہ مکروہ ہوجاتا ہے (سنن ابن ماجہ ،صفحہ 141)
روزہ کا فدیہ
جب کوئی آدمی کسی عذربیماری وغیرہ کی وجہ سے روزہ نہ رکھ سکے پھر اس میں روزہ قضاء کرنے کی طاقت و قوت فی الوقت بھی نہ ہو اور آئندہ بھی توقع نہ ہو تو ایسے شخص کو شریعت نے رہ جانے والے روزوں کی ذمہ داری سے بری الذمہ ہونے کے لئے’’ فدیہ‘‘ دینے کی اجازت دی ہے گویا ایسا آدمی اپنے ایک روزے کے بدلے میں ’’نصف صاع‘‘گندم یا ’’ایک صاع‘‘جو،کھجور وغیرہ میں سے کوئی چیز یا اس کی قیمت کسی مستحق مسلمان کو خوددے یا دینے کی وصیت کرے(ہدایہ جلد 1صفحہ 207)آسان الفاظ میں فدیہ ایک آدمی کے صدقۂ فطر کو کہا جاتا ہے جس کی ادائیگی کے بعد اگر مریض تندرست ہو جائے تو اس کا فدیہ کالعدم ہوجائے گا اب روزوں کی قضاء ہی کرنا ہوگی(عالمگیری جلد1صفحہ207)اگر کسی شخص نے اپنے چھوڑے ہوئے روزوں کے فدیہ کی وصیت نہیں کی اور فوت ہو گیا تو اس کے ترکہ میں سے تمام ورثاء کی دلی خوشی کے بغیر فدیہ ادا کرنا جائز نہیں (عالمگیری جلد1صفحہ207)نوٹ! اگر ورثاء میں نابالغ بچہ ہو تو اس کی رضامندی کا اعتبار نہ ہونے کی وجہ سے بالغ ورثاء کو اس کا مال الگ کرکے اپنے مال سے فدیہ ادا کرنا جائز ہے(حوالۂ بالا )فدیہ مختلف محتاجوں کو بھی دے سکتے ہیں اور ایک ہی محتا ج کو بھی دے سکتے ہیں (در مختار جلد 2صفحہ427)کئی سالوں کا فدیہ ادا کرتے وقت ادائیگی کے وقت کی قیمت کا اعتبار ہو گا یعنی اگر گذشتہ دس سال کے روزوں کا فدیہ دینا ہے تو گذشتہ قیمت کا اعتبار نہیں ہوگا جس وقت دیا جارہا ہے اس وقت کی قیمت کا اعتبار ہوگا(شامی جلد 2صفحہ 258)
نوٹ! آجکل بہت سارے لوگ معمولی سی بیماری یا کبھی کبھار بڑی بیماری کی صورت میں فوراً فدیہ دے دیتے ہیں اور قضاء کی کوشش تک نہیں کرتے یہ شرعاً انتہائی غلط ہے ،اولاً روزہ رکھا جائے اگر روزہ نہ رکھ سکے تو قضاء کی جائے اور اگر قضاء کی طاقت و قوت نہیں تو فدیہ دینا جائز ہوگا اگرقضاء کی طاقت و قوت ہونے کے باوجودفدیہ دیا تو ادائیگی نہیں ہوگی وہ صورتیں جن میں روزہ نہ ہونے کے باوجود رمضان میں کھاناپیناجائز نہیں *کسی نے وقتِ افطار کے وقت سے پہلے غلطی سے افطار کرلیا *کسی نے صبح صادق کا وقت ہوجانے کی باوجود سحری جاری رکھی *حیض یا نفاس والی عورت دن کے کسی حصے میں پاک ہوگئی*کسی نے بھول کر کھایا پیا پھر اسے روزہ ٹوٹنے کا سبب قرار دے کر قصدا کھالیا *کسی کا روزہ غلطی سے ٹوٹ گیا یا جبراً توڑوایا گیا *مسافر مقیم ہوگیا*کافر مسلمان ہو گیا *نابالغ بالغ ہوگیا ان تمام صورتوں میں بقیہ دن کھانے پینے سے رکنا ضروری ہے (البحرالرائق جلد 2صفحہ288-289)
مستحباتِ روزہ
روزے میں بھی دیگر عبادات کی طرح مندجہ ذیل باتیں مستحب ہیں *محتاجوں ،مسکینوں اور رشتہ داروں پر صدقہ و خیرات کرنا اور نیک اعمال جیسے تحصیلِ علم ،تلاوتِ قرآن،درود شریف ،استغفار اور ذکر و اذکار میں مشغول رہنا (مشکوٰۃ جلد1صفحہ 173)*دیگر اعضاءِ جسم کے ساتھ ساتھ زبان کو بدگوئی ،بدکلامی اور ہر ناجائز لفظ سے محفوظ رکھنا (مشکوٰۃ جلد1صفحہ 176)*غروبِ آفتاب کے بعد افطار میں جلدی کرنا اور صبح صادق سے پہلے پہلے سحری میں تاخیر کرنا اور سحری میں کچھ نہ کچھ کھانا(عالمگیری جلد 1صفحہ200)*طاق عدد میں کھجور یاچھوہارے سے افطار کرنا (مشکوٰۃ جلد1 صفحہ175 ،مرقاۃ جلد4صفحہ257) روزہ کے متفرق مسائل*روزے کا مقصد اللہ اور اس کے رسول ﷺ کا حکم اس طریقے سے ماننا ہے کہ روزہ دار میں تقویٰ اور پرہیزگاری آجائے،جیسا کہ ’’ارشاد باری تعالیٰ‘‘ہے:یَا اَیُّھَا الّذِیْنَ آمَنُوُا کُتِبَ عَلَیْکُمُ الصِّیامُ کَمَا کُتِبَ عَلَی الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ(سورۃ بقرہ،آیت183)اے ایمان والو!فرض کئے گئے ہیں روزے تمہارے اوپر جیسا کہ تم سے پہلے لوگوں پر فرض کئے گئے تھے تا کہ تم متقی (پرہیزگار)بن جاؤ*روزہ افطار کرانا انتہائی اجروثواب کا حصول اور گناہوں کی یقینی معافی کا ذریعہ ہے اور اس میں یہ شرط بھی نہیں کہ پیٹ بھر کر افطاری کرائی جائے بلکہ ایک گھونٹ دودھ ، شربت یاآدھی کھجور سے افطاری کرادینا ہی بڑی سعادت مندی ہے(مشکوٰۃ جلد1صفحہ 173)*اگر کوئی بیمار شخص دوائی سے روزہ افطار کرے تو بھی جائز ہے لیکن مسنون طریقہ وہی ہے جو پہلے گذر چکا ہے(البحرالرائق جلد 2صفحہ282)*بچوں کو روزے کا محب بنانے اور روزے کی عادت ڈالنے کے لئے اس وقت روزہ رکھنے کا حکم دیا جائے جب ان میں روزہ رکھنے کی طاقت ہو اور روزہ رکھنا ان کے لئے ضرر کا سبب نہ بنے (شامی جلد 2صفحہ409) اگر نابالغ بچہ روزہ توڑ دے تو اس کی قضاء ضروری نہیں (شامی جلد 2صفحہ409)*اگر کوئی شخص ایک ملک سے دوسرے ملک میں اتنے روزے رکھ کرگیا کہ وہاں اِس کے تیس روزے پورے ہوگئے جبکہ اس ملک میں ابھی روزے مکمل نہیں ہوئے تو ایسے شخص کے لئے ۱کتیسواں روزہ رکھنا لازم نہیں (کتاب الآثار،صفحہ117) اور اگر کوئی شخص کسی ایسے ملک میں دورانِ رمضان گیا کہ وہاں رمضان تاخیر سے شروع ہوا تھا تو اِس شخص کے لئے ضروری ہے کہ اس ملک والوں کے ساتھ عید کرلے اور اس کے بعد اپنے باقی ماندہ روزے رکھے (کتاب الآثار،صفحہ117حدیث نمبر541)*روزے سے بچنے کے لئے بلا وجہ اور بلا ضرورت سفر اختیار کرنا درست نہیں تاہم واقعتا سفر میں ہو تو روزہ چھوڑ کر بعد میں اس کی قضاء کرنا درست ہے لیکن بہتر پھر بھی روزہ رکھنا ہی ہے (تاتارخانیہ جلد 2صفحہ 383)*سحری اور افطاری کے لئے سائرن بجانا یا اعلان کرنا عقلا اور قیاساً درست ہے(شامی جلد 6صفحہ350) لیکن مستقل اسی کام کے لئے بیٹھ کر بارباراعلان کرنا درست نہیں کیونکہ اس سے بلا ضرورت مسجد کی بجلی خرچ ہوتی ہے،مریضوں کو تکلیف ہوتی ہے،عبادت گزاروں کی عبادت میں خلل واقع ہوتا ہے وغیرہ وغیرہ*مسجد میں اعتکاف کی نیت کئے بغیر سحری یا افطاری کرنا درست نہیں ،اگر باہمی اتفاق یا کسی دوسری مصلحت کے تحت ایسا کرنا پڑے تو اعتکاف کی نیت ضرور کی جائے (عالمگیری جلد 5صفحہ321)*مؤذن کو چاہئے کہ پہلے مختصر افطاری کر لے جیسا کھجور لینا وغیرہ پھر اذان دے کر باقی لوگوں مطلع کرے (مراقی الفلاح صفحہ 73)
رمضان اورنمازِ تراویح
رمضان المبارک کی دوسری اہم عبادت ’’نماز تراویح ‘‘ہے اس کے احکام کو مندرجہ ذیل اقسام میں تقسیم کیا جائے تو سمجھنا انتہائی آسان ہوجائے گا (۱)تراویح کی تعریف(۲)تراویح کا حکم(۳)تراویح کی فضیلت (۴)تراویح کی ابتداء(۵)تراویح کی رکعات (۶)تراویح اور تہجد میں فرق
تعریفِ تراویح
تراویح ترویحہ کی جمع ہے اور ترویحہ کہتے ہیں’’ایک دفعہ کے آرام‘‘ کونماز تراویح کی 20رکعات میں ہر چار رکعت پرتھوڑا آرام کرنا ’’ترویحہ‘‘کہلاتا ہے اور جن 20رکعات میں یہ آرام کرنا واقع ہوا انھیں ’’تراویح‘‘کہتے ہیں،جیسا کہ ’’علامہ ابن حجرؒ ‘‘نے فتح الباری میں تحریر کیا ہے:التراویح جمع ترویحۃٍ وھی المرۃ الواحدۃ من الراحۃ……الخ(فتح الباری،جلد2صفحہ315)
نماز تراویح کا حکم
رمضان میں نمازِ عشاء کے وتر سے پہلے نمازِ تراویح پڑھنا سنت ہے،جیسا کہ حدیث مبارک میں ہے:وسننت لکم قیامہ(سنن ابن ماجہ،صفحہ94،سنن نسائی،جلد1صفحہ308)اسی طرح ’’ہدایہ‘‘ میں ہے کہ نمازِ تراویح سنت مؤکدہ ہے(ہدایہ،جلد1صفحہ99)اور امام نووی ؒ نے نماز تراویح کے سنتِ مؤکدہ ہونے پر علماء کا اجماع نقل کیا ہے‘‘(کتاب الاذکار،صفحہ83)اور امام حاکم نے ’’مستدکِ حاکم ‘‘میں نمازِ تراویح کو سنت مؤکدہ قرار دیا ہے(مستدکِ حاکم،جلد1صفحہ440)ان حوالہ جات سے یہ معلوم ہو گیا کہ نمازِ تراویح سنت ہے ۔
نمازِ تراویح کی فضیلت
نمازِ تراویح کی بے شمار فضیلتیں ہیں جیسا کہ حدیث مبارک میں ہے:من قام رمضان ایمانا واحتسابا غفر لہ ما تقدم من ذنبہ……..الخ(صحیح بخاری،جلد1حدیث نمبر37،صحیح مسلم ،جلد 1حدیث نمبر759)جس نے ایمان کی حالت میں اجروثواب کی نیت سے قیام رمضان’’نماز تراویح‘‘کوادا کیا اس کے پچھلے تمام گناہ معاف کر دیئے جائیں گے،مزید یہ کہ جتنی دیر تراویح میں مصروفیت رہے گی اللہ کی رحمتوں کا نزول ہوتا رہے گا ،قرآن سننے کا ثواب ملتا رہے گا، اور رمضان کی برکات کو جمع کرنے کا موقع ملتا رہے گا۔
تراویح کی ابتداء
تراویح کی ابتداء زمانۂ نبوت سے ہوئی خود رسول اللہ ﷺ نے نمازِ تراویح تین دن ادا فرمائی پھر اس خیال سے ترک کردی کہ فرض نہ ہوجائے(صحیح بخاری جلد1صفحہ269،صحیح مسلم جلد 1صفحہ259،سنن نسائی جلد 1صفحہ238 )اور خود رسول اللہ ﷺ کا یہ فرمان ’’وسننت لکم قیامہ(سنن ابن ماجہ،صفحہ94،سنن نسائی،جلد1صفحہ308)‘‘بھی تراویح کا آغاز زمانۂ نبوت سے بتا رہا ہے اس ابتداء کے بعد صحابہ کرام رضی اللہ عنھم اپنے گھروں میں یا مسجد میں جہاں چاہتے انفراداً یا اجتماعاً جیسے چاہتے نمازِ تراویح ادا فرماتے رہے یہاں تک کہ ’’سیدنا عمر فاروقؓ ‘‘کا زمانۂ خلافت آگیا تو حضرت عمر فاروقؓ نے صحاب�ۂکرام کو جماعت کے ساتھ نمازِ تراویح کی ادائیگی کا پابند بنایا (صحیح بخاری جلد1صفحہ269،مؤطا امام مالک صفحہ98)اس کے بعد تراویح کا سلسلہ ابھی تک جاری و ساری ہے جو قیامت تک جاری رہے گا ، ان شاء اللہ العزیز۔
تعدادِرکعات تراویح
صحیح اور مستند احادیث کی روشنی میں نمازِ تراویح کی تعدادِ رکعات کے بارے میں خود رسول اللہ ﷺ سے کچھ بھی ثابت نہیں تاہم آپ کے تربیت یافتہ ،نبوت اور نزول قرآن گواہان صحابۂ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین کے سرخیل سیدنا عمر فاروقؓ نے جس جماعتِ تراویح پر اہل ایمان کو جمع فرمایا تھا(معرفۃ السنن والآثار جلد4صفحہ 42،حدیث نمبر2063) اس کی تعدادِ رکعات بیس(20)تھی(مصنف ابن ابی شیبہ جلد 2صفحہ285،مصنف عبدالرزاق جلد 4صفحہ 261حدیث نمبر7519،مؤطا امام مالک صفحہ98)اور سیدنا عمر فاروقؓ کے طریقے کو خود رسول اللہ ﷺنے سنت کہہ کر قابلِ عمل قرار دیا ہے،جیسا کہ حدیث مبارک میں ہے:علیکم بسنتی وسنۃ خلفاء الراشدین المھدیین (سنن ابی داؤد جلد2صفحہ 279 )سیدنا عمر فاروق ؒ کے علاوہ دیگر صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین بھی بیس (20)رکعات ہی کو درست قرار دیتے اور اپنے عمل میں لاتے تھے ،جیسا کہ حضرت عثمانؓ کے زمانے میں تراویح بیس (20)پڑھی جاتی تھیں (سنن کبریٰ للبیھقی جلد 2صفحہ699)حضرت علی المرتضیٰؓ کے زمانے میں بھی تراویح بیس رکعات ہی پڑھی جاتی تھیں (سنن کبریٰ للبیھقی جلد 2صفحہ699)خلفائے راشدینؓ کے علاوہ دیگر صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین بھی بیس رکعات کے قائل تھے (مصنف ابن ابی شیبہ جلد 2صفحہ 285،سنن کبریٰ للبیھقی جلد 2صفحہ699ط:دارلکتب العلمیہ)بلکہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین کاتراویح کی رکعات بیس ہونے پر اجماع نقل کیا گیا ہے (مرقاۃ المفاتیح جلد 3صفحہ 194،بدائع الصنائع جلد 1صفحہ 188،الفتاوٰی الکبریٰ ج۱صفحہ۲۲۷)
صحابۂ کرام کے قول و فعل اور عمل کی حجیت
صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیھم اجمعین براہ راست صاحبِ شریعت حضرت محمد ﷺ کے شاگرد ہیں ،اللہ تعالی ٰ نے انھیں اپنے محبوب پیغمبر ﷺ کی صحبت کے لئے چنا ہے ،انھیں کتابتِ وحی کا شرف عطا فرمایا ہے ،اور دینِ اسلام کو ان کی طرف منسوب فرمایا ہے انھی وجوہات کی بنا ء پر صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین کے قول و فعل اور عمل کو بہت بڑی حیثیت دی گئی ہے ،چنانچہ حدیث مبارک ہے:علیکم بسنتی وسنۃ خلفاء الراشدین المھدیین (سنن ابی داؤد جلد2صفحہ 279 )دوسری جگہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ میری امت تہتر فرقوں میں بٹے گی ان تہتر میں سے صرف ایک راہ راست پر ہوگا باقی سب گمراہ ہونگے اور ناجی فرقہ اسے قرار دیا جو پیغمبر ﷺ اورآپ کے صحابہ کے طریقے کو اختیار کرنے والا ہوگا ،حدیث مبارک کا آخری جملہ ملاحظہ ہو :قال ما انا علیہ واصحابی (جامع ترمذی جلد 2صفحہ89)ایک مقام پر تو رسول اللہ ﷺ نے باقاعدہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین کی پیروی کی وصیت فرمائی ہے ،ملاحظہ فرمائیں : اوصیکم باصحابی(مستدرکِ حاکم جلد 1صفحہ 198)جب ان مقدس ہستیوں کا قول فعل یا عمل اس قدر قیمتی اور قابل تقلید ہے تو بیس رکعاتِ تراویح پر ان کا اجماع بھی ہر لحاظ سے قابلِ عمل ہے ۔
تابعین و تبع تابعین اور آئمہ کے نزدیک تعدادِرکعاتِ تراویح
صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین کے بعد تابعین و تبع تابعین بھی بیس رکعاتِ تراویح کے قائل تھے (مصنف ابن ابی شیبہ جلد 2صفحہ 285) آئمہ متبوعین (آئمہ اربعہ)بھی تراویح کی درست تعداد بیس (20)ہی قرار دیتے ہیں ،چنانچہ امام الآئمہ آسمان فقہ کے آفتاب و مہتاب ’’امام اعظم ابوحنیفہ ؒ ‘‘ سے تراویح کی تعداد بیس نقل کی گئی ہے(فتاویٰ قاضی خان جلد 1صفحہ121،مبسوط سرسخی جلد 2صفحہ 142)امام جلیل ’’امام شافعیؒ ‘‘ کے ہاں بھی تعداد رکعات تراویح بیس ہیں (کتاب الاُم جلد 1صفحہ 125)جبل استقامت ’’امام احمد بن حنبلؒ ‘‘ بھی صحیح تعداد رکعاتِ تراویح بیس قرار دیتے ہیں (المغنی لابن قدامہ جلد 1صفحہ 298)امامِ مدینہ ’’ امام مالک ؒ ‘‘ سے ایک روایت میں تراویح کی تعداد بیس نقل کی گئی ہے اور دوسری میں تعدادِ رکعات تراویح چھتیس قرار دی گئی ہے(بدایۃ المجتھد جلد 1صفحہ125،مجموع شرح مھذب جلد 4صفحہ 32)چھتیس والے قول میں بھی در حقیقت تراویح کی تعداد بیس ہی ہے باقی نوافل ہیں کیونکہ اہل مدینہ ثواب میں مکہ والوں کے ساتھ برابری کی کوشش کرتے ہوئے ہر چار رکعت پر دو رکعت نوافل انفراداً پڑھتے تھے (مجموع شرح مھذب للنووی جلد 4صفحہ 134)مذکورہ نامور صلحاء ملت اور زعماء امت کے مستند اقوال کے بعد یہ بھی ملحوظ رہے کہ چودہ صدیوں سے ’’ حرمین شریفین ‘‘ میں بیس تراویح پڑھی اور پڑھائی جاتی ہیں،دیکھئے ’’ الشیخ قاضی عطیہ محمد سالم‘‘کی کتاب ’’ التراویح اکثر من الف عام فی المسجد النبی علیہ الصلاۃ والسلام ‘‘مزید یہ کہ رمضان المبارک میں رسول اللہ ﷺ عام دنوں سے ذیادہ عبادت فرمایا کرتے تھے اورذیادہ عبادت بیس رکعات کی صورت میں ممکن ہے بیس سے کم میں نہیں ،ان معروضات کا مقصد یہ ہے کہ انھیں ذہن نشین کرکے وسواس سے بچا جائے اور چودہ صدیوں سے جاری اسلاف کے طریقے کو اپنا کر اپنے آپ کو نفس پرستی اور خواہشات سے بچایا جائے ۔ تراویح اور تہجد میں فرق
رمضان المبارک کا مقدس مہینہ کثرتِ عبادت کا تقاضا کرتا ہے لیکن دوسری طرف کچھ وسواس ہیں جو عبادت سے روکنے کے لئے مختلف حیلے بہانے تلاش کرتے ہیں انہی حیلوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ ’’تراویح اور تہجدایک ہی چیز کا نام ہے لہذا الگ سے تراویح کی کوئی حیثیت نہیں‘‘ اس وسوسے میں آکر کئی لوگ تراویح کی حیثیت کو یکسر نظر انداز کر دیتے ہیں اس لئے ذیل کی سطورمیں یہ بتایا جائے گا کہ تراویح الگ اور تہجد الگ نماز ہے (۱)تہجد کی مشروعیت قرآن مجید سے ثابت ہے ،جیسا کہ فرمانِ باری تعالیٰ ہے’’ وَمِنَ اللَّیْلِ فَتَھَجَّدْ بِہ نَافِلَۃَ لَّک‘‘َ(سورۂبنی اسرائیل آیت نمبر 79)اور رات کے کچھ حصے میں تہجد پڑھ لیا کریں جو آپ کے لئے ایک زائد چیز ہے،دوسرے مقام پر یو ں فرمایا ’’قُمِ اللّیْلِ اِلَّا قَلِیْلًا(سورۂ مزمل آیت نمبر2 )رات میں کھڑے ہوجاؤ(تہجد کے لئے)مگر کم ،ان آیات سے تہجد کی مشروعیت واضح ہے جب کہ تراویح قرآن کے بجائے حدیث سے مشروع ہوئی،جیسا کہ حدیث مبارک میں ہے:وسننت لکم قیامہ(سنن ابن ماجہ،صفحہ94،سنن نسائی،جلد1صفحہ308)اب ایک عبادت بذریعۂ قرآن الگ موقع پر مشروع ہواور دوسری عبادت بذریعۂ حدیث الگ موقع پر مشروع ہوئی ہوتو ان دونوں کو کیسے ایک کہا جاسکتا ہے اور کیسے ایک مانا جاسکتا ہے،ہر گز ایک نہیں کہا جاسکتا(۲)مدینہ منورہ میں رسول اللہ ﷺ نے باجماعت نماز تراویح صرف تین دن پڑھائی اس کے بعد اس کے فرض ہوجانے کے خدشے سے ترک فرما کر انفراداً پڑھنے کی ترغیب دی (صحیح بخاری جلد 1صفحہ269،صحیح مسلم جلد 1صفحہ259)جبکہ تہجد کی فرضیت اس سے سالوں پہلے مکہ مکرمہ میں منسوخ ہو چکی تھی ،جیسا کہ حدیث مبارک میں ہے ان اللہ عز وجل افترض قیام اللیل ……….حتیٰ انزل اللہ ….التخفیف…..فصار قیام اللیل تطوعا(صحیح مسلم جلد 1صفحہ256)اب ایک عبادت کی فرضیت مکہ میں منسوخ ہوچکی ہے
جب کہ دوسری عبادت کی فرضیت کا خدشہ مدینہ منورہ میں پیدا ہوا تو یہ دونوں ایک کیسے کہلائیں گی،ہر گز ایک نہیں (۳)نمازِ تہجد کے سنتِ مؤکدہ نہ ہونے پر اتفاق ہے جب کہ نمازِ تراویح کے سنتِ مؤکدہ ہونے پر اتفاق ہے (جامع الرموز جلد1صفحہ95)اب ایک عبادت بالاتفاق سنت مؤکدہ کہلائے اور دوسری کے سنت مؤکدہ نہ ہونے پر اتفاق ہو تو یہ دونوں کیسے ایک کہلائیں گی،ہر گز ایک نہیں (۴) حضراتِ محدثین نے اپنی شہرہ آفاق کتب میں ان دونوں عبادتوں کے لئے الگ الگ ابواب قائم کئے ہیں جیسے صحیح بخاری،صحیح مسلم ،ِسنن ابی داؤد،جامع ترمذی،سنن نسائی،سنن ابن ماجہ،مؤطا امام مالک ،مصنف عبدالرزاق،مصنف ابن ابی شیبہ،سنن کبریٰ للبیھقی،دار قطنی اور کتاب الآثار سمیت بہت ساری کتب میں دونوں کے لئے الگ الگ ابواب قائم کئے گئے ہیں اگر یہ ایک ہی عبادت ہے تو باب الگ الگ کیوں قائم کئے گئے ،یہ ہر گز ایک نہیں ہیں(۵)نمازِ تراویح کا وقت نماز عشاء کے فرائض کے ساتھ ہے جب کہ نمازِ تہجد کا وقت آدھی رات سے آخر تک ہے (فتاویٰ علمائے حدیث جلد 6صفحہ251)جب دونوں کا وقت ہی الگ الگ ہے تو دونوں ایک کیسے ہو سکتی ہیں ،یہ دونوں الگ الگ عبادتیں ہیں انھیں الگ ہی رکھا جائے اور ان کے اپنے اپنے وقت میں انھیں ادا کیا جائے،اللہ تعالیٰ ہمیں رمضان جیسے مقدس مہینے میں عبادت سے روکنے والے تمام وسواس سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے ۔
رمضان اور اعتکاف
اعتکاف کی تعریف
عبادت کی نیت سے مسجد میں ٹھہرے رہنے کواعتکاف کہتے ہیں جیسا کہ ’’عالمگیری ‘‘ میں ہے :فھو اللبث فی المسجد مع النیۃ (عالمگیری جلد1صفحہ211)
اعتکاف کی شرائط
ہر عبادت کی کچھ نہ کچھ شرائط ہوتی ہیں جن شرائط کے بغیر وہ عبادت درست نہیں ہوتی ،دیگر عبادات کی طرح اعتکاف کی مندرجہ ذیل شرائط ہیں
(۱)مسلمان ہونا (۲)عاقل ہونا (۳)مرد کاجنابت سے اور عورت کا جنابت کے ساتھ ساتھ حیض و نفاس سے پاک ہونا (۴)اعتکاف کی نیت کرنا (۵)سنت اور واجب اعتکاف میں روزہ رکھنا (۶)جس جگہ اعتکاف کیاجارہا ہو اس جگہ کا شرعی مسجد ہونا(عالمگیری جلد 1صفحہ211) نوٹ! عاقل ہونا شرط ہے بالغ ہونا نہیں لہذا نابالغ عاقل بچہ اعتکاف کرسکتا ہے ،نیزیہ کہ عورت کے حق میں اس کے گھر کی برائے اعتکاف مخصوص کردہ جگہ ہی مسجد کہلائے گی ۔

اعتکاف کے فضائل
اعتکاف کے بے شمار فضائل ہیں جیساکہ حدیث مبارک میں ہے ،رسول اللہ ﷺ نے معتکف کے بارے میں ارشاد فرمایا کہ’’ھو یعتکف الذنوب ویجزی لہ من الحسنات کعامل الحسنات کلھا‘‘(ابن ماجہ بحوالہ مشکوٰۃ صفحہ 183)کہ معتکف گناہوں سے محفوظ رہتا ہے اور جن نیک اعمال کو وہ اعتکاف کی وجہ سے نہیں کر سکا ان نیک اعمال کا اجر بھی اسے یوں ہی ملتا ہے جیسے ان نیک اعمال کرنے والوں کو ملتا ہے ،اسی طرح ایک اور حدیث میں یوں ارشاد فرمایا کہ:تکفل اللہ لمن کان المسجد بیتہٗ بالروح والرحمۃ والجواز علی الصراط الی رضوان اللہ الی الجنۃ(مجمع الزوائدجلد 2صفحہ22)جس شخص نے مسجد کو اپنا گھر بنایا(اس میں اعتکاف کیا )اللہ تعالیٰ نے اسے خوشی ،رحمت اور پل صراط سے گذرنے(یعنی جنت )کی ضمانت دی ہے اعتکاف کی فضیلت اس سے بھی روزِ روشن کی طرح عیاں ہوجاتی ہے کہ خود رسول اللہ ﷺ نے ہر سال اعتکاف فرمایا،جیساکہ حدیث مبارک میں ہے:ان النبی ﷺ کان یعتکف العشر الاواخر من رمضان حتی قبضہ اللہ(جامع ترمذی جلد 1صفحہ 164)ان فضائل سے واضح ہورہا ہے کہ اعتکاف ایک عظیم الشان عبادت ہے نیز یہ بھی کہ معتکف اللہ کے گھر میں مہمان کی حیثیت سے آتا ہے اور میزبان جتنا عظمت والا ہو مہمان کو اُتنے ہی اعزاز و اکرام سے نوازتا ہے لہذا جو اللہ کے گھر بطورِ مہمان آئے اس کو ملنے والے انعامات یقیناًقابلِ رشک ہیں ۔
اعتکاف کی اقسام
اعتکاف کی مندرجہ ذیل تین قسمیں ہیں (۱)واجب(۲)سنت(۳)نفل
اعتکافِ واجب
جب کوئی شخص اعتکاف کرنے کی منت ما نے تویہ اعتکاف واجب ہوجاتا ہے پھر خواہ وہ منت کسی شرط پر موقوف ہو یا شرط پر موقوف نہ ہو شرط پر موقوف ہونے کی مثال یہ کہ ’’میرا فلاں کام ہوگیا تو اتنے دن اعتکاف کروں گا‘‘بغیر کسی شرط کے یوں ہی کچھ دنوں کا اعتکاف اپنے ذمہ لے تو بھی اعتکاف کرنا واجب ہوجائے گاالبتہ اس کے لئے ضروری یہ ہے کہ زبان سے ذمہ داری لی گئی ہو اگر زبان سے نہیں کہا صرف دل میں سوچا تو اس سے اعتکاف واجب نہیں ہوگا(عالمگیری جلد1صفحہ213،شامی جلد 2صفحہ 442)
مسنون اعتکاف
رمضان المبارک کے آخری عشرے کا اعتکاف سنتِ مؤکدہ علی الکفایہ ہے ،کفایہ کا مطلب یہ کہ مسجد کے پڑوسیوں میں سے کسی ایک کے کرنے سے سب بری الذمہ ہوجائیں گے(شامی جلد 2صفحہ442)
مستحب اعتکاف
مذکورہ بالا دو صورتوں کے علاوہ جو اعتکاف کیا جائے وہ مستحب کہلائے گا (عالمگیری جلد1صفحہ211،شامی جلد2صفحہ442)
مسنون اعتکاف کا آغاز
مسنون اعتکاف(جو رمضان کے آخری عشرے میں کیا جاتا ہے )کے لئے ضروری ہے کہ معتکف 20رمضان کے غروبِ آفتاب سے پہلے مسجد میں پہنچ جائے اور غروبِ آفتاب سے پہلے نیتِ اعتکاف بھی کر لے ،اسی طرح عورت بھی مذکورہ وقت پراعتکاف کے لئے مخصوص کردہ جگہ میں پہنچ جائے(عالمگیری جلد 1صفحہ212) اگر غروبِ آفتاب سے پہلے نہ پہنچ سکے تو سنت اعتکاف نہیں ہوگا یہ اعتکاف مستحب کہلائے گا۔
مسجد کی تعریف
اعتکاف کے دوران معتکف کو مسجد میں رکنا ضروری ہوتا ہے اس لئے یہ جاننا بھی ضروری ہے کہ مسجد سے مراد کون سی جگہ ہے ’’مسجد سے مراد وہ خاص حصہ ہے جسے نماز کی ادائیگی کے لئے مختص کیا گیا ہو‘‘جیسے مسجد کا حال،برآمدہ اور صحن وغیرہ اس کے علاوہ جگہ شرعی مسجد نہیں کہلاتی خواہ وہ ضروریاتِ مسجد کے لئے وقف ہو مثلاًوضوء خانہ،طہارت خانہ،غسل خانہ،امام کا حجرہ وغیرہ شرعاً مسجدمیں شامل نہیں ہیں (شامی جلد 2صفحہ446) مسجد کی دیگر منزلیں اور چھت اس وقت مسجد کا حصہ سمجھے جائیں گے جب راستہ شرعی مسجد ہی سے ہو اور اگر اوپر جانے کا راستہ نیچے موجود شرعی (جس کی تعریف گذر چکی ہے)میں سے نہ ہو بلکہ باہر سے ہو تو اوپر کی منزلیں ،چھت اور سیڑھی مسجد سے باہر ہیں معتکف وہاں نہیں جاسکتا (شامی جلد 2صفحہ446)نوٹ! اعتکاف ایسی مسجد میں کیا جائے جہاں پانچ وقتہ نماز باجماعت ہوتی ہو(شامی جلد 2صفحہ441)
وہ امور جن کی وجہ سے معتکف مسجد سے باہر جاسکتا ہے
اعتکاف ایک عبادت ہے اور ہر عبادت کی طرح اس میں بھی کچھ پابندیاں ہیں انھی پابندیوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ معتکف کو ہر وقت مسجد میں رہنا ہوگا صرف دو قسم کی حاجات کے پیش آنے پر مسجد سے باہر جاسکتا ہے (۱)طبعی حاجات(۲)شرعی حاجات
طبعی حاجات
*پیشاب،پاخانہ اور غسلِ جنابت کے لئے مسجد سے نکلنا جائز ہے (شامی جلد 2صفحہ445) اگر یہی حاجات مسجد میں پوری ہوسکتی ہوں اور مسجد کے آداب میں فرق بھی نہ آتا ہو تو مسجد ہی میں مذکورہ حاجات کو پورا کرنا درست ہے (شامی جلد 2صفحہ445)*اگر معتکف کے لئے کھانا لانے والا کوئی نہ ہو تو کھانا لانے کے لئے مسجد سے نکل سکتا ہے لیکن کھانا لیکر فوراً مسجد میں پہنچنا ہوگا تاخیر درست نہیں(شامی جلد 2صفحہ 449)*اگر مسجد کے اندر وضوء کرنے کی صورت میں مستعمل پانی مسجد میں نہ گرنے پائے تو وضوء مسجد میں ہی کیا جائے اور اگر ایسی صورت ممکن نہیں تو وضوء کے لئے مسجد سے باہر جانا درست ہے،خواہ وہ وضوء نماز کے لئے ہو یا دیگر اعمال کے لئے (عالمگیری جلد 1صفحہ212)
شرعی حاجات
*جب اذان کی جگہ اصل مسجد سے باہر ہوتو معتکف اذان دینے کیلئے مسجد سے جا سکتا ہے ،خواہ وہ باقاعدہ مؤذن ہے یا مؤذن نہیں ہے(شامی جلد 2صفحہ445)*اگر معتکف نے ایسی مسجد میں اعتکاف کیا جہاں جمعہ نہیں ہوتا تو وہ دوسری مسجد میں نمازِ جمعہ کے لئے جاسکتا ہے لیکن صرف اتنی دیر پہلے جائے جس میں دو نوافل اور چار سنت ادا کی جاسکتی ہوں اس سے ذیادہ دیر کے لئے نکلنا درست نہیں اور جمعہ کے فرضوں کا سلام پھرتے ہی واپس چلنا ضروری ہے(عالمگیری جلد 1صفحہ212)
معتکف کے لئے مباح امور
معتکف دورانِ اعتکاف مندرجہ ذیل کام کرسکتا ہے[۱]کھانا پینا [۲]لیٹنا اور سونا وغیرہ (شامی جلد 2صفحہ 448)[۳]لباس تبدیل کرنا (بدائع الصنائع جلد 2صفحہ 117)[۴]سر اور داڑھی وغیرہ میں تیل استعمال کرنا (عالمگیری جلد 1صفحہ213) مسجد کی چٹائی وغیرہ کو تیل سے بچانا ضروری ہے [۵]مباح باتیں کرنا یعنی کسی جائز امر اور ضرورت کے لئے بات کرنا درست ہے اور خاموشی کو عبادت سمجھنا ہر گز درست نہیں (شامی جلد 2صفحہ449)البتہ باقاعدہ بات چیت کے لئے محفل سجانا جائز نہیں [۶]سر دھونا ،اگر مسجد میں یوں سر دھویا جائے کہ اس سے مسجد کے اندر پانی نہ گرنے پائے تو ایسا کرنا جائز ہے (شامی جلد 2صفحہ 445)[۷]بضرورت محرم عورت سے ملنا [۸]کپڑے دھونا ،اگر کپڑے یوں دھوئے جائیں کہ مسجد میں پانی نہ گرے تو جائز(شامی جلد 2صفحہ 445)[۹]پردے لٹکانا ،یکسوئی کے حصول کے لئے اگر پردہ لٹکایا جائے تو جائز ہے کیونکہ خود رسول اللہ ﷺ سے دورانِ اعتکاف پردے لٹکانا ثابت ہے (صحیح مسلم جلد 1صفحہ380)[۱۰]چلنا پھرنا اور ٹہلنا، شرعی مسجد کے اندر اندر چلنے پھرنے یا ٹہلنے میں کوئی حرج نہیں[۱۱]مریض کا علاج کرنا ،اگر معتکف مریض کا معاینہ کر کے نسخہ لکھ دے یا دوا بتا دے تو کوئی حرج نہیں (شامی جلد 2صفحہ 448)[۱۲]موبائل پر بات کرنا ،بضرورت موبائل پر بات کر سکتے ہیں جیسے کھانا یا کوئی دوسری ضروری چیز منگوانے کے لئے فون کرنا ،ڈاکٹر سے اپنے مرض بارے مشورہ کرنا یا ان جیسے ضروری کام بذریعہ موبائل کرنا تاہم موبائل ہی کو مقصد بنالینا یا بلا ضرورت باتوں میں یااس میں موجود تفریحی پروگراموں میں مصروف رہنادرست نہیں ،کیونکہ یہ عبادت کے منافی ہے (شامی جلد 2صفحہ 450)
معتکف کے لئے مستحب امور
[۱]قرآن مجید کی تلاوت کثرت سے کرنا [۲]علماء کرام یا مستند دینی کتب سے مسائل دینیہ کو سیکھنا [۳]نفل نمازوں (تحیۃ الوضوء، تحیۃ المسجد،اشراق،چاشت،اوّابین ،تہجداور عمومی نوافل)کا حتی الامکان اہتمام کرنا [۴]اذکارِ مسنونہ پابندی سے بجا لانا[۵]درود شریف اور استغفار کی کثرت کرنا [۶]اپنے لئے اور جملہ مسلمین خصوصاً مظلومین ،مجاہدین اور دین کے محافظین کے لئے دعاؤں کا اہتمام کرنا[۷]شب قدر کی پانچوں راتوں میں خصوصیت کے ساتھ مصروفِ عبادت(نوافل،تلاوت،ذکر،استغفار،صلوٰۃ التسبیح وغیرہ میں)رہنا،اور شب بیداری کی کوشش کرنا [۸]لایعنی باتوں سے خود کو بچاناصرف خیر کے کلمات ادا کرنا [۹]سیرت النبی ﷺ،سیرت صحابہؓ ،سیرت وحیاتِ اسلاف یادیگر مستند اسلامی کتب کا مطالعہ کرنا (شامی جلد 2صفحہ450،فقہ السنہ جلد 4صفحہ 423اور دیگر کتب)
معتکف کے لئے ممنوع امور
[۱]شرعی مسجد کی حدود سے باہر جانا ،حاجتِ شرعی یا حاجتِ طبعی کے علاوہ بلاضرورت حدودِ مسجد سے باہر نکلنا ممنوع ہے باہر جانے کی صورت میں اعتکاف فاسد ہوجائے گا (عالمگیری جلد1صفحہ213)[۲]کھاناپینا ،دن میں کھانا پینا ممنوع ہے اگر ایسا کرلیا تو روزے کے ساتھ ساتھ اعتکاف بھی فاسد ہوگیا (عالمگیری جلد2صفحہ 213)[۳]سگریٹ،نسوار یا حقہ وغیر ہ استعمال کرنا ممنوع ہیں ،اگر کوئی آدمی باوجود کوشش کے ان سے نہیں رک سکتا تو کسی حاجت کیلئے جاتے وقت یہ کام مختصر ترین وقت میں کرلے لیکن فوراً منہ سے بُو ختم کرنا ضروری ہوگا(صحیح مسلم جلد 1صفحہ209)تاہم مسجد کے اندر یہ کام ناجائز ہے[۴]صرف ہاتھ دہونے،کلی کرنے یا دانت صاف کرنے کے لئے مسجد سے نکلناممنوع ہے (البحرالرائق جلد 2صفحہ302)[۵]تصویر والا اخبار یا رسالہ مسجد میں لانا [۶]مسجد میں اجرت پر تعلیم دینا[۷]مکمل خاموش رہنا اور اس کو اعتکاف کا حصہ سمجھنا [۸]مسجد میں سامان لاکر فروخت کرنا (شامی جلد 2صفحہ 448-449)یہ آخری چار کام مکروہ ہیں ۔
اعتکاف ٹوٹنے کی صورت میں قضاء کا طریقہ
نفل اعتکاف کسی بھی وجہ سے ختم ہوگیا تو اس کی قضاء نہیں ہے کیونکہ نفل اعتکاف منافی امر سے ٹوٹتا نہیں بلکہ مکمل ہوجاتا ہے،اگر واجب اعتکاف ٹوٹ گیا تو اُتنے دن کی قضاء ضروری ہے جتنے دن کی منت ابتداً مانی گئی تھی یعنی نئے سرے سے اعتکاف کرنا ہوگا ،اور اگرمسنون اعتکاف ٹوٹ گیا تو وہ ٹوٹنے کی وجہ سے نفل بن گیا لہذا اس ایک دن کی قضاء کرنا ہوگی جس میں ٹوٹا اور اس کی قضاء کرتے وقت دن اور رات دونوں کا اعتکاف کرنا ہوگا اور اس دن روزہ بھی رکھنا ضروری ہے(شامی جلد 1صفحہ444-450)
عورت کا اعتکاف
[۱]مردکی طرح عورت بھی اعتکاف کر کے نیکیاں کما سکتی ہے جیسا کی ازواج مطہّرات اعتکاف فرمایا کرتی تھیں (صحیح بخاری جلد 1صفحہ271)[۲]عورت اپنے گھر میں اعتکاف کرے اگر کوئی جگہ پہلے سے نماز کے لئے مختص ہے تو وہاں اعتکاف کرے اور اگر مختص نہیں تواعتکاف کے لئے جگہ مختص کر لے یہ جگہ عورت کے لئے بمنزلۂ مسجدکے ہے حاجتِ شرعی اور حاجتِ طبعی کے علاوہ اس سے باہر آنا جائز نہیں(عالمگیری جلد 1صفحہ211)یہاں وہ تمام ذمہ داریاں عائد ہونگی جو مرد کے لئے مسجد میں دوران اعتکاف عائد ہیں لہذا پہلے گذرے مسائل کا مطالعہ کیا جائے [۲]عورت کو اعتکاف میں بیٹھنے کے لئے شوہرسے اجازت لینا ضروری ہے،شوہر کی اجازت اور رضامندی کے بغیر عورت اعتکاف نہیں بیٹھ سکتی (عالمگیری جلد 1صفحہ211) [۳]عورت کے لئے دورانِ اعتکاف گھر کے کام کاج کرنا ممنوع ہیں کیونکہ وہ حکماً مسجد میں ہے اور اس پر اسی طرح پابندیاں ہیں جیسے مرد کے لئے مسجد میں ہوتی ہیں (عالمگیری جلد 1صفحہ211) دورانِ اعتکاف ’’ایّام‘‘ شروع ہوجائیں تو اعتکاف کو ختم کردے کیونکہ اعتکاف میں روزہ شرط ہے اور عورت کا روزہ ختم ہوچکا ہے(شامی جلد 2صفحہ444) بعد میں مذکورہ بالا تفصیل کے مطابق ایک دن کی قضاء کر لے۔
لیلۃ القدر
*پہلی امتوں کے لوگ لمبی اور طویل عمروں کے مالک ہوتے تھے اس لئے نیکی اور تقویٰ میں ان کی برابری امتِ محمدیہ علی صاحبھا الصلوٰۃ والسلام کے لئے ناممکن تھی لیکن اللہ تعالیٰ نے خصوصی کرم فرماتے ہوئے اس امت کو بذریع�ۂ پیغمبر ﷺ ایک ایسی رات عطاء فرمائی جس کی فضیلت ہزار مہینوں کی عبادت سے بھی ذیادہ ہے جیسا کہ قرآنِ کریم میں ہے: لَیْلَۃُ القَدْرِ خَیْرٌ مِّنْ اَلْفِ شَھْرٍ(سورۃ القدر،آیت نمبر2)لیلۃ القدر ہزار مہینے سے ذیادہ بہتر ہے* حدیث مبارک میں اس رات کی فضیلت کے بارے میں یوں فرمایا گیا:من قام لیلۃ القدر ایمانا واحتسابا غفرلہ ما تقدم من ذنبہٖ(صحیح بخاری جلد 1صفحہ270)جس نے ایمان و احتساب کے ساتھ لیلۃ القدر میں قیام (عبادت)کیااس کے پہلے تمام گناہ معاف کر دئے جائیں گے* ایک دوسری حدیث مبارک میں ہے کی جناب جبرئیل علیہ السلام اس رات کو فرشتوں کی جماعت کے ساتھ تشریف لاتے ہیں اور ہر اس شخص کے لئے دعا و استغفار کرتے ہیں جو کھڑے ہوکر یا بیٹھ کر عبادت میں مصروف ہو (شعب الایمان للبیھقی جلد 8صفحہ231) اس بابرکت رات کے بے شمار فضائل ہیں اور شریعتِ اسلامیہ میں اس رات کے فضائل حاصل کرنے کی خصوصی تر غیب دی گئی ہے جیسا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تحروا لیلۃ القدر فی الوتر من العشر الاواخر من رمضان (صحیح بخاری جلد 1صفحہ 270)لیلۃ القدر کو رمضان کے آخری عشرے کی طاق راتوں میں تلاش کرو،اس رات کی فضیلتیں بے شمار ہیں جنہیں حاصل کرنے کے لئے ہمیں بھر پور کوشش کرنی چاہئے او رمضان المبارک کے پورے مہینے میں بالعموم جبکہ آخری عشرے اور اس کی طاق راتوں میں بالخصوص خوب عبادت کرنی چاہئے اور رمضان کے مہینے کو ضائع ہر گز نہیں کرنا چاہئے ،اللہ پاک ہم سب کو عمل کی توفیق عطاء فرمائیں ،آمین بجاہ النبی الکریم
نوٹ!صدقۂ فطر کے احکام و مسائل الگ ترتیب دئے جارہے ہیں۔
کتبہ
مفتی زبیر احمد غفاری
فاضل و متخصص: جامعہ علوم اسلامیہ بنوری ٹاؤن کراچی ناشر
دارالافتاء أ جامعہ خلفائے راشدینؓ واسلامک اکیڈمی
میل سٹاپ کلر سیداں روڈ چوکپنڈوڑی،ضلع راولپنڈی
آپ کے مسائل کے شرعی حل کے لئے رابطہ
03125142878

اپنا تبصرہ بھیجیں