45

احسنِ تقویم انسان”– اللہ کا تخلیقی شاہکار


تحریر۔۔۔امجد علی
یقیناً قرآنِ حکیم کا طرزِ بیان ایک بے مثال ادبی معجزہ ہے۔ یہ محض الفاظ کا مجموعہ نہیں، بلکہ زندہ اور بیدار کلام ہے جو فصاحت و بلاغت کی بلندیوں کو چھوتا ہوا براہِ راست انسان کے دل و دماغ میں اترتا ہے۔ انسان کی فطرت میں تجسس، کہانی سے رغبت، اور معنویت کی پیاس ودیعت ہے، اور قرآن انہی دروازوں سے داخل ہو کر انسانی شعور سے ہمکلام ہوتا ہے۔
قرآن کا اسلوب کسی روایتی نثر، نظم یا فکشن کے سانچے میں محدود نہیں، مگر ان تمام اصناف کے اعلیٰ اوصاف اس میں سموئے ہوئے ہیں۔ وہ کہانیاں سناتا ہے، مکالمہ کرتا ہے، اور بعض اوقات یوں محسوس ہوتا ہے جیسے خالقِ کائنات خود براہِ راست قاری سے مخاطب ہے۔ یہی انداز قرآن کو محض مطالعہ یا سماعت کا عمل نہیں رہنے دیتا بلکہ انسان کے باطن کو جھنجھوڑ دیتا ہے۔ قرآن کی ہر داستان، حقیقت کی کوکھ سے جنم لے کر تمثیل کے لبادے میں انسان کی فکری ساخت کو متأثر کرتی ہے۔ یہ فکشن نہیں، مگر فکشن سے کہیں زیادہ مؤثر اور گیرائی رکھنے والا کلام ہے۔
اسی لیے قرآن بارہا انسان سے سوال کرتا ہے۔
“ہم نے قرآن کو سمجھنے کے لیے آسان بنایا، تو کوئی ہے جو غور کرے؟” (القمر)


مگر اکثر لوگ قرآن کی تلاوت تو کرتے ہیں، مگر وہ توجہ، وہ شعور، وہ لگن ناپید ہوتی ہے جو تدبر کے در وا کرے اور دل تک کلام کو پہنچائے۔ خالقِ کائنات جھنجھوڑ کر فرماتا ہے: “کیا تم عقل سے کام نہیں لیتے؟” کیونکہ یہ کلام تمہارے لیے ہے، تمہارے ہی باطن کی روشنی کے لیے ہے۔


قرآن کی ایک مختصر سی آیت جو ایک وسیع کائنات کی معنوی جھلک لیے ہوئے ہے اسے دیکھتے ہیں۔
“بے شک ہم نے انسان کو بہترین سانچے میں پیدا کیا۔” (سورۃ التین: 4)
“احسنِ تقویم” کے مفہوم میں کیا ہے۔
“احسن”: سب سے خوبصورت، بہترین
“تقویم”: ساخت، قامت، توازن، درستگی
یعنی “احسنِ تقویم” کا مطلب ہوا۔ “ایسی کامل اور متوازن تخلیق، جس میں حسن اور تناسب کی اعلیٰ ترین جھلک ہو”۔


عام طور پر اس آیت کو جسمانی حسن و جمال اور اعضاء کے تناسب پر محمول کیا جاتا ہے، اس بات میں بھی کسی شک کی گنجائش نہیں کہ وہ وجودی اعتبار سے بھی بیت خوبصورت ہے مگر انسان ایک جسم اور روح کا مرکب ہے۔ تو سوال یہ ہے کہ انسان کے کس تخلیقی مرحلے پر کو”احسنِ تقویم” کہا گیا؟ کیاجسمانی وجود کی تخلیق؟ اگر جسم کی پیدائش کو دیکھیں تو پہلا مرحلہ بچہ کی ماں کی گود میں آنکھ کھولنے کا ہے۔ مگر اکثر نومولود بچوں میں دل کے سوراخ، بینائی کے مسائل یا دیگر پیچیدگیاں دیکھی جاتی ہیں۔ اس لیے یہ مقام کامل تخلیق نہیں ہو سکتا۔


اب ہم حالتِ نطفہ کی طرف دیکھتے ہیں۔ یہاں بھی جینیاتی نقائص، جیسا کہ تھیلیسیمیا، وجود میں آ سکتے ہیں۔ گویا یہ مرحلہ بھی “احسنِ تقویم” کے معیار پر پورا نہیں اترتا۔ تو کامل تخلیق کیا ہے؟ قرآن میں فرمایا گیا:
“ہم نے انسان کو مٹی کے خلاصے سے پیدا کیا۔” (المؤمنون: 12)۔ مگر یہ بھی جسمانی وجود کی ابتدائیات میں شامل ہے اور اس میں بھی وہی مسائل درپیش ہیں۔
پھر سورۃ اعراف میں فرمایا:
“اور یاد کرو جب تمہارے رب نے بنی آدم کی پشتوں سے ان کی نسل نکالی اور پوچھا: کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں؟ سب نے کہا, کیوں نہیں!” (الاعراف: 172-7)
یہی مقام “عالمِ ارواح” کہلاتا ہے وہ لمحہ جب اروح تخلیق ہوئیں۔ اللہ نے فرمایا:
“پھر جب میں اس انسان کو سنوار بنا دوں، اور اس میں اپنی روح پھونک دوں، تو فرشتوں کو کہا کہ اسے سجدہ کرو۔” (الحجر: 29)
تو واضح ہوا کہ سجدے کا حکم جسمانی ساخت پر نہیں، بلکہ روحِ الٰہی کے نفخ کے بعد ہوا۔
یہی وہ “سوفٹ ویئر” ہے جو انسان کو “خلیفۃ اللّٰہ” کے منصب پر فائز کرتا ہے۔ یہی “احسنِ تقویم” ہے۔ یہ اللہ، جو زمین و آسماں کا نور ہے، کا بنایا سوفٹوئیر ہے۔ اس نسبت سے اس کا اعلی، کامل اور صورت نور (انرجی، اور روشنی) ہونا لازم ہے۔ "تقویم" کے استعارہ، کیلنڈر اور کوڈ کو دیکھیں۔ لغت میں "تقویم" کا ایک تاریخی اور لغوی مطلب "کیلنڈر" اور نحویات بھی ہے

کیلنڈر یعنی وقت کی پیمائش کے لیے ترتیب دیا گیا کیلنڈر درحقیقت اعداد کا ایک منظم نظام ہے۔ اور اعداد، خاص طور پر صفر، ہر سوفٹ ویئر کی بنیاد ہوتے ہیں۔ گویا انسان کی روح بھی اعدادی ترتیب پر مبنی ایسا کامل نظام ہے، جو ہر عضو، ہر خلیے کو ٹریلنز ہدایات دیتا ہے، بغیر کسی خرابی، بغیر کسی اوورلیپ یا مسنگ مشنز کے۔ یہ تسبیح کے پاک دانوں (صفر) کی طرح نورانی دائروں میں متشکل ہے۔ یہ انسان اعظم کا اصل سوفٹوئیر ہے جبکہ ہر فرد میں موجود عقل، دماغ اس کا شیڈو سوفٹوئیر ہے جس کو آج کا انسان کاپی کر کے اے آئی بنا کر زمین و آسماں میں اڑ رہا ہے۔ یہی وہ سافٹ ویئر ہے جو انسان کو اندر سے متحرک کرتا ہے۔ یہی اس کا اندرونی لوجیکل یونٹ ہے جو بتاتا ہے کہ کیا غلط ہے اور کیا درست۔ اگر انسان اس کمپاس کو نظرانداز کر دے، تو پھر جسم چاہے کتنا ہی حسین کیوں نہ ہو، وہ محض خالی خول رہ جاتا ہے۔ اس سوفٹوئیر میں مستعمل ہر عدد اور ہر سیٹ آف انسڑکشنز باکمال ہے۔ انسان کے اندر یہ نہایت اعلی فطری نظامِ ہدایت نصب ہے۔ اگر ہم اپنے ضمیر، وجدان اور دل کی اپلیکیشنز کو درست استعمال کریں اور انکی صدا پر لبیک کہیں، تو ہم یقیننا احسنِ تقویم کا شاہکار بن جائیں گے۔ مگر اگر ہم نے اپنے سوفٹ ویئر کو تعصبات، حرص، لالچ، اور گمراہی کے وائرس سے کرپٹ کر دیا تو پھر ہمارا روحانی نظام تباہ ہو جاتا ہے۔

شیخ اکبر محی الدین ابن عربی اس آیت کے بارے میں لکھتے ہیں۔ انسان کو آئینہ حق بنایا گیا ہے اس لیے احسن تقویم کا اصل حسن وہ مقام ہے جہاں انسان میں خدائی صفات جھلکتی ہیں۔ ان کے نزدیک یہ آیت روح انسان کی بلندی، امکان تکمیل اور اس کی اللہ کے قرب تک رسائی کی خبر دیتی ہے۔
“احسنِ تقویم” محض الفاظ نہیں یہ اللہ کی تخلیق کا وہ بلند درجہ ہے، جس کا اصل مرکز انسان کی روح ہے۔
اور وہی روح ہمیں اپنے رب کے حضور سجدے کے لائق بناتی ہے۔
واللہ اعلم بالصواب

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں