احسان فراموش قوم

تحریر:محمد شہزاد نقشبندی
تحریک پاکستان میں ایک وقت ایسا بھی آیا کہ آل انڈیا مسلم لیگ کے پاس کوئی ہمہ جہت خوبیوں والی شخصیت نہیں تھی جو مسلمانان ہند کی قیادت سنبھال کر ان کو گروہی لسانی علاقائی تعصبات سے نکال کر ایک ہی لڑی میں پرو دے اور ان کو غلامی سے نفرت دلا کر آزادی کی ایسی تڑپ و لگن پیدا کر دے کہ جان تو نکل جائے لیکن وہ اپنے نظریے سے پیچھے نہ ہٹیں ان کا ہر ہر لمحہ آزادی کی سوچ وبیچار اور اس کے لیے تکودو اور کام کرتے گزرے وہ جو منزل ان سے کوسوں دور ہے جس کا سفر بہت کٹھن اور طویل ہے اس کو وہ اپنی محنت اور لگن سے اپنے قریب کر لیں لیکن افسوس یہ کہ کوئی ایسی شخصیت نظر نہیں آ رہی تھی جس میں یہ ساری خوبیاں موجود ہوں اور مسلم زعماء کی اکثریت بھی اس کو قبول کر کے اس کے مددگار اور معاون بن جائیں امت مسلمہ کے درد میں رونے والے حکیم الامت علامہ محمد اقبال کی سوچ اور بصیرت نے آخر کار بھانپ لیا کہ مسلمانوں کی کشتی جو بھنور میں پھنس چکی ہے اس کو اس گرداب سے نکال کر کنارے تک باحفاظت لے کر جانے والی شخصیت ایک ہی ہے اور وہ شخصیت قائد اعظم محمد علی جناح کی ہے لیکن اب ایک مسئلہ تھا وہ یہ کہ محمد علی جناح مسلم لیگ کے لیڈروں کی نالائقی اور آپسی چپقلش اور روز روز کے جھگڑوں سے تنگ آکرہندوستان کو ہی خیر آباد کر کے مستقل طور پر انگلستان چلے گے تھے حکیم الامت نے ان کو خطوط لکھے انہوں خطوط میں مسلمانوں کی کسمپرسی اور لاچاری اور بے بسی کا تذکرہ کیا اور انہیں باور کرایا کہ وہ شخص آپ ہی ہیں جو ان کی رہبری کر سکتے ہیں اور آپ کی مخلصانہ کوشش سے یہ ضرور اپنی منزل کو حاصل کر لیں گے آخر کا قائد اعظم محمد علی جناح 1934 میں دوبارہ ہندوستان واپس آگے اور مسلم لیگ کی قیادت سنبھال لی اپنی جان کی بھی پرواہ کیے بغیر انتھک محنت و مشقت سے مسلمانان ہند کو باحفاظت اپنی منزل پر پہنچا دیا وہ عظیم قائد جس نے جدوجہد مسلسل میں اپنی بیماری کو بھی کسی پر ظاہر نہیں کیا کہ کہیں میری بیماری کی وجہ سے مسلمان اپنی منزل سے بھٹک نہ جائیں لیکن اس قائد کے سا تھ ہم نے کیا کیا اس عظیم بیمار قائد کو لینے کے لیے وہ ایمبولینس بھیجی جس میں پیٹرول ہی نہیں تھا اور وہ پیٹرول ختم بھی اس جگہ ہوا جہاں گندگی کے ڈھیر تھے تاکہ مرض اور بڑھ جائے افسوس صد افسوس یہی نہیں ہم نے اس قائد کی عظیم بہن کے ساتھ کیا کیا جس نے اس قوم کی خاطر وہ قربانی بھی دے دی جو ہر لڑکی کی آرزو ہوتی ہے یعنی شادی تاکہ بھائی کا سہارا بن سکیں وہ اپنے بھائی کے شانہ بشانہ مردوں کی طرح کھڑی ہوئیں لیکن جب صدارتی الیکشن لڑا تو ان پر وہ وہ آوازیں کسیں الامان و الحفیظ وہ وہ بہتان تراشیاں کیں جو انسان ایک فحشہ پر بھی لگانے سے ڈرتا ہے ہم نے وہ بہتان اس پاکباز و مجاہدہ عورت پر لگائے صرف اور صرف اپنے وقتی اقتدار کے حصول کے لیے یہ ہم نے ان کو انعام دیا جو انہوں نے ہماری آزادی کے حصول کے لیے قربانیاں پیش کیں تھیں چوہدری رحمت کے ساتھ ہم نے کیا کیا جو پاکستان نام کے خالق تھے جنہوں نےNo Or Newer کے نام سے کتابچہ لکھ کر قائدین تحریک پاکستان کو اپنی جدوجہد تیز کرنے پر مجبور کیا لیکن جب وہ پاکستان تشریف لائے توہم نے ان کے ساتھ وہ برتاؤ کیا کہ ان کو اس ملک میں دو گز زمین بھی نصیب نہیں ہوئی جس کے لیے انہوں نے جدوجہد مسلسل کی تھی ان محسنوں کی فہرست میں ایک نام ڈاکٹر عبد القدیر خان کا بھی ہے 1936 میں انڈیا کے شہر بھوپال میں پیدا ہونے والے ڈاکٹر عبد القدیر خان کا تعلق پشتون خاندان اورکزئی قبیلہ سے تھا ان کے بہن بھائی 1947 میں ہی انڈیا سے پاکستان ہجرت کر چکے تھے تاہم ڈاکٹر اے کیو خان انڈیا میں 1951 سے اپنے والدین کے ہمراہ ہجرت کرکے پاکستان منتقل ہوئے جامعہ کراچی سے ماسٹر کیا اور کراچی میٹرو پولیٹن کارپوریشن میں ملازمت اختیار کر لی جس کے بعد وہ سکالرشپ کے تحت اعلی تعلیم حاصل کرنے جرمنی اور پھر ہالینڈ چلے گے جہاں سے انہوں نے مٹیریل ٹیکنالوجی میں ایم ایس اور بعدازاں بیلجیئم میں میٹلرارجیکل انجیئنرنگ میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی ڈاکٹر عبد القدیر خان نے ہالینڈ میں قیام کے دوران ہی ایک مقامی لڑکی ہنی خان سے شادی کر لی جو اب ہنی خان کہلاتی ہیں اور جن سے ان کی دو بیٹیاں ہیں 1965 کی جنگ کے بعد جب یہ خبر پھیلی کہ انڈیا ایٹمی ہتھیار بنا رہا ہے تو ہمارے ہاں کافی ہل چل مچی کچھ عرصہ بعد 1972 میں جب انڈیا نے ایٹمی ہتھیار کا کامیاب تجربہ کیا تو پاکستان کو اپنا وجود برقرار رکھنے کے لیے تشویش پیدا ہو گئی کیونکہ خطے میں طاقت کا توازن ایک طرف ہو گیا تھا اس وقت ذوالفقار علی بھٹو نے کہا ہم روکھی سوکھی کھا لیں گے لیکن ایٹمی طاقت ضرور حاصل کریں گے ایٹمی ری ایکٹر کے لیے فرانس سے معاہدہ ہوا لیکن بعد ازاں انہوں نے معاہدہ توڑ دیا اسی دوران ڈاکٹر خان نے حکومت پاکستان کو خطوط ارسال کیے انہوں نے 1974 میں اس وقت کے وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کو اس حوالے سے دو خط ارسال کیے جس کے بعد انہیں وزیراعظم سے ملاقات کے لیے اسلام آباد بلایا گیا اس ملاقات کے بعد ڈاکٹر خان دو سال تک ہالینڈ میں ہی رہے اور 1976 میں باضابطہ طور پر پاکستان تشریف لائے اور ایٹمی پروگرام میں شامل ہوگئے تقریباً 1984 تک وہ کامیابی حاصل کر چکے تھے لیکن عالمی دباؤ کی وجہ سے دھماکہ نہیں کرسکے خوش قسمتی سے 11اور13 مئی1998کو انڈیا نے بترتیب تین اور دو دھماکے کر کے پاکستان کو موقع فراہم کر دیا پاکستان نے جواباً 28 مئی1998 کو چاغی کے مقام پر سات دھماکے کر کے دنیا کی ایٹمی طاقت بن گیا اس سے پہلے وہ غوری میزائل کا کامیاب تجربہ بھی کر چکے تھے تحریک پاکستان کے قائدین کے بعد پاکستانی عوام کا سب سے بڑا محسن ڈاکٹر خان تھا جس نے ہمارے دفاع کو ناقابل تسخیر بنایا لیکن ہم نے اس محسن عظیم کے ساتھ کیا کیا صرف امریکہ کے کہنے پر اس محسن عظیم کا سر پوری دنیا کے سامنے جھکا دیا ہوا یوں کہ امریکی صدر جارج ڈبلیو بش انتظامیہ کی جانب سے 2003 میں ڈاکٹر خان پر یورینیم دیگر ممالک کو فراہم کرنے کے الزامات عائد کیے سابق صدر پرویز مشرف نے ڈاکٹر خان پر دباؤ ڈالتے ہوئے سرکاری ٹیلی ویژن پر ان سے معذرت کروائی جس کے بعد ان کے خلاف باضابطہ انکوائری کا آغاز کیا گیا اور ڈاکٹر خان کو ان کے گھر میں نظر بند کر دیا گیا ڈاکٹر خان 26 آگست کو کرونا سے متاثر ہوئے اور 10 ستمبر 2021کو اپنے خالق حقیقی سے جا ملے پہلے ہوا جو ہوا مجھے افسوس تو اس بات پر ہوا کہ دس ستمبر کو ان کی برسی گزری اس موقع پر نہ سرکاری سطح پر اور نہ ہی نجی سطح پر کوئی دعائیہ تقریب منعقد ہوئی اور نہ ہی اخبارات کے رنگین ایڈیشن شائع ہوئے کیا وہ یاد رکھنے کے مستحق نہیں تھے کیا اس ملک وقوم کے لیے ان کی خدمات کم تھیں کیا زندہ قومیں اپنے محسنوں کے ساتھ یہی سلوک کرتی ہیں کہ ان کی آنکھیں بند ھوں اور ہم بھول جائیں نہیں ہر گز نہیں زندہ قومیں تو ان کو ماتھے کا جھومر بناتی ہیں یہ رویہ دیکھ کر مجھے پریشانی لاحق ہو جاتی ہے کہ کہیں ہم احسان فراموش قوم تو نہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں