احساس اور احسان

احساس اور احسان کرنے والے کبھی مفلس نہیں ہوتے۔ وہ شخص بھلا کیسے غریب ہو سکتا ہے جو دوسروں کو کچھ دے رہا ہوتا ہے۔ دوسروں کا احساس اور دوسروں پر اس طرح احسان کرنا کہ دوسرا اس کو احسان جانے مگر ہم اس کو آٹے میں نمک کے برابر جانیں۔ اسی لیئے کہا جاتا ہے کہ نیکی کر دریا میں ڈال۔ ہاتھ پکڑنے اور ہاتھ تھامنے میں بہت فرق ہے۔ پکڑنے والے ہاتھ کی پکڑ چاہے کتنی ہی مضبوط کیوں نہ ہو وہ وقتی ہی ہوتی ہے مگر تھامنے والے ہاتھ تا حیات ہوتے ہیں۔ اس عام سی اور عارضی دُنیا میں بے شمار افراد نے ہمارے ہاتھ وقتی طور پر پکڑے اور مطلب پورا ہونے پر ہزاروں افراد اور ہزاروں مسائل کے درمیان اچانک چھوڑ دیا۔ یہ سب احساس کے ہونے یا نہ ہونے کی عکاسی کرتا ہے۔ احساس وہ جذبہ ہے کہ جس کا کوئی نعم البدل نہیں۔ سڑک عبور کرتے ہوئے والد آگے اور اولاد اس کے پیچھے ہوتی ہے حالانکہ والد نے ان تین چار بچوں کے ہاتھ کیسے پکڑنے ہیں۔ یعنی اس وقت والد اپنی اولاد کے ہاتھ بظاہر نہ پکڑ کر بھی مکمل گرفت کے ساتھ ان سب کو تھاما ہوا ہوتا ہے۔ اولاد بلا خوف و خطر باپ کے ساتھ رواں دواں ہوتی ہے۔ باپ کا احساس بھی ہے اولاد کے لیئے اور احسان بھی۔ یاد رکھنے والی بات کہ برداشت اوراحترام جب تک ہمارے ساتھ ہیں ہم مفلس ہر گز نہیں ہوں گے۔ اور جب یہ دونوں ہم لے کر چلیں گے تو ہم احساس والے اور احسان والے ہو جائیں گے۔ لوگ ہماری غیر موجودگی میں ہماری تعریف کریں گے جو کہ کسی دُعا سے کم نہیں۔ زندگی کتنی ہی تنگ، راستے کتنے ہی تاریک اور وسائل کتنے ہی محدود کیوں نہ ہوں اپنے ربّ پر بھروسہ رکھیں وہی مشکل کشا ہے۔ اب ربّ پر بھروسہ وہی رکھ سکتا ہے جو ایمان کے دولت سے لبریز ہوتا ہے۔ لہذا اللہ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں ایمان کی دولت سے مالا مال کر دے۔ کہا جاتا ہے کہ نیت صاف، منزل آسان۔ صاف نیت ایمان کی تکمیل کی طرف جانے والی شارع عام ہے اور اس راستے میں نہ کوئی موڑ ہے نہ رکاوٹ۔ خود کو احساس کمتری سے جتنا ہو سکے بچائیں کیوں کہ احساس کمتری شکست کی سب سے پہلی سیڑھی ہے۔ مگر احساس برتری نام ہی شکست کا ہے۔ لہذا زندگی میں میانہ روی اختیار کریں تاکہ کسی گڑھے میں گر کر بھی بچ جائیں۔ ہم نے اور آپ نے اکثر دیکھا ہو گا کہ کسی شخص کو گاڑی کی ٹکر لگی اور وہ مکمل طور پر بچ گیا۔ اور دوسرا شخص جس کو گاڑی لگی وہ ایک دم اللہ کو پیارا ہو گیا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ موت کا ایک وقت مقرر ہے اور وہ آ کر ہی رہے گی مگر یاد رکھنا جب گاڑی افراتفری میں انتہائی تیز چلائی جائے تو اس کی زد میں آ کر زخمی ہونے والا بچ نہ پائے گا۔ اور اگر گاڑی کی رفتار آہستہ ہو تو اس کے نیچے آ کر زخمی ہوجانے والا بچ سکتا ہے۔ لہذااپنی زندگی میں اپنی رفتار اتنی رکھیں کہ جس سے کسی دوسرے کو کوئی نقصان نہ ہو۔ اب اس رفتار میں ہمارا غرور، تکبر اورریاکاری جیسے عوامل اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ ریاکار شخص کی عبادتیں ریت کے ذرّوں کی طرح ہاتھ کی انگلیوں سے غائب ہوتی جاتی ہیں جس کااحساس اسے جہنم میں جا کر ہی ہوتا ہے۔ان سب عوامل کے پیچھے احساس اور احسان اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔ دوسروں کا احساس اور ان پر احسان زندگی کو نکھار عطا کر دیتا ہے۔ احساس اس کائنات کا حسن ہے اور احسان اس اس حسن میں تازگی پیدا کرتا ہے۔ دُنیا میں جہاں جہاں امن اور خوشخالی ہے وہ صرف اور صرف احساس کی بدولت ہے اور جہاں جہاں آرام و سکون اور خوشیاں راج کرتی ہیں و ہ احسان ہی کی بدولت ہیں۔ یاد رکھیں اگر آپ کے وسائل محدود
ہیں تو اس میں آپ کی قسمت کا ہاتھ ہو سکتا ہے۔ لیکن اگر آپ کی سوچ محدود ہے تو اس کے ذمہ دار آپ خود ہیں۔ دُنیا میں آپ کا حقیقی مقام وہی ہے جس کا ا ظہار لوگ آپ کی غیر موجودگی میں کرتے ہیں۔ اور غیر موجودگی میں کسی سے اپنی تعریف کروانا نسلوں کا پتہ دیتی ہے اور اپنی تذلیل کروانا بھی نسلوں کا پتہ دیتی ہے۔ میں نے اور آپ نے اکثر دیکھا ہو گا کہ جس کا ضمیر مطمئن ہو اس کا چہرہ شاداب رہتا ہے۔ اللہ پاک آپ اور آپ سے منسلک افراد کو ہزاروں خوشیاں اور تاحیات بہترین صحت عطا فرمائے آمین۔ مگر یاد رہے کہ مطمئن ضمیر، اچھی صحت، خوشگوار زندگی، شاداب چہرہ، دائمی خوشیاں اور اخروی زندگی میں کامیابی صرف اور صرف بہترین ایمان، احساس اور احسان سے ہی ممکن ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں