احساسِ ندامت

جنوری کی سرد صبح اچانک احمد سے مُلاقات ہوئی۔ احمد نے جب مجھ سے ہاتھ ملایا تو اس کی آنکھیں نم تھیں۔ میں نے اس کا حال پوچھا تو اس نے کہا ”اللہ کا شکر ہے“لیکن اس کی آواز میں عجیب سی غمزدہ کر دینے والی تھر تھراہٹ تھی۔ وہ مجھے کافی عرصے بعد مل رہا تھا۔ اُداسی کی وجہ پوچھنے پر کہنے لگا کہ آج کے خبرنامے میں بتا رہے تھے کہ کل سے سی این جی بند ہو رہی ہے۔ اس وقت سے لے کر اب تک دل و دماغ ایک سکتے کی کیفیت میں ہیں۔ میرے بچے کھانا کہاں سے کھائیں گے؟ میری گاڑی میں پٹر ول کا سسٹم خراب ہے اور میرے پاس اتنے پیسے بھی نہیں کہ میں یہ کام کروا سکوں۔ دوسری بات یہ کہ اگر پٹرول کے ذریعے میں ٹیکسی چلاتا بھی ہوں تو کون بیٹھے گا میری ٹیکسی میں؟ اس ملک میں غریب غریب تر ہوتا جا رہا ہے۔ کہنے لگا کہ آپ ٹھیک کہتے ہیں کہ انسان کو یہ زیب نہیں دیتا کہ وہ پر لگا کر ہوا میں اُڑنا شروع کر دے اور اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی دولت کا بے دریغ اور غلط استعمال کرے۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے آپ مجھے ہر غلط کام سے منع کیا کرتے تھے۔ جب کسی کے پاس سائیکل نہیں ہوتی تھی تو اس وقت میرے پاس گاڑی اور بائیک دونوں موجود تھے کیونکہ میرا باپ سعودی عرب میں محنت مزدوری کرتا تھا اور ہم پاکستان میں گل چھرے اُڑاتے تھے۔ جب دس روپے کئی سو روپے کے برابر ہوا کرتے تھے تب میں اپنے دوستوں کے لیے ہزاروں لٹایا کرتا تھااور وہ بھی غلط کاموں پر۔والدہ یا بہن اگر چند روپے کی فرمائش کرتی تووہ بھی پوری کرنا میرے نصیب میں نہیں تھا۔ کیونکہ میں اس خرچ کو فضول خرچی کے زمرے میں لاتا تھا۔ شائد اللہ مجھ سے اچھا کام کروانا ہی نہیں چاہتا تھا۔ آج نہ تو باپ رہا نہ ہی پل پل دعاؤں کے ہار پرونے اور پہنانے والی ماں۔یہ جملہ بول کر وہ رو پڑا۔ کہنے لگا آج میں ہوں اور میری تنہائی اور تنہائی بھی ایسی کہ سینکڑوں لوگوں کے ہجوم میں بیٹھ کر بھی تنہا ہوں۔ سوچتا ہوں کہ یہ سب میری لاپرواہیوں اور قیمتی وقت کو ضائع کرنے کا نتیجہ ہے۔پھر میں نے اس کی تعلیم کے بارے میں پوچھا کہ شائد اسے مزید تعلیم حاصل کرنے کی فکر ہوئی ہو اور اس نے آگے پڑھ لیا ہو۔ لیکن جواب میں اس نے کہا کہ شاہد بھائی آپکو یاد ہے کہ بی کام پارٹ ٹو کے امتحانات کے دوران کمرہ امتحان میں ایک اُستاد سے میں نے بد تمیزی کی اور زیادتی کی تھی۔ وہ اُستاد میرے باپ کے برابر تھا میں اسے مارنے کے لیے دوڑا تھا اور وہ خاموشی سے حیرت زدہ ہو کر مجھے تکتہ رہا۔ شائد وہ یہ سوچ رہا تھا کہ کسی کی اولاد اتنی بُری بھی ہو سکتی ہے کہ اپنے ہی باپ کو مارنے کے لیے دوڑ پڑے۔ میرا خون اتنا گرم تھا کہ میرے پاؤں زمین پر ٹکتے ہی نہیں تھے۔ میں واقعی ہواؤں میں اُڑا کرتا تھا اورغریب لڑکوں کا مزاق بھی اُڑایا کرتا تھا۔ آج وہ میرے غریب دوست اتنے
بڑے بڑے عہدوں پر فائز ہیں کہ ایک ٹیلی فون کال پر مجھے اپنے دفتر میں چپڑاسی یا کلرک رکھ سکتے ہیں لیکن میں کس منہ سے ان کے پاس جاؤں۔ کاش مجھے اندازہ ہوتا کہ اچھا یا بُرا وقت ہمیشہ ایک جیسا نہیں رہتا تو میں اللہ کی ذات سے ڈر ڈر کر زندگی گزارتا۔ عین اس وقت میں نے دیکھا کہ اس کی آنکھ سے ایک موتی گرا جس کی قیمت کا اندازہ کم از کم میں ضرور کر سکتا ہوں۔ اس دن اس کا ماضی میرے ذہن میں اور اس کا حال میرے سامنے کھڑا تھا۔ شیخ سعدی نے کیا خوب کہا ہے کہ ”جب مجھے پتہ چلا کہ مخمل کے بستر اور زمین پر سونے والوں کے خواب ایک جیسے اور قبر بھی ایک جیسی ہوتی ہے تو مجھے اللہ کے انصاف پر یقین آ گیا“۔ پچھتاوے کی آگ میں جلنے والے اس دوست کی حالت مجھ سے دیکھی نہیں جا رہی تھی۔ میں نے اسے بچوں کی طرح بہلانا شروع کر دیا اور وہ بچوں کی طرح بہلتا چلا گیا۔ پھر میں نے کسی کا ایک قول اُسے سُنایا کہ ”جو چیز تمہارے لیے ہے وہ صرف تمہارے لیے ہی ہے۔ بس دیر سے آنا کسی حکمت کی وجہ سے ہوتا ہے اور اسکی حکمت بے شک ہماری سمجھ سے باہر ہے“۔ تسلی کے یہ سارے جملے اسے روزگار مہیا نہ کر سکے اور وہ وہاں سے چل دیا۔ چند دن بعدوہ دوبارہ میرے پاس آیا اور کہنے لگا کہ اب تو ٹیکسی بھی میرے پاس نہ رہی کیونکہ ٹیکسی کے مالک نے یہ کہہ کر مجھ سے واپس لے لی کہ آپ کو کام کرنے کا جی نہیں کرتا۔ اُسے کیا پتہ کہ میں کن حالات سے گزر رہا ہوں۔ دراصل میں نے وقت دولت اور محترم رشتوں کی بے قدری کی لہذا آج بھگت رہا ہوں۔حالات و واقعات کابغور جائزہ لینے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس طرح کے لاکھوں مزدور اس ملک میں غربت کی چکی میں پس رہے ہیں۔ یہ کوئی اکیلا گنہگار نہیں ہے۔ اس دور میں ہر انسان بُرائیوں کی دلدل میں دھنستا چلا جا رہا ہے اور اللہ جسے چاہے آزمائش میں ڈال دے۔ فرق صرف یہ ہے کہ کچھ لوگوں کو اس بات کا یقین ہو جاتا ہے کہ یہ سب ان کے گناہوں کا بدلہ ہے۔ احمد کو اپنی غلطیوں کا احساس ہو گیا تھا جب کہ ہر کوئی یہ احساس کرنے کی کوشش ہی نہیں کرتا۔ لیکن ایک بات طے ہے کہ غربت کے منحوس چکر نے اس ملک کی معیشت کو تباہ و برباد کر ڈالا ہے۔ ملکی دولت اور روزگار پر قابض طبقہ فرعونیت کی حدیں عبور کر رہا ہے۔ اور لوگ یہ سمجھ رہے ہیں کہ یہ آزمائش صرف غریبوں کے لیے ہے۔ ایسے زمینی خدا یہ مت بھولیں کہ بحری جہاز جب ڈوبتا ہے تو تیراک بھی ہلاک ہو جایا کرتے ہیں اور اللہ نہ کرے کبھی ایسا ہو۔ کیونکہ سمندر کی لہریں اتنی ظالم ہوتی ہیں کہ انسان کی طاقت ان کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں۔ لہذااگر ہمارا کوئی مسلمان بھائی بھوکا اور پیاسا ہے تو یہ ہماری غیرت کا امتحان ہے۔ سربراہان مملکت کا یہ فرض ہے کہ انسان کو اس کی سرحد کے اندر بسنے والے ہر ذی روح کی خوراک کا وسیلہ بنیں۔ اللہ کی ذات دولت اور تخت دونوں دے کر آزمارہی ہوتی ہے ورنہ وہ تختہء دار پر بھی چڑہا دیا کرتا ہے۔ آج دولت کے نشے میں چور یہ ذمہ دار لوگ گلی گلی بے سکون پھرتے ہیں کیونکہ دولت اور عیش و عشرت اخلاقی بے راہ روی تو دے سکتی ہے لیکن سکون کبھی نہیں دے سکتی۔ یہاں اتنا ہی کہنا کافی ہے کہ ”سکون حاصل کرنے کی کوشش چھوڑ دو سکون دینے کی کوشش کرو تو سکون خود بخود مل جائے گا۔بے سکونی تمنا کانام ہے جب تمنا فرمان الٰہی کے تابع ہو جائے تو سکون شروع ہو جایا کرتا ہے“۔ مختصر یہ کہ میں نے احمد کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر اسکو تسلی دی کہ میں آپ کی نوکری کا ددبندوبست کرتا ہوں بس اتنا یاد رکھنا کہ ”زندگی میں اگر بُرا وقت نہ
آئے تو اپنوں میں چھپے غیر اور غیروں میں چھپے ہوئے اپنے دونوں کیسے ظاہر ہوتے؟؟“۔

اپنا تبصرہ بھیجیں